فرمس نے کہا۔ ’’میں یروشلم کے حاکم کو اچھی طرح جانتا ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ اگر وہ آپ کا اِس حد تک دشمن ہے تو آپ کے لیے دمشق یروشلم سے زیادہ محفوظ نہ ہوگا۔ ایرانیوں کی جاسوسی کا الزام آپ کے لیے ہر جگہ خطرناک ہے‘‘۔
عورت نے تلملا کر کہا۔ ’’تم میرے والد کو نہیں جانتے۔ اگر میں دمشق پہنچ جائوں تو یروشلم کے حاکم کے لیے اپنی جان بچانا مشکل ہوجائے گا‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’لیکن ایرانیوں کی پیش قدمی کے باعث دمشق کے حالات خاصے مخدوش ہوچکے ہیں۔ اگر خدانخواستہ انہوں نے دمشق پر قبضہ کرلیا تو آپ کیا کریں گی؟ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آپ دمشق کے بجائے اسکندریہ کا رُخ کریں‘‘۔
عورت نے جواب دیا۔ ’’میرے والد دمشق میں ہیں۔ مجھے بہرصورت وہاں پہنچنا ہے‘‘۔
نوکر آگ جلا چکا تھا، نوجوان لڑکی انگیٹھی کے سامنے بازو پھیلائے کھڑی تھی۔
فرمس نے کہا۔ ’’معاف کیجیے مجھے یہ بھی خیال نہیں رہا کہ آپ سردی میں سے آئی ہیں۔ اس وقت آپ کا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو خشک کپڑے مہیا کیے جائیں۔ میں آپ کو چادریں دے سکتا ہوں۔ آپ کے لیے کھانا بھی تیار ہے‘‘۔
’’ہم کھانا کھا کر آئے تھے‘‘۔
نوجوان لڑکی نے کمرے کے کونے میں جا کر اپنی گٹھڑی کھولی اور بھیگے ہوئے کپڑے نکال کر دیکھنے لگی۔
فرمس نے اپنے نوکر سے کہا۔ ’’تم یہ کپڑے لے جائو اور انہیں آگ کے سامنے اچھی طرح سوکھا کر لائو!‘‘۔ پھر وہ عمر رسیدہ عورت کی طرف متوجہ ہو کر بولا۔ ’’میرے خیال میں یہ بہتر ہوگا کہ میں اس آدمی کو جگا کر نیچے لے جائوں، آپ کو یقین ہے کہ اس کی موجودگی آپ کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہ ہوگی؟‘‘
’’نہیں! اسے تکلیف دینے سے ہمیں کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ تم ہمارے لیے کسی قابل اعتماد ساتھی کا بندوبست کرو۔ صبح تک اگر بارش نہ تھمی تو بھی ہم روانہ ہوجائیں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر انہیں ہمارا پتا چل گیا تو وہ ہمارا تعاقب ضرور کریں گے‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’آپ اطمینان رکھیے! میرے آدمی سرائے کے باہر پہرادیں گے اگر کوئی اس طرف آیا تو مجھے قبل ازوقت اطلاع مل جائے گی اور میں آپ کو اسی سرائے کے اندر ایک ایسے تہ خانے میں چھپادوں گا جس کا میرے ایک نوکر کے سوا کسی کو علم نہیں۔ اور سفر میں بھی میں شاید ایک اچھا ساتھی آپ کے ساتھ کرسکوں‘‘۔
’’وہ آپ کا نوکر ہے؟‘‘۔
’’نہیں وہ ایک مہمان ہے؟‘‘
’’کہاں ہے وہ؟‘‘
فرمس نے عاصم کے بستر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’یہ ہے وہ۔ اگر یہ دمشق جانے پر رضا مند ہوگیا تو آپ کو اس سے بہتر ساتھی نہیں مل سکتا‘‘۔
’’یہ یروشلم کا باشندہ ہے؟‘‘۔
’’نہیں، یہ عرب سے آیا ہے‘‘۔
