کوئی لاعلاج مرض لاحق ہونے کی صورت میں مریض بسا اوقات انتہائی بے صبرا اوراللہ کی رحمت سے ناامید ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شیطان کی کارستانی ہے کہ انسان کو ماضی میں کیے ہوئے گناہ اس قدر یاد دلاتا ہے کہ وہ ناامیدی کو گلے لگا لیتا ہے ، حالاں کہ اگر فرائض ادا کرتا رہے اور صدق دل سے توبہ کرے اور شرک سے اپنے آپ کو بچائے تو اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ اللہ اس کے ساتھ رحم والا معاملہ فرمائیں گے اور اسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔ چناں چہ ایک حدیث میں ہے کہ: ’’میری امّت میں سے جو بھی اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شریک نہ کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسولؐ! اگرچہ زنا کرے یا چوری کرے تب بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگرچہ زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔‘‘اور صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی مرے اسے چاہیے کہ وہ اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہو۔ ‘‘اور حدیث قدسی ہے کہ ’’ میں اپنے بندے سے اس کے گمان جیسا معاملہ کرتا ہوں پس جیسا چاہے وہ مجھ سے گمان رکھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے نعمتوں کے مقابلے میں کچھ ایسی چیزیں بھی پیدا کی ہیں کہ اگر ان کا سامنا ہو جائے تو نعمت کی قدر ہوتی ہے۔ ان چیزوں کو ہم مختلف نام دے سکتے ہیں۔ پریشانی آئے تو اچھے وقت کی قدر آتی ہے ، فقر کے بعد فراوانی، ذلت کے بعد عزت، غم کے بعد خوشی ، نفرت کے بعد محبت، جہالت کے بعد علم ، دن کے بعد رات، رات کے بعد دن، سردی کے بعد گرمی ، گرمی کے بعد سردی، مشغولیت کے بعد فراغت،اور اسی طرح بیماری کے بعد صحت کی قدر آجاتی ہے۔
یہیں اس بات کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ایمان اور حسنِ اخلاق کے علاوہ ہر نعمت کسی کے لیے وبال اور کسی کے لیے واقعی نعمت ہوتی ہے ، جیسا کہ کسی بھی چیز کے بارے میں علم وآگہی حاصل ہونا، نعمت ہے، مثال کے طور پر اگر کسی کے بارے میں یہ پتا چل جائے کہ اس نے کسی سے قرض لیا اور واپس نہ کیا، تو لوگ اس شخص کو قرض دینے کے معاملے میں محتاط ہو جائیں گے تو یہ علم لوگوں کے حق میں تو نعمت ہوا، لیکن اگر مقروض کو پتا چل جائے کہ وہ قرض ادانہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کی نظر سے گر گیا ہے۔ تو اب دو صورتیں ہیں یا تو وہ اپنے معاملہ کو درست کرے گا یا بات دل پہ لگالے گا اور غم وپریشانی کا شکار ہو گا پہلی صورت میں علم اس کے لیے نعمت اور دوسری میں وبال بن جائے گا۔بالکل اسی طرح مرض مریض کے لیے اس وقت نعمت بن جاتا ہے جب وہ صبر وشکر کرتا ہے اور شفا کے بعد صحت کی قدر اور اللہ رب العزت کی دی ہوئی اس نعمت کا شکر ادا کرتا ہے۔
کہ’’ جوبھی مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اعمال ہی کی بدولت ہوتی ہے اور اللہ پاک کتنی ہی باتیں تو معاف فرما دیتے ہیں۔‘‘ اسی لیے کسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کہتا پھرے کہ کہاں سے یہ مصیبت آٹپکی؟ بلکہ یہ اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے، جو دنیا میں اس کے سامنے ظاہر ہو گیا ہے اور اگر ہم اس بات کو سمجھیں کہ دنیا کی مصیبتیں ہمارے اعمال کا نتیجہ ہیں تو یہ سمجھنے میں دشواری نہ ہو گی کہ اس کے اندر ہمارے لیے خوش خبری بھی ہے اور ڈراوا بھی۔ ڈراوا بایں طور کہ انسان پریشانیوں کا سامنا کرکے خوف زدہ رہتا ہے اور خوش خبری بایں وجہ ہے کہ امام بخاری نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ مومن کو جو بھی بیماری یا غم یا پریشانی یا کوئی بھی تکلیف پہنچے، حتی کہ کوئی کانٹا چبھ جائے تو اللہ اس کے بدلے اس کے گناہ معاف فرماتے ہیں۔‘‘ اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا: کہ’’ مصیبت مستقل بندہ مومن کے ساتھ او راس کے گھر میں ، اس کے مال میں اس کی اولاد میں رہتی ہے ، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں جا ملتا ہے کہ اس پہ کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔‘‘
