کالا موتیا نابینا پن کی دوسری بڑی وجہ ہے

546

آنکھ جسم کا ایک ایسا عضو ہے جو روشنی کا ادراک کرتا ہے اور بصارت کا عمل انجام دیتا ہے۔ یہ قدرت کی بڑی نعمت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آنکھوں کی بیماریوں میں سب سے خطرناک بیماری کالا موتیا ہے، دُنیا بھر میں اندھے پن کی بڑی وجہ بھی کالا موتیا ہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 70 لاکھ افراد اس مرض کی وجہ سے اپنی بینائی کھو چکے ہیں جبکہ پاکستان میں اس بیماری کے باعث نابینا افراد کی تعداد 10لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے ایک اندازے کے مطابق 2020ء تک موتیا کے مریضوں کی تعداد آٹھ کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ کالا موتیا کیا ہے اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے اور یہ کتنا خطرناک ہے؟ ان سوالات کے ساتھ ’’ہم نے پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمن سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔
ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن کا شمار آنکھوں کے بڑے ڈاکٹروں میں ہوتا ہے۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور فیما کے سابق جنرل سیکرٹری رہے ہیں، متحرک شخصیت ہیں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور فیما سیو ویژن (Vision Save)پراجیکٹ کے بانی وڈائریکٹر رہے ہیں۔آپ کی خدمات کا دائرہ پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی پھیلا ہوا ہے افریقہ اور ایشیا کے 16 سے زائد ممالک میں پاکستان اور بیرون ممالک کے ڈاکٹروں کے تعاون سے آنکھوں کی سنگین بیماریوں میں مبتلا دس لاکھ سے زائد مریضوں کا معائنہ اور ان کی بیماری کی تشخیص کے ساتھ سوا لاکھ سے زائد لوگوں کی سرجری بھی کرچکے ہیں۔
سنڈے میگزین: ڈاکٹر صاحب کہا جاتا ہے کہ آنکھیں دل کا آئینہ ہوتی ہیں اور آئینہ ہی خراب ہو جائے تو باقی احوال دل کیسے معلوم ہوگا؟
پروفیسرڈاکٹر حفیظ الرحمٰن:میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ آنکھیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ یوں تو جسم کا ایک ایک عضو اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ اہمیت رکھتا ہے مگر آنکھیں اپنے کام اور حساسیت کی وجہ سے سب اعضا میں یقینی طور پر نمایاں ہیں۔ انسان کی اندرونی دنیا کا بیرونی دنیا سے رابطہ ان آنکھوں کے ذریعے ہے۔ ایک اہم بات آپ کو بتاتا چلوں کہ آنکھوں کے راستے انسان کے اندر جھانکا جاسکتا ہے۔ یہ دو کھڑکیاں ہیں جن میں سے جھانک کر ڈاکٹر انسان کی بہت سی بیماریوں کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ بہت سے امراض جن میں شوگر، بلڈ پریشر، دل، شریانوں اور خون کی بیماریاں شامل ہیں، ان کی آنکھوں کے ذریعے بھی تشخیص کی جا سکتی ہے۔ صرف آنکھوں میں آپ شریانوں، وریدوں اور اعصاب کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔
سنڈے میگزین:ہمارے قارئین کو آنکھوں کی اہمیت کے بارے میں تفصیل سے بتائیے۔
پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن: آنکھیں ایک ایسی نعمت ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ بھی قرآن میں فرماتا ہے کہ ’’کیا ہم نے تمہیں دو آنکھیں نہیں دیں؟‘‘ یاد رکھیں دنیا کی کوئی بھی نعمت اس وقت تک نعمت نہیں جب تک ہدایت شامل حال نہ ہو۔ ہم اگر آنکھوں جیسی نعمت کا شکر ادا کریں اور خالق کی دی گئی ہدایات پر عمل پیرا ہوں تو یقینا یہ بہت بڑی نعمت ہیں جو ہمیں دنیا اور آخرت کے راستے دکھاتی ہیں وگرنہ یہی آنکھیں خراب ہوں یا خالق کی ہدایات کے تابع نہ ہوں تو انسان دنیا میں بھی اندھیروں میں بھٹک سکتا ہے اور آخرت کی راہ بھی کھوٹی کرسکتا ہے۔