’’عرب سے؟ نوجوان لڑکی نے چونک کر کہا۔ ’’آپ ایک عرب پر اعتماد کرسکتے ہیں؟‘‘
’’ہاں! میں اُس شخص پر اعتماد کرنے میں بالکل حق بجانب ہوں، جو کسی نیک مقصد کے لیے قربانی دے چکا ہو‘‘۔
لڑکی کی ماں نے کہا۔ ’’ایک عرب کسی نیک مقصد کے لیے قربانی دے سکتا ہے؟‘‘
’’ہاں! قدرت نے نیکی کے سارے دروازے کسی قوم کے لیے بند نہیں کیے‘‘۔
لڑکی نے کہا۔ ’’میں نے پہلی بار سنا ہے کہ ایک عرب بھی کوئی نیکی کرسکتا ہے؟‘‘
’’میں آپ کی تسلی کے لیے صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ کی جگہ میری اپنی بیٹی ہوتی تو میں اُس کے لیے بھی اس نوجوان سے بہتر محافظ تلاش نہ کرسکتا۔ شاید اس میں بھی کوئی مصلحت تھی کہ ہم نے اِسے بے آرام نہیں کیا۔ اسے مدت کے بعد آرام کی نیند نصیب ہوئی ہے۔ اب مجھے اجازت دیجیے میں بارش کا زور ٹوٹتے ہی آپ کے سفر کا بندوبست کردوں گا…‘‘ فرمس اور اُس کا نوکر کمرے سے باہر نکل گئے۔
O
عاصم نے خواب میں کچھ دیر بڑبڑانے کے بعد کروٹ بدلی اور نوجوان لڑکی جو انگیٹھی کے سامنے کرسی پر بیٹھی تھی مڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اُس کی ماں اُس کے دائیں ہاتھ دوسری کرسی پر سو رہی تھی۔ کمرے میں داخل ہونے کے بعد تیزہ پہلی! عاصم کی طرف غور سے دیکھ رہی تھی اور اس نوجوان کی شکل و صورت اُن نفرت انگیز داستانوں کو جھٹلا رہی تھی جو اس نے سن شعور سے لے کر آج تک عربوں کی جہالت اور درندگی کے متعلق سنی تھیں۔ اُسے یہ بات ناقابل یقین معلوم ہوتی تھی کہ وہ بیچارگی کی حالت میں سرائے کے ایک کمرے میں بیٹھی ہے اور ایک عرب اُس کے قریب سورہا ہے۔ تاہم ایک بڑی مصیبت کا احساس اُس کے فخروغرور پر غالب آچکا تھا۔ اُس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور اُسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ اُس کا دل ایک ناقابل برداشت بوجھ تلے پسا جارہا ہے۔
عاصم اچانک دوبارہ بڑبڑایا اور بستر پر ہاتھ پائوں مارنے لگا۔ اُس کا لحاف ایک طرف گرپڑا۔ لڑکی کی حیرانی اضطراب میں تبدیل ہونے لگی، اُسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ نوجوان نیند میں کسی سے لڑ رہا ہے۔ اُس کا چہرہ پسینے میں شرابور ہورہا تھا۔ چند ثانیے بعد وہ خاموش ہوگیا۔ اور کچھ دیر بے حس و حرکت پڑا رہا۔ پھر اچانک اُس نے آنکھیں کھولیں اور اُس کی نگاہیں ایک ان جانی اور ان دیکھی صورت پر مرکوز ہو کر رہ گئیں۔ لڑکی نے گھبرا کر منہ پھیر لیا۔ اُس کے سنہرے بال اُس کے شانوں پر بکھرے ہوئے تھے اور چادر سے باہر اُس کا ایک بازو، جو اب عاصم کی نگاہوں کے سامنے تھا، مرمر کی طرح سفید تھا۔
عاصم کی حیرانی اضطراب میں تبدیل ہونے لگی، اُس نے کمرے کی چھت اور دیواروں کی طرف دیکھا اور انتہائی بدحواسی کے عالم میں اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’میں کہاں ہوں؟‘‘
لڑکی دوبارہ اُس کی طرف دیکھنے لگی۔ اُس کی آنکھوں میں آسمان کی نیلاہٹ، سمندر کی گہرائی اور صبح کی روشنی تھی۔
