قوم کی بیٹی کا کھلا خط

200

السلام علیکم!
میرے ہم وطنو! میں اس ملک کی بیٹی ہوں، لیکن افسوس کوئی مجھے بیٹی ماننے کو تیار نہیں۔ میری کتھا کا آغاز اُس وقت سے ہوتا ہے جب 2003ء میں مجھے حراست میں لے لیا گیا، میری فلائٹ نکل چکی تھی لہٰذا میں اب گھر کو جارہی تھی کہ راستے میں مجھے میرے تین بچوں سمیت نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا، جب ہوش آیا تو میں بگرام جیل میں بند تھی۔ میں امریکا کی نامور جامعہ ایم آئی ٹی کی طالبہ تھی۔ میرا مستقبل بہت شان دار اور تابناک تھا، میں قابل اور ذہین سائنس دان تھی، لیکن میں بدنصیب بھی تھی۔
میری داستان ابھی ختم نہیں ہوئی۔ مجھے قید ہوئے لگ بھگ 6800 دن ہوگئے ہیں، مجھ پر جیل میں اتنے مظالم ڈھائے گئے کہ میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی ہوں۔ بگرام جیل سے چند ماہ بعد مجھے امریکا کی کسی ہائی کلاس جیل منتقل کردیا گیا۔ آج کل وہی میرا مسکن ہے۔ میرے دو بچوں کو کچھ عرصے بعد پاکستان بھیج دیا گیا لیکن میرے چھوٹے بیٹے کو میرے سامنے ظالموں نے زمین پر پٹخ کر ختم کر ڈالا۔ میری ممتا تڑپ گئی۔ میں نہیں جانتی میرا جرم کیا ہے، آپ کو کچھ اندازہ ہے میرے جرم کی نوعیت کا؟ ہاں مجھے ٹارچر کے دوران بتایا گیا کہ میں جہادی تنظیم کی کارکن اور مددگار ہوں، اور یہی میرا جرم ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ میرا امریکا کی سرزمین پر تعلیم کے حصول کے لیے اترنا ہی شاید سب سے بڑا جرم تھا، وہیں سے میری بربادی کا آغاز ہوا۔ میری ضعیف والدہ برسوں میری راہ تکتے تکتے بستر مرگ سے جالگیں، اور میری عزیز از جان بہن فوزیہ صدیقی دن رات میری رہائی کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے اور آئے روز اعلیٰ حکام کے پاس دھکے کھاتی ہے۔ زبانی تسلیاں تو بہت ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ حاکموں کے سینے میں دل نہیں ہوتا نا… اور اگر دل ہے تو دردِ دل نہیں، دل مُردہ ہے۔ دورانِ قید اغیار کی اس سرزمین میں کئی حکمران تبدیل ہوئے، یہاں کا آئین ہے کہ جب بھی حکومت بدلے گی جانے والا حاکم جاتے جاتے جیلوں میں بند بے گناہ قیدیوں کی رہائی کے کاغذات پر دستخط کرجاتا ہے، مگر افسوس میرے حاکموں نے بارہا یہ موقع ضائع کیا۔ اس پہ ظلم یہ کہ میرے اپنے وطن میں محض چند ووٹوں کے حصول کے لیے سیاسی جماعتیں میری رہائی کا ڈھکوسلہ کرتی بھی دکھائی دیتی ہیں مگر اقتدار میں آتے ہی سب وعدے ہوا ہوجاتے ہیں۔ یہی نہیں، میرے خاندان نے انصاف کے لیے دنیا کی ہر عدالت کے دروازے پہ دستک دی، بے دریغ پیسہ خرچ کیا اور پیروی کے لیے بہترین وکیل کیا، مگر سب بے کار ثابت ہوا۔ مجھ پر ایسے ایسے ظلم کے پہاڑ توڑے گئے کہ سننے والوں کے کلیجے دہل جائیں۔ کبھی میرے چہرے پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جاتا، کبھی ذہنی اور جسمانی تشدد، کبھی قرآن مجید کی بے حرمتی پر مجبور کیا گیا۔ حتیٰ کہ مختلف ادویہ کے ذریعے مجھے ذہنی طور پر مفلوج کردیا گیا۔
میں اتنے برسوں سے کسی محمد بن قاسم کی للکار کے انتظار میں ہوں۔ میں جس قوم کی بیٹی ہوں اُس نے مجھے لاوارث اور بے آسرا چھوڑ دیا۔ کسی نے میری رہائی کے لیے آواز بلند نہ کی۔ میری قابلیت اور ذہانت کی اس قوم کو ضرورت نہیں۔ میں مستقبل کی سائنس دان تھی، مجھے قیدی بنادیا۔ میرے اپنوں نے مجھے ڈالروں کے عوض اغیار کو بیچ ڈالا۔ مجھے شکوہ اپنی قوم سے ہے، جو کلمہ گو ہے، جس کے مذہب کی تعلیمات کے مطابق حکم ہے کہ ظلم پر خاموش رہنا بھی ظلم کے مترادف ہے۔ میں اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہوں، مجھے 86 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
میرا سوال اپنی قوم سے ہے۔ آپ سب کے گھروں میں بھی ایک عافیہ ہوگی۔ میں بھی کسی کی ماں، بیٹی ہوں۔ اگر آپ کی عافیہ کے ساتھ یہ سب کچھ ہو تو کیا آپ برداشت کریں گے؟ بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں، پھر مجھے کیوں برباد کیا؟ کیا میں اس قوم کی بیٹی نہیں؟ سب اغیار کی ذہنی غلامی قبول کرچکے ہیں لیکن میری روح آزاد ہے۔ آپ ذہنی طور پر قید اور میں جسمانی طور پر۔ فرق صرف سوچ کا ہے۔
فقط
آپ سب کی بے حسی کا شکار عافیہ صدیقہ

حصہ