آنکھ کی ساخت پر غور کر کے انسان اپنے خالق کو پہچاننے کی سعادت بھی حاصل کر سکتا ہے۔ یوں تو آنکھ کی ساخت کی باریکیاں ، نزاکتیں اور خوب صورتیاں بہت زیادہ ہیں مگر دیگ کے ایک چاول کے مصداق صرف ایک پہلو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ جب ہم آنکھیں کھولتے ہیں تو سامنے آنے والی تمام اشیاء سے روشنی کی شعائیں منعکس ہوکر پوری آنکھ میں سے گزر کر آنکھ کی پچھلی دیوار میں موجود ایک انتہائی حساس پردے پر مرکوز ہوتی ہیں جسے پردئہ شبکیہ (Retina) کہا جاتا ہے۔ یہ پردہ موٹائی میں ایک ملی لیٹر کا محض دسواں حصہ ہے۔ اس پردے کی دس پرتیں ہیں جو آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ ان پرتوں میں اربوں کی تعداد میں خلیے موجود ہیں۔ ہر آنکھ کے پردہ شبکیہ میں گیارہ کروڑ کے لگ بھگ receptors موجود ہیں جو ان شعاعوں کو موصول کرتے ہیں اور فوری طور پر معلومات کا تبادلہ پردے میں موجود خلیوں کی طرف ہو جاتا ہے اور محض ایک سیکنڈ میں دو ارب کے لگ بھگ calculations یہیں تکمیل پاتی ہیں اور پھر یہ معلومات بغیر کسی تاخیر کے 12لاکھ برقی تاروںfibre optic cables جنہیں optic nerve fibres کہا جاتا ہے کے ذریعے دماغ کے کم و بیش بارہ مقامات تک منتقل کی جاتی ہیں۔ ان مقامات (centres) میں زندگی بھر اکٹھی کی جانے والی معلومات ذخیرہ ہوتی ہیں اور اس طرح موجودہ معلومات کے تبادلے اور شعاعوں کے ذریعے آنے والی معلومات کے اختلاط کی بدولت انسان اپنے سامنے آنے والی چیز کو بہت اچھی طرح دیکھ اور پہچان سکتا ہے۔ پردہ شبکیہ کو انسان کے جسم کا سب سے زیادہ فعال حصہ گردانا جاتا ہے اسی لیے اسے خون کی فراہمی بھی دو مختلف ذرائع سے کی جاتی ہے اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شریانوں اور وریدوں کا ایک پورا جال اس کے اطراف میں بچھایا گیا ہے۔ ’’تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘ اور ’’اور تم غور کیوں نہیں کرتے؟‘‘ کو سامنے رکھیں تو محض پردئہ شبکیہ کی ساخت اور کارکردگی ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کو پہچاننے اور اس کے سامنے پوری طرح جھکادینے کے لیے کافی ہے۔
سنڈے میگزین: آنکھ کے اندرونی دباؤ سے کیا مراد ہے؟ اور عام طور پر آنکھ کا دباؤ کتنا ہونا چاہیے؟
پروفیسرڈاکٹر حفیظ الرحمٰن: آنکھ کے اندر اگلے حصے میں ایک شفاف محلول تسلسل سے بنتا ہے جس کے اجزا آنکھ کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ محلول تسلسل کے ساتھ آنکھ سے خارج بھی ہوتا رہتا ہے۔ مگر ہر وقت ایک خاص مقدار (تقریباً ایک چوتھائی ملی لیٹر) آنکھ کے اگلے حصے میں موجود رہتی ہے جو آنکھ کو پچکنے سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ اس محلول کی وجہ سے اندرونی طور پر جو دباؤ بنتا ہے اسے آنکھ کا اندرونی دباؤ (intraocular pressure)کہتے ہیں اور 11 سے 21(mm of Hg) تک ہوتا ہے۔ اس دباؤ کی حد سے زیادہ کمی اور زیادتی دونوں ہی آنکھ کے لیے نقصان دہ ہیں۔
سنڈے میگزین: کالا موتیا کون سی بیماری کو کہتے ہیں؟
