باتیں

282

’’خوشبو میں بسے لوگو! کیوں اتنا ظلم کرتے ہو؟‘‘ ناعمہ کا قلم تیزی سے لکھنے میں مصروف تھا کہ اسے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اور ساتھ ہی زوردار قہقہے کی آواز۔
’’’’ہاہا… ہاہا… یہ تو شعر ہوگیا، خوشبو میں بسے لوگو! کیوں اتنا ظلم کرتے ہو… واہ … واہ… مکرر ارشاد۔‘‘
’’اسید کے بچے…‘‘ ناعمہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’استغفراللہ ربی… استغراللہ ربی…‘‘ اسید نے کانوں کو ہاتھ لگائے ’’گناہ گار ضرور ہوں، پر شادی سے پہلے ہی بچے… توبہ… توبہ…‘‘ کمال درجے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اس نے کہا۔
’’اسید… پلیز گیٹ آئوٹ‘‘۔ ناعمہ نے اپنے لکھے ہوئے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’اوہو…‘‘ اسید نے سیٹی بجائی۔ ’’پلیز بھی اور گیٹ آئوٹ بھی…! کیا حسنِ ترتیب ہے… گالی اور دعا ایک ساتھ، جیسے کوئی کہے اوئے اُلّو کے پٹھے ہمیشہ خوش رہو۔‘‘
’’حسنِ ترتیب کے بچے۔‘‘ ناعمہ نے پھر دانت کچکچائے۔
’’ماں باپ کا نام ہی بدل ڈالا۔ لو جی کرلو گل۔ کبھی میرے بچے بنادیے اور کبھی امی ابو کا نام ہی حسن ترتیب قرار دے دیا۔ ویسے بائی دا وے یہ کیا لکھا جارہا ہے؟‘‘ اس نے جھپٹنے والے انداز میں کاغذ قابو کیا۔
’’ناعمہ… یہ کیا لکھا ہے…ناعمہ نمکین… کیا ناعمہ نمکین ہوتی ہے؟ ہمیں تو ناعمہ شیریں، شیریں سی لگتی تھی…‘‘ اسید نے حیرانی کا مظاہرہ کیا۔
’’کیا نمکین اور غمگین کی گردان کررہے ہو! میں نے اپنا تخلص رکھا ہے نگین‘ ناعمہ نگین۔ میں کالج کے ڈرامیٹک کلب کی ممبر منتخب ہوئی ہوں نا، میگزین کے لیے آرٹیکل لکھ رہی تھی…‘‘ ناعمہ نے جھلاّئے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’او… ہو… ہماری بہن تو ادیبہ بن گئی ہے۔ زبرست… واہ بھئی واہ… خواتین متوجہ ہوں۔ دنیائے ادب کا ایک روشن ستارہ آفاق ہائوس میں نمودار ہوا ہے۔‘‘ اس نے اعلان کرنے کے سے انداز میں کمرے سے باہر کے لوگوں کو مخاطب کیا۔
’’ہاں بالکل… تمہیں اعتراض ہے کوئی…؟‘‘ ناعمہ نے اپنے سے بڑے بھائی کے لیے تمام ادب آداب ایک طرف پھینک دیے… ویسے بھی دو سال تو بڑا تھا، اور دادا ابا کہا کرتے تھے بزرگی بہ عمر نیست۔
’’یعنی تم دنیائے ادب کا روشن ستارہ ہو… دم دار ستارہ…‘‘ اسید یہ کہہ کر تیزی سے باہر کی طرف بھاگا، اسے پتا تھا اس کا استقبال اب کسی ہیل والے میزائل سے ہوگا… ایسا ہی ہوا، جونہی اس نے قریب رکھا جوتا اٹھا کر اسید کو مارا… ساتھ ہی ابا اندر داخل ہوئے اور ’’ہائے اللہ… کون ہے یہ…‘‘ کہہ کر دروازے پر ڈھیر ہوگئے… جونہی جوتا ابا میاں کو لگتے دیکھا، ناعمہ کے طوطے، طوطیاں سب اُڑ گئے۔
’’ابا! وہ … میں…‘‘ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے…! ہیل ابا کی لمبی چوڑی پیشانی پر لگی تھی اور اپنا نشان بھی ’’تاکہ سند رہے‘‘ کے طور پر ثبت کرچکی تھی۔ پہلے تو ابا کا جلال مشہور تھا، اب ساتھ گرج چمک بھی۔ کبھی پیشانی سہلاتے، کبھی ہائے ہائے کا ورد کرنے لگ جاتے۔ ہمت کرکے ناعمہ آگے بڑھی اور ریک سے آیوڈیکس نکالی… ابا کے ماتھے پر پلپلے آلو کی طرح بڑا سا گومڑ بنا ہوا تھا۔
’’اب… آ… یہ لگا دوں؟‘‘ ناعمہ روہانسی ہورہی تھی۔
’’رہنے دو… لگائو اس مردود لعین کے…‘‘ غصے میں انہوں نے اسید کا نام تک نہ لیا۔ امی کو پتنگے لگ گئے۔
’’میر صاحب! سوچ کے بات منہ سے نکالا کریں…‘‘
’’تم… تم! اور سر پر چڑھائو اس خبیث کے بچے کو۔‘‘ ابو کے منہ سے لفظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے۔ ’’تم انہیں بجائے روکنے کے شہہ دیتی ہو۔‘‘
امی خاموش رہیں… ابا کو خاموش بندوں سے ویسے ہی الرجی ہوتی تھی، پھر گرجے: ’’کان کھول کر سن لو، آئندہ اس چندے آفتاب چندے ماہتاب نے ایسا کیا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔‘‘ آیوڈیکس والی پیکنگ انہوں نے زور سے پٹخی۔
’’بالکل ٹھیک ہے… ایسے ہی ہوگا…‘‘ ان کی نظر آیو ڈیکس کی ٹوٹی شیشی پر تھی۔
’’کیا کہا تم نے؟ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا!‘‘ ابو کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں… کچھ دیر سوچتے رہے، پھر فلک شگاف قہقہہ لگایا۔ کمرے کے گھٹن والے ماحول میں ان کا چھت پھاڑ قہقہہ اوپری اوپری سا لگ رہا تھا۔ لیکن سب سے پہلے ان کے قہقہے کا ساتھ امی نے دیا… آہستہ آہستہ ناعمہ، اسید، نمرہ کے چہروں پر بھی مسکراہٹ آگئی… چند لمحوں میں گرما گرم چائے کے ساتھ بسکٹ بھی پیش کردیے گئے۔ ماحول ایسا ہوگیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

حصہ