ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہوکر رہ گئی ہے۔ مہنگائی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گی اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اُس کی حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ کیا واقعی ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہوسکتیں؟ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے؟ کیا کھانا کھانے کے بعد آئوٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے؟ کیا واقعی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہوجاتے ہیں ان کی ضرورت ہے؟ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا؟
زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمود و نمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔ اب شادی کی تقریبات کو دیکھ لیجیے۔ اس کے کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہیں۔
ہماری قوم کا مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے وہ بے روزگاری ہے۔ دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہوگئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوسی ملک انٹرنیٹ کو استعمال کرکے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے، وہاں ہمارے ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔ جیسے جون ایلیا کا مصرع ہے:
عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئی
ہم بھی بجائے اس کے، کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔ بیرونی ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف اُن کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔ نوجوان اپنی پڑھائی اور ضروریاتِ زندگی کی ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔
ہمارے ہاں نوجوان عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد ہی کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں یا کوئی ملازمت تلاش کرتے ہیں۔ اُس وقت تک ان کی عمر 25 برس ہوچکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرنے اور اِدھر اُدھر دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی، تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سال کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو کہ مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے۔ پاکستان میں مہنگائی میں 9.74 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایسے میں ایک تو فضول خرچی سے بچا جائے، خواہشاتِ نفس پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ کفایت شعاری سے کام لیں اور جتنا ہے اس میں اطمینان پیدا کرلیں۔ خود سے بڑے کو دیکھ کر حسد کی آگ میں جلنے کے بجائے قناعت کریں اور اللہ کا شکر ادا کریں تو یقینا اللہ آپ کو مزید دے گا اور آپ کے لیے آسانیاں بھی پیدا کرے گا۔ دعائیں کریں، اللہ کے ساتھ اپنا من لگائیں۔ محنت اور حلال کی کمائی کے ذرائع استعمال کریں۔ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کئی کام ہیں جو کیے جاسکتے ہیں وہ بھی اپنائیں۔ ہنر حاصل کریں اور کسی بھی ہنر کو برا یا کم تر نہ سمجھیں۔ ذرائع کا بہتر استعمال کریں تو اللہ پاک اس میں برکت پیدا کرے گا۔
یہ بھی ضروری ہے کہ والدین یا بڑے، اپنے بچوں کو آرام دہ ماحول دینے کے بجائے اُن کی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے انہیں گھر سے نکالیں، ان پر اعتما د کریں۔ اس طرح وہ آگے بڑھیں گے اور مہنگائی کے اس دور میں کوئی بہتر روزگار تلاش کریں گے اور گھر کو چلانے کا سبب بنیں گے۔ خواتین، خاص طور پر لڑکیاں گھر میں کوئی کام کریں۔ گھر میں رہ کر کئی کام کیے جاسکتے ہیں، وہ لازمی کریں، اور اگر کچھ نہیں تو فضول خواہشات کو روکیں۔ اس طرح بیویاں بھی اپنے شوہروں پر بوجھ نہ بڑھائیں بلکہ ان کے لیے سہولیات پیدا کریں، تاکہ وہ گھر میں آکر ذہنی کوفت کے بجائے راحت محسوس کریں اور اگلے روز پھر سے تازہ دم ہوکر کام کے لیے نکلیں۔