’’تم… تم کون ہو؟‘‘ عاصم نے جھجکتے ہوئے سوال کیا۔
لڑکی نے بے اعتنائی سے سرہلاتے ہوئے سریانی زبان میں کہا۔ ’’میں آپ کی زبان نہیں جانتی‘‘۔
’’عاصم اچانک پلنگ سے اُتر کر ایک طرف کھڑا ہوگیا اور اُس نے سریانی میں کہا۔ ’’معاف کیجیے سرائے کے مالک کو شاید آپ ہی کا انتظار تھا۔ اور مجھے یہ کمرہ اِس شرط پر دیا گیا تھا کہ جب اُس کے مہمان آجائیں گے تو میں اسے خالی کردوں گا۔ آپ کو یہاں پہنچتے ہی مجھے جگادینا چاہیے تھا۔ مجھے یہاں سونے کا کوئی حق نہ تھا‘‘۔
’’تم سو رہے تھے اور ہمارا یہاں ٹھہرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا اس لیے ہم نے تمہیں تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا‘‘۔
لڑکی نے یہ کہہ کر اپنی ماں کو جھنجھوڑا اور وہ چونک کر اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد عاصم کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’نوجوان، تم اپنی نیند پوری کرچکے ہو…؟‘‘۔
’’جی ہاں اور مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے آپ کو اس قدر تکلیف ہوئی‘‘۔
عورت نے کہا۔ ’’ہمارا یہاں ٹھہرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا اس لیے تمہیں جگانا مناسب نہ سمجھا۔ اگر بارش اس قدر تیز نہ ہوتی تو ہم یہاں رکنا بھی پسند نہ کرتے۔ بیٹھ جائو! تم کھڑے کیوں ہو؟‘‘
عاصم میز کے دوسری طرف ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ عورت کچھ دیر خاموشی سے اُس کی طرف دیکھتی رہی۔
بالآخر اُس نے کہا۔ ’’سرائے کے مالک نے تمہاری بہت تعریف کی ہے۔ تم ہمارے ساتھ دمشق تک جانا پسند کرو گے؟‘‘۔
’’کب…؟‘‘
’’ہم صرف بارش تھمنے کا انتظار کررہے ہیں۔ لیکن اگر بارش نہ رُکی تو بھی ہم صبح تک یہاں سے نکل جائیں گے۔ یہ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ سرائے کے مالک نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ تم ایک بہادر آدمی ہو اور تمہاری نیکی اور شرافت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ ہم تمہاری اعانت کے محتاج ہیں، اگر تم دمشق تک ہمارا ساتھ دے سکو تو میں اِس نیکی کا پورا معاوضہ دے سکوں گی؟‘‘۔
ماں اور بیٹی سراپا التجا بن کر عاصم کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ اور اُس کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ وہ کسی بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہیں۔ اُس نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ ’’اگر سرائے کے مالک کی یہی خواہش ہے، تو میں ضرور آپ کے ساتھ چلوں گا۔ اور آپ سے اس کا کوئی معاوضہ بھی نہیں لوں گا۔ لیکن میں نے سنا ہے کہ ایرانیوں کی پیش قدمی کی وجہ سے دمشق خالی ہورہا ہے۔ کیا ان حالات میں آپ کے لیے وہاں جانا خطرناک نہ ہوگا؟‘‘۔
