کھلونے اب خواب ہوئے

264

’’ابا وہ بالوں والی گڑیا دلا دو نا!‘‘ ننھی زینب نے حسرت بھری نظروں سے کھلونوں کی دکان کے شوکیس میں سجی گڑیا کو دیکھتے ہوئے بابا سے کہا۔
مجید ایک فیکٹری کا معمولی سا ملازم تھا، دو وقت کی روٹی ہی مشکل سے پوری ہوتی تھی، بچوں کے کھلونے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچتا تھا۔ بچے بھی گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے تھے جن کی حالت پہلے ہی دگرگوں تھی، مگر مجبور تھا، جیب اجازت ہی نہ دیتی تھی کہ انھیں اچھے اسکول میں پڑھا سکتا۔ اکثر اسکول کی عمارت کو دیکھ کر دعا مانگتا کہ اللہ کرے حکمرانوں کو اس کی حالتِ زار پہ بھی رحم آجائے اور اس طرف بھی کوئی توجہ دے کہ اس کا نظام درست ہوجائے تو ہمارے بچے بھی بہتر تعلیم حاصل کرسکیں، کیوں کہ یہ تو ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ کاش پرائیویٹ اسکول کا سسٹم ہی ختم ہوجائے جس نے امیر غریب کے فرق کو واضح کردیا ہے۔ اگر ان سرکاری اداروں میں ’’سرکار‘‘ کے بچے پڑھنے لگیں تو شاید ان اسکولوں میں بھی بہتری کی طرف توجہ دی جاسکے… مگر شاید یہ دیوانے کا خواب ہی ہے۔
ہر ہفتے کوئی نہ کوئی بچہ بیمار ہوجاتا۔ کبھی موسمی نزلہ زکام، بخار، تو کبھی ملیریا، ٹائیفائیڈ۔ علاج الگ مہنگا ہے، دوائیاں اتنی مہنگی ہیں کہ بندہ سوچتا ہے کہ روٹی کھائے یا دوائی؟ بجلی، گیس، پانی کے بلوں کی بھرمار، مکان کا کرایہ… غریب کے پاس بچوں کے کھلونوں جیسی عیاشی کے لیے پیسہ بچتا ہی کہاں ہے! اوپر سے برا ہو پبلسٹی کرنے والوں کا، گھر میں ٹی وی نہ ہونے کے باوجود سڑکوں پہ جگہ جگہ آویزاں اشتہارات، بچوں کے اسکولوں سے لے کر بستروں پہ ڈالنے والے گدے تک میں اعلیٰ خوب صورت گھر دکھائے جاتے ہیں جنھیں دیکھ کر عام شہری لازماً ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے، جو اپنی بنیادی ضروریات ہی پوری نہیں کر پاتا۔ عوام عمران خان کو بہت مان سے لائے تھے، تبدیلی کے نعرے کے فریب میں آکر عوام خوش حالی کے سپنے دیکھنے لگے تھے، مگر افسوس ’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘ والی حالت ہوئی۔ تبدیلی آئی ضرور، اور وہ یہ کہ حالات میں اگر کچھ بہتری تھی تو اس سے بھی گئے، جو دال روٹی کھاتے تھے تو لو تبدیلی آگئی، اب دال بھی مہنگی ہے۔ اگر غریب کے پاس محض پرانی کھٹارا موٹر سائیکل ہے تو اب پیٹرول بھی مہنگا ہے۔ آج نہ تو تاجر خوش ہے، نہ تنخواہ دار طبقہ۔ ماضی میں کوئی ایک تو سکون میں تھا۔
عوام کے ٹیکسوں پہ عیش کرنے والوں، بلکہ غریب عوام کی لاشوں پہ رقص کرنے والوں کے ضمیر مر چکے ہیں۔ خودکشی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور حکمرانوں کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی، ان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ کے دورِ حکومت میں کتے کے بھوکے مرنے کا حساب بھی حکمران اپنے ذمے سمجھتے تھے، مگر آج انسانی جانوں کے زیاں کا کوئی حساب کتاب نہیں۔

حصہ