شاہدہ عروج ایک جینوئن شاعرہ ہیں‘ ان کی ترقی کا سفر جاری ہے‘ انہوں نے ہر صنفِ سخن میں اچھے اشعار کہے ہیں‘ ان خیالات کا اظہار پاکستان امریکن کلچر سینٹر کراچی میں مجلس مصنفین پاکستان کے زیر اہتمام شاہدہ عروج کے دوسرے شعری مجموعے ’’محبت آزماتی ہے‘‘ کی تقریبِ اجرا کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ معروف فلاسفر ارسطو نے شاعری کو دیگر شعبوں پر فوقیت دی کیوں کہ شاعری ودیعتِ الٰہی ہے شعرائے کرام معاشرے میں فلاح و بہبود کے سفیر ہیں۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی رضوان صدیقی نے کہا کہ نامساعد حالات کے باوجود اتنی شاندار تقریب کا اہتمام شاہدہ عروج کے عوامی رابطے کا کمال ہے‘ ان کا حلقہ احباب جن خواتین شعرا پر مشتمل ہے وہ سب کی سب آج ’’محبت آزماتی ہے‘‘ کی تقریب میں موجود ہیں۔ اس موقع پر تقریب کے مہمان اعزازی پروفیسر عقیل دانش نے کہا کہ شاہدہ عروج کی شاعری جذبات و فکری توانائی کی مظہر ہے‘ وہ بہت اچھی شاعرہ ہیں۔ زاہد حسین جوہری نے کہا کہ شاہدہ عروج کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے‘ ان کی شاعری میں یہ کمال بھی موجود ہے کہ انہوں نے بے جان چیزوں کو متحرک بنا کے پیش کیا‘ ان کے استعارے اور کردار بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ الفاظ پر دسترس حاصل ہونے کے سبب ان کا اسلوبِ بیاں بہت دل کش و دل آویز ہے۔ نسیم انجم نے کہا کہ شاہدہ عروج کی شاعری محبت کے جذبوں کا اظہار ہے‘ وہ محبت آشنا شاعرہ ہیں۔ انہوں نے معاشرے کے مظالم پر بھی لکھے ہیں اور غمِ جاناں بھی ان کے ہاں نظر آتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
کون لڑے اب جا کے اپنے دشمن سے
ہم نے آپس میں لڑنا سیکھ لیا
ان کا یہ شعر اس بات کا غماض ہے کہ ہم آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے ایک پلیٹ فارم پر آجائیں تاکہ ہم اپنے دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں‘ ان کے اشعار میں حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ راقم الحروف نثار احمد نثار نے کہا کہ شاہدہ عروج کی یہ کتاب ایک بالغ نظر‘ ذی فہم شاعرہ کی خوب صورت اور پُر معنی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے‘ ان کے ہاں ابہام کے بجائے جمالیاتی وابستگی اور سچائیاں نظر آتی ہیں‘ یہ مزاحمتی شاعرہ ہیں اور معاشرے کی بھلائی کے لیے بھی اشعار کہہ رہی ہیں۔ ثبین سیف نے کہا کہ شاہدہ عروج کا یہ مجموعہ بھی ان کی مہارتوں اور کمالات کا مظہر ہے‘ انہوں نے اپنی شاعری میں بحور اور ردیفوں میں علم عروض کی پابندیاں کی ہیں‘ ان کی شاعری غنائیت سے بھرپور ہے‘ یہ ایک حساس شاعرہ ہیں۔ لطیف حیدر نے کہا کہ شاہدہ عروج خوش ذہن شاعرہ ہیں‘ ان کے تمام مصرعے رواں ہیں ان میں گنجلک پن نہیں ہے‘ یہ شعری مجموعہ بھی اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ صفدر علی انشاء نے شاہدہ عروج کو منظوم خراج تحسین پیش کیا جب کہ معروف نعت خواں حافظ نعمان طاہر نے نعتِ رسولؐ پیش کی۔ تقریب کی صاحبِ اعزاز شاہدہ عروج نے کہا کہ وہ مجلسِ مصنفین پاکستان کی ممنون و شکر گزار ہیں کہ اس ادارے نے ان کی کتاب کی تقریبِ اجرا کا اہتمام کیا۔ پروفیسر انور صدیقی نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ شاہدہ عروج نے اپنی گھریلو زندگی کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ شعر و سخن میں بھی نام کمایا ہے‘ ان کی ادبی تنظیم ہر ماہ ایک مشاعرے کا اہتمام کر رہی ہے۔ وائی ایم سی سی کے ڈائریکٹر مخدوم ریاض نے کہا کہ ان کا ادارہ علم و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کی تمام شاخوں کے لیے تقریبات کا اہتمام کرتا ہے‘ ہمارے منشور میں شامل ہے کہ ہم قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کریں۔ کورونا کی وجہ سے ہم نے ایس او پیز کا خصوصی اہتمام کیا ہے امید ہے کہ اس وبائی مرض سے جلد چھٹکارا مل جائے گا۔