تھوڑی سی توجہ

396

نام تھا، دولت تھی، شہرت تھی… ہر شے قدموں میں تھی۔ اللہ سے جو مانگا وہ ملا۔ بہترین شوہر ملا۔ اولاد چاہی، اللہ نے وہ بھی عنایت کردی۔کمی ایک ہی تھی… سکون نہیں تھا، اور یہ بات اندر سے کھا رہی تھی۔ سوال ایک تھا جسے جواب چاہیے تھا۔
زندگی لاحاصل دوڑ بن چکی تھی۔ آگے سے آگے بڑھنے کی خواہش، لوگوں کو خوش کرنے، ان کی توقعات پر پورا اترنے، کچھ نیا اور انوکھا کرنے کی خواہش جو توجہ کھینچ لے۔ عجب مشقت۔ کبھی بال ڈائی تو کبھی کرلی، کبھی سیدھے تو کبھی لمبے، کبھی چھوٹے تو کبھی بے ڈھنگے۔ حسبِ کردار کیا کچھ نہیں کیا نمبر ون بننے کی آرزو میں۔ کئی چہرے جو نقاب میں چھپے تھے۔ کئی خول جو خود پر چڑھا رکھے تھے۔ آندھیاں تھیں، طوفان تھے جو اندر چھپے تھے۔ تڑپتی، سسکتی عورت آنسو چھپائے سرپٹ دوڑ رہی تھی۔ بیسٹ ایکٹریس ایوارڈ بھی مل گیا۔
مگر پھر بھی بے سکونی، بے چینی اپنی جگہ… اور سوال ’’کہاں جارہی ہوں؟‘‘ سرسراتا جملہ ’’مرنا بھی تو ہے‘‘۔ خود سے پوچھا ’’آخر میرا مسئلہ کیا ہے؟ چاہتی کیا ہوں؟‘‘ جواب ایک ہی تھا ’’اپنا گھر اور سکون‘‘۔ ایک جملہ جو ذہن سے چپکا تھا ’’مرنا بھی تو ہے۔‘‘
ایک کتاب جو گھر کے سب سے اوپری مقام پر رکھی جاتی ہے میرے گھر بھی تھی۔ وہیں سب سے اوپر، پہنچ سے دور… ایک دن کھولا، پڑھا، سکون ملا۔ تبھی اسے سمجھنے کا سوچا۔ یقیناً اس میں کچھ خاص تھا۔
ہم جو اسے صرف دلہن کی رخصتی یا کسی فوتگی پر کھولتے ہیں ’’دردناک حقیقت‘‘۔ خود پڑھنے کی کوشش کی تو کچھ سمجھ آیا، کچھ نہ آیا۔ کئی سوال ذہن میں ابھرے۔ استاد ڈھونڈا، سمجھنا شروع کیا۔ سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات ہی نے کایا پلٹ شروع کردی۔ انسانوں کی تین قسمیں بتائی گئی تھیں: متقین، پھر کفار اور پھر منافقین۔ ان کی نشانیاں بھی بتائی گئی تھیں۔ خود سے سوال تھا ’’تم ان میں کہاں ہو؟‘‘ اندرکا جواب واضح تھا، کہ اندر کبھی جھوٹ نہیں بولا کرتا۔ ایک جنگ بپا ہوگئی۔ خیر اور شر کی لازوال جنگ۔ مخلوق کو خوش کرنے، دولت اور شہرت کے حصول کے لیے کیا کیا نہیں کیا! زندگی کے قیمتی ترین سال لگا دیے۔
حاصل: سامانِ تعیش، چند مادی آرزوؤں کی تکمیل، دن بہ دن بڑھتی بے چینی، خالی پن، اندر اٹھتے سوالات سے آنکھیں بند کر نے کی کاوشِ لاحاصل۔ ہاتھ میں کچھ نہیں۔ اس بھیڑ میں کبھی اپنے خالق کا نہ سوچا۔ اُس نے مجھے کیوں بنایا، وہ مجھ سے کیا چاہتا ہے، اسے میں کیسی اچھی لگتی ہوں؟ کیسی غفلت تھی۔ بیٹا ہوا تو ارادہ تھا پھر سے شوبز جوائن کروں گی۔
ایسے میں سورہ بقرہ میرا آئینہ بنی۔ اس نے صحیح اور غلط کو کھول کر رکھ دیا۔ جگایا، کچھ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔
