احسان

198

’’اللہ مياں میرے ابو کی حفاظت کرنا‘‘ننھے رمیز کی آواز بھرا رہی تھی،ابو کے بڑھتے قدم رک گئے، رمیز کی آواز میں کچھ ایسا سوز رچا تھا کہ زمین نے گویا ابو کے قدم جکڑ لیے لیکن نماز میں وقت کم رہ جاتا اس لیے انھوں نے جائے نماز اٹھائی اور کمرے سے باہرنکل آئے – نماز پڑھ کر وہ لاؤنج میں آکر بیٹھ گئے،رمیز بھی نماز ختم کرکے وہیں تھا- انھوں نے غور سے بیٹے کا چہرہ دیکھا، یونیفارم ، بستہ ، جوتے سب کچھ دلا کر لائے تھے، اس وقت اس کو ان سب چیزوں میں مگن ہونا چاہیے تھا مگر نہ جانے کیا بات ہوئی۔انھوں نے کن اکھیوں سے رمیز کی طرف دیکھا اور اس کی طرف بازو پھیلادیے- وہ بھی ان کی بغل میں آ کر بیٹھ گیا ۔
’’تو پھر آپ کو اپنی شاپنگ کی چیزیں پسند آئیں؟‘‘
’’بہت پسند آئیں۔ آپ میرے بہت اچھے ابو ہیں، اتنی ساری چیزیں دلاتے ہیں- مگر…جس کے ابو نہیں ہوتے،اس کی چیزیں نہیں آتیں ؟‘‘ اور اس کی آواز پھر سے گلو گیر ہونے لگی۔
انہوں نے بیٹے کے ماتھے کو چومتے ہوئے کہا’’آج ہمارا بیٹا اتنا اداس کيوں ہے‘‘۔
امی بھی اس دوران میں چائے کی ٹرے لے کر آ چکی تھیں’’ابو میرا دوست ہے، اس کا ایک ہی یونیفارم ہے، وہ بھی چھوٹا ہو گیا ہے، بیگ بھی خراب ہو گیا ہے، اس کی نئی چیزیں نہیں آتیں‘‘ ۔
’’اچھا !! تو کیا وہ بہت غریب ہیں؟‘‘ ابو نے ہمدردی سے پوچھا۔
’’پہلے تو اس کی چیزیں بہت اچھی ہوتی تھی مگر اب۔۔۔‘‘کہتے کہتے رمیز کے گالوں پر آنسو بہنے لگے ’’اب کیا ہو ا؟‘‘ ابو نے اس کا چہرہ صاف کرتے ہوئے پوچھا ’’اب اس کے ابو فوت ہو گئے ہیں‘‘رميز کی سسکی نکل گئی ۔
’’ اوووہ !!!‘‘امی ابو دونوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا – کچھ دیر خاموشی رہی پھر ابو نے پوچھا’’کیسے؟‘‘
’’ ان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا- حارث کا چھوٹا بھائی بھی اس کے بابا کے ساتھ بائیک پر تھا وہ بھی۔۔۔۔‘‘ اب رمیز کی ہچکیا ں بندھ چکی تھیں – امی ابو بھی اداس ہوگئے۔ ’’ آپ نے ہميں پہلے کبھی اپنے دوست کے بارے میں کيوں نہیں بتایا ، ہم اس کے لیے بھی چیزیں لے لیتے- اب آپ ایسا کیجیے آپ اپنے دو یونفام میں سے ایک اس کو دے ديں‘‘۔
’’ہاں ٹھیک ہے‘‘ رمیز نے ان کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اس طرح کہا،گویا وہ یہی چاہتا ہو۔’’امی اس کی ماما بھی بہت اچھی ہیں، آپ ان سے ملیے گا، وہ بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہیں ۔ اگر میں ان سے ٹیوشن پڑھ لوں تو ان کو پیسے مل جائیں گے سچی وہ بہت اچھا پڑھاتی ہیں’’اس کا لہجہ خوشامدی سا ہوگیا ‘‘اور پتہ ہے وہ سنیکس بھی بہت اچھے بناتی ہیں، بچے کہتے ہیں کہ ہم آرڈر پر ان سے سنیکس ليتے ہیں ، بہت مزے کے ہوتے ہیں‘‘۔
’’آپ کی ماماسےبھی زیادہ ؟‘‘ ابو نے شرارت سے پوچھا ۔
’’ نہیں میری ماما کے زیادہ مزے کے ہوتے ہیں‘‘ رمیز شرما گیا ۔ ’’چلیں بھئی کبھی کبھی آپ کو چھٹی مل جائے گی- رمیز اپنی پسند سے آرڈر کر دیا کرے گا‘‘ ابو نے امی سے کہا۔
’’ مگر روز روز یہ نہیں ہوگا کبھی کبھار ٹھیک ہے‘‘ امی نے فوراً رمیز کو سمجھانا چاہا۔
’’آپ کو معلوم ہے ابو جب وہ لنچ نہ لائے تو کسى اور سے بھی شيئر نہیں کرتا بلکہ بہانہ بھوک نہ ہونے کا بنا ديتا ہے‘‘ رمیز نے اپنے دوست کی وکالت کی۔
’’ پھر آپ اس کو سب چيزيں کیسے دیں گے؟‘‘ابو کى بات سن کر رمیز کے چہرے پر تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
’’آپ بتائیں‘‘ رمیز کے ہر مسئلے کا حل ابو کے پاس ہوتا تھا۔
’’ آپ اس سے کہيے گا میں تو تحفہ لایا ہوں اور تحفہ کو واپس نہیں کیا جاتا کل سے ہم دونوں ایک جیسی چیزیں لےکرجایا کریں گے‘‘ ابو نے سمجھایا ’’ٹھیک ہے سمجھ گیا رمیز نے سر ہلاتے ہوئے کہا‘‘۔
’’ اچھا اب ایک آخری بات۔۔۔‘‘ سوالیہ نظروں سے رمیز نے باپ کی طرف دیکھا۔۔
’’ وہ یہ کہ۔۔‘‘ ابو نے رمیز کو بازووں لیتے ہوئے کہا رمیز ہمہ تن گوش ہوگیا ۔
’’آپ نے کبھى بھی اسے یاد دلاو گے یہ بات؟‘‘
’’ نہیں ابو یہ تو بہت ہی گندی بات ہوئی نا‘‘
’’ بالکل بیٹا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ احسان جتانے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘ رمیز کی آنکھوں میں عزم اور ذہانت کی چمک تھی،وہ بات کی تہہ تک پہنچ چکا تھا۔

حصہ