مرض کے ذریعے آدمی کے صبر کا پتا چلتا ہے، جیسا کہ کہا گیا ہے کہ آزمائش نہ ہوتی تو صبر کی فضیلت ظاہر نہ ہوتی ، اگر صبر کیا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کر لیں او راگر صبر نہ کر سکا تو سب کچھ گنوادیا۔ تو اللہ تعالیٰ بیماری کے ذریعے بندہ کے صبر کا امتحان لیتے ہیں۔ اب یا تو وہ سونا نکلتا ہے یا پھر کھوٹا… حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً منقول ہے کہ ’’ اجروثواب کی زیادتی تکالیف برداشت کرنے کے بقدر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت فرماتے ہیں تو اس کو آزمائش میں مبتلا فرما دیتے ہیں تو جو اس پر راضی ہو جاتا ہے اس کے لیے اللہ کی رضا ہے او رجو ناراض اس کے لیے اللہ کی ناراضی ہے۔‘‘
مرض کے فوائد میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مریض پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اتمام ہوتا ہے اوروہ اس طرح کہ جب اسے کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو خوف اسے گھیر لیتا ہے او رپھر یہی بیماری اور خوف اسے اللہ رب العزت کی توحید کی طرف مائل کر دیتا ہے اور وہ بزبان حال یہی کہہ رہا ہوتا ہے کہ اے مولیٰ! سب اطباء نے اپنی طبابت اورحکمت آزمائی اور وہ ناکام ہو گئے، اب کوئی ہے تو بس تو ہی ہے ، تیرے سوا مجھے کوئی شفا دینے والا نہیں۔ اس طرح مریض کا دل اللہ رب العزت کے ساتھ رابطہ میں رہتا ہے اور وہ ہر وقت پورے خلوص کے ساتھ اپنے خالق حقیقی اور پرورش کرنے والی ذات کو یاد کرتا ہے۔
جب بندہ اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے تو اللہ پاک ناراض ہوتے ہیں بندے پر پریشانی نازل فرماتے ہیں، تاکہ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہو اوراسی سے دعا مانگے تو اللہ تعالی ٰاس پر انعامات کی بارش فرماتے ہیں۔ تاکہ وہ اللہ کا شکر ادا کرے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا خوب انسان کا حال بیان فرمایا کہ جب اِنسان پر اللہ کی نعمتیں ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ سے اعراض کرتا رہتا ہے او رجب اسے پریشانی لاحق ہوتی ہے۔تو بس لمبی لمبی دعائیں شروع کر دیتا ہے لہٰذا اس بیماری کی برکات ہوتی ہیں کہ جس نے کبھی مسجد کا ر خ نہ کیا ہو وہ بیماری کے بعد پانچ وقت کی نماز مسجد میں ادا کرتا نظر آتا ہے اور صبر وشکر، توکل وعاجزی، خشوع وخضوع، حلاوتِ ایمان سے بھرا بھرا دکھائی دیتا ہے۔ جو کہ اس کے ایمان میں زیادتی کا موجب ہوتا ہے۔
بیماری کے ذریعہ اللہ رب العزت انسان کے دل کو تکبر وعجب اور فخر جیسی مہلک بیماریوں سے نجات عطا فرماتے ہیں، کیوں کہ اگر یہ روحانی بیماریاں انسان کے ساتھ مستقل رہیں تو سرکشی ونافرمانی جیسی دوسری بیماریاں اس کے اندر جنم لیتی ہیں اور انسان اپنی ابتدا وانتہا کو بھول جاتا ہے او رجوانی کی طاقت یا بڑھاپے کی جو شیلی صحت اس کو خود اعتمادی دیتی ہیں اور وہ اپنے علاوہ کسی کو تسلیم نہیں کرتا۔ پھر جب اللہ رب العزت کی طرف اس کے اوپر بیماریوں کی آزمائش ہوتی ہے تو اس کا نشہ، غرورو تکبر کا فور ہو جاتا ہے اور پھر اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اس کے اپنے قبضہ میں نہ اس کا نفع ہے، نہ نقصان، نہ زندگی نہ موت، کبھی کسی چیز کو یاد کرتا ہے تو اس کے ادراک پر قادر نہیں ہوتا، کبھی چیز کے بارے میں جاننا چاہتا ہے، لیکن جہالت اس کے دامن گیر رہتی ہے۔ کبھی کسی ایسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے جو اس کی ہلاکت کا سبب ہو اور کبھی ایسی چیز سے دور بھاگتا ہے جس میں اس کے لیے بھلائی ہو اور دن اور رات میں، کسی بھی وقت اس خطرہ سے محفوظ نہیں رہتا کہ اللہ تعالیٰ اپنی دی ہوئی نعمتوں میں سے دیکھنے اور سننے کی طاقت کو سلب فرمالیں، یا اس کی عقل میں فساد پیدا کر دیں ، یا اس سے اس کی محبوب دنیا چھین لیں اور وہ کچھ بھی نہ کر سکے، تو کیا اس سے زیادہ کوئی محتاج وذلیل ہے؟ نہیں ! تو پھر اسے تکبر وعجب کیسے زیب دے گا؟