اب طے کیا ہے کہ رب کو خوش کرنے کے لیے زندگی لگا دوں گی۔ شکر کرتی ہوں کہ اس نے موت سے پہلے توبہ کی توفیق دی، شعور دیا، پلٹا لیا۔ یہ کتاب اب مجھ سے مخاطب ہوتی ہے، رہنمائی دیتی ہے، راستہ دکھاتی ہے، پیغام پہنچاتی ہے، تشفی کا سامان کرتی ہے۔ دل واقعی رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہے، جسے چاہے جب چاہے ہدایت کی طرف موڑ دے، اور جس سے چاہے اپنا کام لے لے۔ اسے دوسروں کی ہدایت کا ذریعہ بنادے۔
وہ آن لائن تھی۔ ہزاروں کے سوال تھے، تعریفیں تھیں، اور اس کا احساسِ تشکر۔ اس کی زبان سے عملی نکات مل رہے تھے۔ یقینا کئی بے چین روحوں کو راہ ملی ہوگی، حوصلہ بڑھا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت پر گامزن فرما دیتا ہے، اورجسے چاہتا ہے اپنے پیغام کے لیے چن لیتا ہے۔ پتھر کو ہیرے میں بدل دیتا ہے۔ یہ سب اسی کا فضل ہے۔ وہ تھوڑے پر بھی خوش ہوجاتا ہے، تو کسی کا ڈھیروں کیا کرایا غرور اور خودپرستی سے ضائع چلا جاتا ہے، کہ ربِ کریم نے کسی کو بھی دین کا ٹھیکیدار نہیں بنایا۔ ہر پل، ہر لمحہ محتاط ہونے کا متقاضی ہے۔
اُن دنوں جب اللہ کے کلام کو سمجھنے کی کوشش میں تھی، ایک سہیلی نے باریکی سے چور پکڑا۔ کہنے لگی: ’’بہنا! اس غلط فہمی میں نہ رہنا کہ تم اس راہ پر لگ کر کامیاب ہوگئیں، ڈرتی رہنا۔ کبھی بیچ دریا بچ جانے والے کے لیے کنارے کے قریب کوئی ہیولا ڈبونے کو کافی ہوجاتا ہے۔ شیطان تاک میں ہے، محتاط سواری کرنا کہ گھوڑا سرکش بھی ہوسکتا ہے، کہیں سے کہیں لے جائے۔ ایمان ناپنے کے، چن لینے کے اللہ کے پیمانے کچھ اور ہیں۔ کوئی آخری لمحے پلٹ کر مقبول ٹھیرتا ہے، تو کوئی عمر بھر کا حاصل لیے کنارے پر ڈوب جاتا ہے‘‘۔ ان دنوں پلٹنے والوں کی تلاش میں تھی کہ سہیلی نے اپنی خالہ سے ملاقات کروائی۔ چند لمحوں کی بات چیت میں گویا کائنات سمٹی تھی۔
بتانے لگیں کہ ان کے شوہر مووی میکر تھے۔ ایک دن جب وہ مووی بنانے میں مصروف تھے دلہن کو دورہ پڑا، ہاتھ پاؤں مڑ گئے، آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ جو کچھ لمحے پہلے انتہائی دل سے مووی بنا رہا تھا، دلہن کی قابلِ رحم حالت اور بے بسی کیا دیکھی کہ اس کی دنیا بدل گئی۔ دورانِ لذت وہ اٹھا لیا جاتا تو انجام کیا تھا، وہ کانپ گیا۔ سب چھوڑ چھاڑ گھر آیا اور پھر اس راہ پر کبھی نہ پلٹا۔ آزمائشیں لگاتار آئیں مگر وہ ثابت قدم رہا، پورا گھر بدل گیا، اللہ نے ایک بار پھر فراوانی دی لیکن بدلاؤ ہر جگہ تھا۔ سوچ نے ترجیحات بدل ڈالی تھیں، ہمہ گیر مقاصد ہاتھ آئے تھے۔ جو ہوا سو ہوا، اب کچھ خاص کرکے جانا تھا۔
پیغام یہ ہے کہ کسی کی زندگی میں اگر کچھ سوالات ابھرے ہیں یا کسی لمحے نے جھنجھوڑا ہے تو اسے پکڑ لیجیے، ضائع نہ جانے دیجیے۔ جواب تلاش کیجیے کہ کہیں آپ کے بدلاؤ کا فیصلہ ہے۔ سوالات ہیں تو دبنے نہ دیجیے، بار بار اٹھائیں مبادا کہیں جواب منتظر ہے۔ بے چینی ہے تو توجہ دیجیے، کہیں سکون بھی چھپا بیٹھا ہے۔ آپ کو کسی مقام پر پہنچانے کی تیاری کا یہ اعلان ہے کہ آپ بوریت محسوس کررہے ہیں۔ کوئی کشتی کنارے لے جانے کو آپ کی تھوڑی سی توجہ چاہتی ہے۔

حصہ