ذہانت فن اور قوت حافظہ: جتنا حافظہ اتنی ہی ہماری شخصیت

524

ہم تعلیمی اداروں میں خدا کے بنائے ہوئے نظام سے ٹکر اٹکرا کر بچوں کو توتوں کی طرح یاد کراتے ہیں۔ یاد کرانے کے جو بھی موجودہ طریقے ہیں اس میں یاد کرنے والے کی جان نکل جاتی ہے۔ بچے یاد بھی کرلیں تو جیسے ہم نے بچہ مزدوری سے ایک محل تعمیر کیا۔کیوں کہ ہم سیاہ قلم سے سفید کاغذ کی لکھائی یاد کرتے ہیں جب کہ ذہن رنگوں کو یاد رکھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ یاداشت ایک ایسی عورت ہے جو نعمت پھینک دیتی ہے اور رنگین چادریں سمیٹتی اور سینت کر رکھتی ہے۔ہم تعلیم گاہوں میں اعداد و شمار کو خانوں میں پھیلا کر یاد کرتے ہیں۔ جب کہ ذہن کی ساخت اس کی مدد نہیں کرسکتی۔قطار میں لکھے ترتیب سے جڑے، سطروں پر پھیلے ہوئے متن کورٹتے ہیں۔ اس رٹا پریڈ میں نسلوں کو ہم نے جھونک دیا۔ جب کہ حافظہ کی اپنی زبان ہے ، وہ زبان تصورات، پیکر، احساسات، رنگوں، ترتیب، خاکہ،جذبات اورزائچوں کی صورت ہے۔ اسی لیے یاد کرنے والے جو رٹ کر یاد کرتے ہیں اور بھول بھول جاتے ہیں۔
کہیں جیسے میں کوئی چیز رکھ کر بھول جاتا ہوں
پہن لیتا ہوں جب دستار تو سر بھول جاتا ہوں
حافظہ کہانی کے فن کو قبول کرتا ہے۔ جو کہانی میں ڈھل جائے وہ بھی یاد کی روشن سطح پر رہتی ہے۔اس فن کے برتنے سے زندگی کے کئی پہلو چمک اٹھتے ہیں۔ یادشت ایک طاقتور دوست بن کر ساتھ ہوجاتی ہے۔ ہر چیز یاد کی روشن سطح پر رہتی ہے۔۔ جو حاضر علم ہے اسی سے شخصیت بنتی ہے جو بڑی یقینی تلاش کا حاصل ہے۔
Dr. Roger Sperry کو نوبل انعام دماغ کی توانائی دریافت کرنے پر ملا تھا۔ جس میں اس نے یہ ثابت کیا کہ جو لوگ اپنے دونوں ہاتھوں سے بھرپور کام کرتے ہیں ان کے دماغ کے دونوں حصہ معجزاتی طور پر کام کرتے ہیں۔ دنیا کی اہم ترین اوربڑی شخصیات دونوں ہاتھوں سے یکساں مہارت سے کام کرتے ہیں۔ جس کی ایک بڑی فہرست ہے۔کیوں کہ دماغ کے ایک حصہ میں تصورات اور دوسرے میں منطق کا دنیا آباد رہتی ہے۔ ڈاکٹرRoger Sperry کے بتائے ہوئے اصولوں پر
E. ennison Paul Gail E. Dennison &نے اور دیگر کئی ادارے اور افراد نے دونوں ہاتھوں کی کئی مشقیں تیار کی ہیں۔ جس میں اپنے غیر فعال ہاتھ سے ڈرائینگ کرنا۔ روزانہ نا استعمال ہونے والے ہاتھ سے ایک صفحہ لکھنا۔ ہاتھوں کی الگ ترتیب سے کسرت کرنا۔
حافظہ کی بنیاد ’’تخلیقی تخیل‘‘ ہے کیوں کہ تخیل عمارت اور تفصیلی علم اس کی چھاوں ہے۔آئن اسٹائن نے بھی کہا تھا کہ ’’یہ دنیا تخیل کے حصار میں ہے۔‘‘ جیسے کہ کبھی کسی نے سوچا تھا کہ انسان پرندوں سی پرواز کیوں نہیں کرسکتا۔ یہ تخیل ہی تھاجسے تجربات نے سچ کردکھا یا۔ کبھی نبی ٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ اسلام ایک عالم میں پھیل جائے گا۔ یہ بات تب کہی تھی جب مکی دور کے آزار سے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم گزر رہے تھے۔ لیکن حسنِ تخیل کا یہ جلوہ دنیا نے اپنی آباد دنیا میں دیکھ لیا۔