پروفیسرڈاکٹر حفیظ الرحمٰن: کالا موتیا میں آنکھ کے دباؤ کی مسلسل زیادتی اور بعض دیگر معلوم و غیر معلوم وجوہات کی وجہ سے آنکھ کے اعصاب آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتے ہیں۔ (یاد رہے ہر آنکھ سے کم و بیش 12لاکھ برقی تاریں (optic Nerve fibres) ایک کیبل (optic nerve)کی صورت دماغ سے منسلک ہیںاور بیرونی دنیا کی تصاویر تمام تر باریکیوں کے ساتھ تسلسل کے ساتھ پہنچانے کا باعث بنتی ہیں۔) اس بیماری کو کالا موتیا اور انگریزی میںGlaucoma کہتے ہیں۔ آنکھ کا دباؤ بڑھنے کی وجوہات بہت زیاد ہ ہیں مگر یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ بعض اوقات آنکھ کا دباؤ بڑھے بغیر بھی برقی تاریں متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور اسےNormotensive Glaucoma کہتے ہیں۔برقی تاروں کے یکے بعد دیگرے ختم ہوجانے سے پہلے مرحلے میں انسان کی نظر کا دائرہ (visual field)متاثر ہوتا ہے اور آگے چل کر آہستہ آہستہ نظر کی مقدار بھی گھٹنا شروع ہوجاتی ہے اور بالآخر بینائی سے مکمل محرومی کا باعث بنتی ہے۔
سنڈے میگزین: اس بیماری کی علامات کیا ہیں؟ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ہم آنکھوں کے ایک خطرناک مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں؟
پروفیسرڈاکٹر حفیظ الرحمٰن: کالا موتیا کی کچھ اقسام میں درد بھی ایک علامت ہے مگر اکثر اقسام میں بغیر کسی درد کے نظر کا آہستہ آہستہ گھٹنا ہی واحد علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کالا موتیا کے تقریباً پچاس فیصد مریض اپنی بیماری سے لاعلم ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر دنیا میں چالیس سال سے زائد عمر کے دو فیصد اور اسی سال سے زائد عمر کے دس فیصد افراد کالا موتیا کے شکار ہوتے ہیں۔ دنیا میں نابینا پن کی وجوہات میں سفید موتیے کے بعد کالا موتیا دوسری بڑی وجہ ہے اور کُل وجوہات کا یہ تقریباً 12.3 فیصد ہے۔ عمومی طور پر کالا موتیا کو جسمانی بیماریوں میں سے بلند فشار ِخون (high blood pressure) سے تشبیہ دی جاتی ہے جسے خاموش قاتل (silent killer) کہا جاتا ہے۔ لوگوں کو پتا ہی نہیں چلتا اور وہ اس کی تباہ کاریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کالے موتیے کے مریضوں کو اپنی بیماری کا علم ہی نہیں ہوتا اور وہ آہستہ آہستہ اندھے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کالے موتیے کی ایک خاص بات یاد رکھنی چاہیے کہ جو برقی تاریں آہستہ آہستہ یکے بعد دیگرے ختم ہو رہی ہیں ان کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے یعنی یہ ناقابل تلافی نقصان (irrepairable loss)ہے۔ مزید نقصان سے بچنے کے لیے بھی سردست ہمارے پاس قابل ذکر ایک ہی لائحہ عمل ہے یعنی اندرونی دباؤ کو نچلی قابل قبول سطح پر لایا جائے۔
سنڈے میگزین: اس کا علاج کیسے ہو؟
پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن: علاج سے پہلے مناسب ہوگا کہ تشخیص کے حوالے سے چند باتیں آپ کے علم میں لے آؤں۔