عورت نے جواب دیا۔ ’’ہمیں ایرانیوں سے کوئی خطرہ نہیں، اگر سارا دمشق خالی ہوجائے تو بھی ہم وہاں ضرور جائیں گے۔ اور تمہیں ہم کو اس قدر نادار نہی سمجھنا چاہیے کہ ہم تمہاری خدمت کا کوئی صلہ نہ دے سکیں۔ بعض اہم وجوہ کی بنا پر ہمیں اس بے سروسامانی کی حالت میں یروشلم سے نکلنا پڑا اور ہم اپنے نوکروں کو ساتھ نہ لاسکے لیکن تمہارے لیے ہمارے پاس اِس وقت بھی بہت کچھ ہے‘‘۔
باہر بادل کی گرج سنائی دی اور بارش کا شور پہلے سے زیادہ ہوگیا۔ عورت نے مضطرب ہو کر کہا۔ ’’اب صبح ہونے والی ہے۔ خدا معلوم یہ طوفان کب تھمے گا۔ ہمارے لیے ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ صبح ہوتے ہی اُن کے ملازم اس طرف بھی ہمارا پیچھا کریں گے‘‘۔
’’آپ کا پیچھا کرنے والے کون ہیں؟‘‘ عاصم نے سوال کیا۔
عورت نے اچانک سنبھل کر جواب دیا۔ ’’آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ہم نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ہم صرف ایک پریشانی سے بچنا چاہتے ہیں۔ یروشلم کی فوج کا ایک بڑا افسر اس بات کی ہرممکن کوشش کرے گا کہ وہ ہمارا تعاقب نہ کرسکیں۔ تاہم ہمارے لیے یہاں ٹھہرنا ٹھیک نہیں‘‘۔
’’میرے خیال میں بارش کا زور ٹوٹ رہا ہے‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر اُٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے واپس آکر کہا۔ ’’مغرب کی طرف بادل چھٹ رہے ہیں اور اب یہ معمولی بوندا باندی بھی زیادہ دیر نہ رہے گی۔ آپ کے پاس گھوڑے ہیں؟‘‘۔
’’ہاں…‘‘۔
’’اگر آپ کے پاس گھوڑے تھے تو آپ کو بارش میں بھی یہاں قیام نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں ابھی سرائے کے مالک کو جگاتا ہوں‘‘۔
فرمس اچانک کمرے میں داخل ہوا اور اُس نے کہا۔ ’’آپ کو یہ کیسے خیال آیا کہ میں سو رہا ہوں۔ گھوڑے تیار ہیں میں صرف بارش تھمنے کا انتظار کررہا تھا۔ اب میں آپ کے پاس ایک درخواست لے کر آیا ہوں۔ ان خواتین کو دمشق تک پہنچنے کے لیے ایک قابل اعتماد ساتھی کی ضرورت ہے اور مجھے اس خدمت کے لیے آپ سے بہتر کوئی نظر نہیں آتا‘‘۔
عورت نے کہا۔ ’’اب تمہیں درخواست کرنے کی ضرورت نہیں یہ شریف نوجوان ہمارے ساتھ جانے کو تیار ہے‘‘۔
فرمس کا ملازم کپڑوں کی گٹھڑی اُٹھائے کمرے میں داخل ہوا اور اسے بستر پر رکھ کر بولا۔ ’’لیجیے میں نے انہیں اچھی طرح سکھا دیا ہے‘‘۔
فرمس نے عورت سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’آپ فوراً تیار ہوجائیے۔ ہم نیچے آپ کا انتظار کریں گے‘‘۔
عاصم دروازے کے قریب ایک کھونٹی سے اپنے کپڑے اُتارنے لگا تو فرمس نے اپنے نوکر سے کہا۔ ’’تم یہ کپڑے لے جائو اور انہیں کھانے کے سامان کے ساتھ ان کی خرجین میں ڈال دو۔ اِس کے بعد ان معزز خواتین کو نیچے لے آئو‘‘۔ پھر وہ عاصم سے مخاطب ہوا۔ ’’تمہارے سفر کے لیے یہ لباس موزوں نہیں۔ تم میرے ساتھ آئو میں نے تمہارے لیے کچھ اور انتظام کیا ہے؟‘‘۔
(جاری ہے)