نکاح عورت کیلئے تحفظ بھی اور تکریم بھی

312

نوشین: مجھے تو ایک آنکھ نہیں بھاتی عزیز کی مما… یہ کرو، وہ نہ کرو۔ دیر تک سونا ٹھیک نہیں۔ اور سسر صاحب.. ان کا کیا کہنا! وہ سیر تو یہ سوا سیر۔ مما آپ نے بھی مجھے کس جہنم میں دھکیل دیا۔ عزیز کو دیکھو، کہتی ہوں ”میں بور ہوجاتی ہوں، کہیں گھمانے پھرانے لے چلو“… تو ٹال مٹول سے کام لیتا ہے، ہنی مون تک پر نہیں لے کر گیا۔ شادی کے بعد لڑکیاں خوب گھومتی پھرتی ہیں۔ زیور، کپڑا، بڑا سا مکان، گاڑی… ہونہہ۔
نعیمہ: بیٹا، مجھے کیا پتا ان کے اندرونی حالات کا۔ میں تو سمجھتی تھی میری بیٹی اکیلے گھر میں راج کرے گی۔ لڑکے کی نئی ملازمت ہے، آہستہ آہستہ ترقی کرلے گا۔ اور دونوں نندیں شادی شدہ ہیں، ساس سسر بوڑھے۔
نوشین: مجھ سے نہیں ہوتے گھر کے کام۔ ان کا بس چلے تو جھاڑو پوچا بھی مجھ سے کروالیں۔ میں نے کبھی روٹیاں بنائی تھیں؟ کہتی ہیں کہ ہاتھ کی بنی ہوئی روٹی کا تو مزا ہی اپنا ہے۔
دوسرے کمرے سے دادو نماز پڑھ کر نکلیں تو پوتی کی بات سن کر انہیں افسوس ہوا۔ وہ شروع سے اپنی بہو نعیمہ سے کہتی تھیں کہ اسے گھرداری سکھائو۔ لیکن نوشین… اسے تو صرف ٹی وی یا سہیلیوں کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا تھا، اور اس سلسلے میں نعیمہ ہمیشہ اس کی طرف داری کرتی رہتی ہے۔
دادو: بیٹا نوشین… یہ تو گھر کے کام ہیں کھانا بنانا، روٹی پکانا، اس میں کیا برائی ہے!
نعیمہ نے ساس کو غصے سے دیکھا اور بولی: اماں اب وہ زمانہ گزر گیا۔ جب بہو کولہو کے بیل کی طرح جتی رہتی تھی۔ دیکھو تو پانچ مہینے میں میری بیٹی کملا کر رہ گئی ہے۔ آج عزیز لینے آئے گا تو میں ضرور اُس سے بات کروں گی۔ کیا لاوارث ہے ہماری بیٹی، جو یہ سلوک کیا جارہا ہے!
٭…٭
نوشین دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ لاڈ و پیار اور نازوں میں پلی نوشین نے جیسے تیسے بی اے کرلیا۔ سارا دن ٹی وی دیکھنا اور سہیلیوں کے ساتھ وقت گزارنا اسے پسند تھا۔ ٹی وی ڈراموں سے نت نئے فیشن اور انداز سیکھتی اور انہیں اپناتی۔ دادو تھوڑی بہت روک ٹوک کرتیں تو دونوں ماں بیٹی کو ناگوار گزرتا۔ اسی لیے نوشین گھر داری سے نابلد تھی۔ شادی کو تو وہ سنہری خوابوں کی تعبیر سمجھتی تھی۔ وہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی لیکن ذہن میں سجے خوابوں کی وجہ سے شادی کے بعد کے حالات نے اسے مایوس کردیا تھا، اوپر سے مما کی باتوں نے اسے مزید الجھا دیا تھا۔
٭…٭
عزیز: دیکھو نوشین میرے والدین نے تمہارے والدین سے کچھ نہیں چھپایا تھا، اور آہستہ آہستہ اِن شاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ مجھے تھوڑا وقت دو، میں نے یہی بات تمہاری والدہ کو بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن خیر چھوڑو ان باتوں کو، ہمیں اپنے آنے والے بچے کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔
نوشین: یہی تو میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کررہی ہوں کہ تم مجھے ہی خوشیاں نہیں دے سکے ہو تو اپنے بچے کو کیا دو گے!