اس بیماری کو چالیس سال کی عمر کے بعد خصوصی طور پر تلاش کرنا چاہیے مگر یاد رہے کہ بعض بچوں میں پیدائشی طور پر بھی یہ بیماری موجود ہوسکتی ہے۔ پیدائشی کالا موتیا کی علامات میں آنکھ اور قرنیے کا بڑا ہونا، زیادہ سیاہی یا نیلاہٹ اور مسلسل آنسو بہتے رہنا شامل ہیں۔ کالا موتیا کا موروثیت سے بھی گہرا تعلق ہے اس لیے اگر خونی رشتے داروں میں سے کوئی کالا موتیا کا مریض ہو تو خاندان کے بقیہ لوگوں کو زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ تشخیص میں پہلا درجہ اب بھی اندرونی دباؤ کی پیمائش ہے۔ اس کے علاوہ آئی اسپیشلسٹ آنکھ کے اندرونی معائنے ((Fundoscopy سے بھی کافی معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ نظر کا معائنہ اور نظر کے دائرے ((visual fields کے امتحان بھی تشخیص میں مدد دیتے ہیں۔ آج کل آئی اسپیشلسٹ تشخیص اور بعد میں علاج کے اثرات پر نگاہ رکھنے کے لیے ایک ٹیسٹ OCT بھی کرواتے ہیں جو مہنگا تو ہے لیکن تکلیف دہ بالکل نہیں۔ کالا موتیا کے علاج میں اندرونی دباؤ کو کلیدی مقام حاصل ہے۔ بڑھے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کے لیے مختلف ادویات استعمال ہوتی ہیں جو صرف مستند ماہر امراض چشم کی ہدایات کے مطابق استعمال کی جانی چاہئیں۔ یاد رہے یہ ادویات عمر بھر تسلسل کے ساتھ استعمال کرنا ہیں۔ ان کے طریقہ استعمال کو اچھی طرح سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ان دواؤں کا کم یا زیادہ استعمال دونوں ہی مضر ہیں۔ آنکھ میں ڈالنے والی دواؤں کے حوالے سے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ آنکھ میں ایک قطرے سے زیادہ دوا کی گنجائش ہی نہیں ہے اس لیے ایک ہی قطرہ صحیح طریقے سے ڈالنا سیکھ کر اس پر عمل کرنے سے آپ مجموعی طور پر ٹھیک علاج کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ بچت بھی کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک دوا کی شیشی جو ایک ہزار روپے کی ملتی ہے اور صبح شام ایک قطرہ ڈالنا ہے۔ اگر صرف ایک ایک قطرہ ڈالا گیا تو تقریباً تین ہفتوں کے لیے کافی ہوگی لیکن اگر خواہ مخواہ کی احتیاط بروئے کار لاتے ہوئے تین تین قطرے ڈالے گئے تو دوا کی شیشی تین کے بجائے ایک ہفتے میں ہی ختم ہو جائے گی اور اس طرح اخراجات سے تنگ آکر اکثر مریض علاج کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں جو بالآخر نا بینا پن کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح ماہرینِ امراضِ چشم ادویہ کے چناؤ کے وقت مریضوں کی جیب کا بھی خیال رکھیں تو بہت سے مریض علاج کو درمیان میں ترک کرنے سے بچ جائیں گے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ دو طرفہ معاملہ ہے اس لمبے علاج کو جاری رکھنے کے لیے مریض اور ڈاکٹر کے تعلق کی نوعیت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اگر علاج کے شروع ہی میں یا کسی بعد کے مرحلے میں دوا یا دواؤں کے مجموعے اندرونی دباؤ کو مطلوبہ سطح تک لانے سے قاصر ہوں یا ڈاکٹر آنکھ کی کسی اور وجہ کو سامنے رکھ کر مریض کو سرجری کا مشورہ دے سکتا ہے۔ ڈاکٹر اور مریض کا باہمی اعتماد ہی مریض کو اپنے حساس ترین عضو یعنی آنکھ کی جراحی پر قائل کر سکتا ہے۔ سرجری کے کئی طریقے ہیں اور اس کے علاوہ لیزر سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ مگر مریض کے لیے یہ بات جاننا انتہائی ضروری ہے کہ سرجری یا لیزر کے علاج کے ذریعے چلی جانے والی نظر بحال نہیں ہوگی بلکہ باقی ماندہ نظر کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور عمومی طور پر اس مقصد میں واضح کامیابی حاصل رہتی ہے۔
آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ معالج کی مہارت اور احسان کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ معالج اور مریض اللہ پر بھروسہ رکھ کر باہمی تعاون کا رویہ اختیار کریں تو کالا موتیا کے مریضوں کی بڑی تعداد نابینا پن سے بچ سکتی ہے۔

حصہ