مادّی اشیا کا بدن ہوتا ہے۔ لیکن تجرید و جذبات کو ہمیں پیکر عطا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح اعداد کو بھی زبان دینی پڑتی ہے، آوازوں میں بدلنا پڑتا ہے۔ جیسے کہ موسیقی کے سرگم ہوتے ہیں۔ اس کو Major system or Digit calling system کہتے ہیں۔ اگر اشاروں میں کہوں تو یادکرنے کے لیے پانچوں حواس کو برتنا ہوگا۔ حواس کے خزانوں میں محفوظ کرنا، حواس کی مہر لگانا، مبالغہ کو کام میں لانا، کڑی سے کڑی کو جوڑنا، انتشار کو ہنرمندی سے ایکائی میں بدلنا، رنگوں کو متن میں ڈالنا، متن کو تصور سے متحرک بنانا، متن کو مقناطیس کی طرح قانون کشش سے جوڑنا، ایک خوش کن قہقہہ اس میں شامل کرنا (تاکہ ذہنی تنا و سے بھولنے اور بھلانے والے ہارمون پر قابو پایا جاسکے)، کہانی کے فن کو علم کی ایکائیوں سے کرداروں میں ڈھالنا کیوں کہ ذہن داستان گو راوی ہے۔رنگ بھرے فسانے یاد رکھاتا ہے۔ مثبت سوچ کو شریک مطالعہ کرنا۔ اس سے صدیوں کی تقویم بھی دن تاریخ کے ساتھ تھوڑی سی کوشش سے یاد ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں جس کا تصورات کا ملکہ اچھا ہوتا ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ وہ اپنے حافظے سے حسن تصور سے ایسا مجسمہ بنادیں کہ پتھر سے دل دھڑکتا ہوا لگے۔منظر سے جانور جست لگاکر کود پڑے۔
اس تفصیل کے علی الرغم یہ ایک عملی ہنر ہے اس کو اس وضاحت کے باوجود پوری طرح سمجھا نہیں جاسکتا اس لیے ہم جیسے میموری ماسٹرز اس کی تربیت دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں کسی بھی سبجکٹ کو کم سے کم وقت میں بغیر کسی زحمت و مشقت کے یا د کیا جاسکتا ہے۔
یاداشت تو چھلنی ہے۔چھلنی کو گرم، گاڑے، پتلے خیالات کے برتن الگ ہوتے ہیں۔قوتِ حافظہ بڑھانے کے جو بنیادی طریقے عام ہیں اس میں سے چند یہ ہیں۔
Mind palace method, acronym, acrostic, number phrase, sentence method, Alphabets markers, Mnemonic of meaning and spelling, speed reading, mind map, pao system.
جو لوگ اپنے تعلیمی معیار کو آسان طریقہ سے 300 فیصد تک اپنے حافظہ کو بہتر بنانا چاہتے ہیں وہ اس ہنر کو سیکھ کر اچھے نمبرحاصل کرسکتے ہیں۔یہ دریا کو کوزے میں سمیٹنے والا ہنر ہے۔ حکومت ہند آنے والے تعلیم سال سے ممکن ہو اس کورس کو نصاب میں شامل کردے جس پر سنجیدگی سے غور ہورہا ہے۔ یہ ہنر جیسے دماغ کو اس کی تمام توانائیاں سمجھنے اور اس سے کام لینے کا عملی خاکہ ہے۔یاداشت کا تعلق جگہ سے رہتا ہے جس کو Spatial memory بھی کہتے ہیں۔ ہم نے اس کو کبھی بھی نہیں برتا۔ جیسے گیاسوں کے نام (ہیلیم گیاس کو غبار میں بھری جانے والی مثال سے یاد کرنا) حساب کے فارمولوں کو ہم نے کبھی بھی کسی جگہ سے نہیں جوڑا۔ یہ جوڑنا سکھاتا ہے۔ یہ فن حیرت انگیز طور پر ہر یاد کو جسم دے دیتا ہے۔
قوتِ حافظہ کا فن ایک بہت آسان لیکن اہم تجربہ ہے۔ بڑا تجربہ، بڑی زندگی دیتا ہے۔نئے جہانوں کی بنیاد ڈالتا ہے۔ ہمیں ہمت شکن لاچاری سے آگے بڑھ کر ، پست تعلیمی اور تھکادینے والے منصوبوں سے نکل کر اس علم کی پناہوں میں جانا چاہیے تاکہ نئی نسل کو حصول علم فرحت بخش لگے۔ حیر ت ہے کہ یہ معروف ہنر ابھی تک قومی اور ملکی سطح پر فکر مند افرا د تک تعارف کی سطح تک بھی نہیں پہنچا جب کے اس میدان میں دیگر قوموں،ملکوں کے افراد نے حیرت انگیز کمالات دکھائے ہیں۔ حافظہ خوش حالیوں کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ کون بنے کا کروڑ پتی جیسے کھیل حافظہ کے سبب عالمی سطح پر عام ہیں۔

حصہ