عزیز: بس اب بہت ہوچکا… اچھا کھاتی ہو، پیتی ہو، آدھا دن سوئی رہتی ہو، میری بوڑھی ماں کا آدھا دن کچن میں گزر جاتا ہے، اور کیا چاہتی ہو تم…؟ کیا میں آسمان سے تارے توڑ لائوں؟ ہماری شادی کو ایک سال ہونے کو ہے، میں تمہیں خوش رکھنے کی پوری کوشش کررہا ہوں لیکن… اور بند کرو یہ ٹی وی.. سارا دن ان بے ہودہ ڈراموں نے تمہیں صرف… نہ تم دولت مند گھر کی بیٹی ہو اور نہ میں۔ خدا کے لیے حالات سے سمجھوتا کرنے کی کوشش کرو… یہ صرف ڈرامے ہیں.. گلیمر کی دنیا صرف دکھاوا ہے۔
نوشین: (غصےسے) اب ایسی بات بھی نہیں۔ تم نے دیکھا میری کزن کی شادی میں…اُس کے شوہر کی بڑی سی گاڑی۔ اور … اور آج وہ ہنی مون کے لیے جارہی ہے۔ اور تم… تم صرف مجھے بہلانے کی کوشش کررہے ہو۔
٭…٭
آئے دن کی بک بک، جھک جھک اور لڑائی جھگڑوں نے گھر کی فضا کو مسموم کردیا تھا۔ اب تو ساس بھی اپنا کام کاج کرکے کمرے میں چلی جاتیں۔ شام کو عزیز کے آتے ہی نوشین ان ہی باتوں کو دہراتی… یا اب وہ زیادہ وقت مما (اپنی ماں کے پاس) گزارتی۔ آخر ان حالات کا نتیجہ وہی نکلا جو اکثر ایسے موقعوں پر سامنے آتا ہے۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد بھی نوشین میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ مجبوراً عزیز نے اُسے اُس کے مطالبے پر طلاق دے دی۔
طلاق کے بعد وہ سمجھ رہی تھی کہ نئے سرے سے اپنی زندگی اپنے مزاج اور پسند کے بندے کے ساتھ گزارے گی… لیکن یہ اس کی سب سے بڑی بھول تھی۔
٭…٭
نوشین: مجھے نہیں کرنی اس شخص سے شادی۔ دو بچوں کا باپ اور میں…
مما: لیکن میری جان تم خود بھی تو طلاق یافتہ اور ایک بچی کی ماں ہو… اور لوگ باتیں بنارہے ہیں۔
نوشین: مما اب وہ زمانہ نہیں۔ آپ خود دیکھ رہی ہیں ٹی وی کی کتنی اداکارائوں اور اینکرز نے دو دو تین تین شادیاں کی ہیں۔ مجھے بھی کوئی ڈھنگ کا بندہ مل جائے گا۔ میں نے عزیز کو اس لیے نہیں چھوڑا کہ کسی دوسرے عزیز کا ہاتھ پکڑ کر بقیہ زندگی گزاروں۔
دادو: لیکن نوشین بیٹا! ہم جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں طلاق کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ آج کنواری لڑکیوں کے لیے رشتے ملنا مشکل ہوگیا ہے اور تم…
نوشین: دادو آپ تو چپ رہا کریں۔ مما بھی آپ کو دیکھ کر مایوسی کی باتیں کرنے لگی ہیں۔ یہ میری زندگی ہے، میں اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہوں۔ آپ میری فکر چھوڑ دیں۔
٭…٭
وقت کی ڈور کون پکڑ سکتا ہے! وہ گزرتا رہا۔ نوشین آئیڈیل کے چکر میں ہر رشتے سے انکار کرتی رہی… اب تو وہ جس محفل میں جاتی، لوگوں کی کھسر پھسر کی آواز اسے تکلیف پہنچاتی کہ یہ طلاق یافتہ ہے، اپنا نہیں تو بیٹی کا ہی خیال کرتی۔ اچھا خاصا گھر برباد کرکے بیٹھی ہے۔
قانونِ فطرت کے تحت محبتوں کے تمام پُرخلوص رشتے اس سے ناتا توڑ کر جا چکے تھے… دادو، مما بابا۔ اپنا اور بیٹی کا پیٹ پالنے کے لیے مجبوراً اسے ملازمت کرنی پڑی۔ لیکن ہر قدم پر اسے احساس ہورہا تھا کہ اس کے سر پر چھت نہیں۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ یہ احساس اس پر حاوی ہوتا جا رہا تھا کہ اس سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوگئی ہے… اکثر باہر کی دنیا میں اسے لاوارث سمجھ کر گندی نگاہیں اس کا پیچھا کرتیں۔ آج اسے احساس ہورہا تھا کہ نکاح عورت کے لیے تحفظ کی ضمانت ہے۔ شوہر کا گھر اور اس کی چھت اس کی تکریم کی ضمانت ہے۔

حصہ