قیامِ امن کی کوشش

158

دورِ جاہلیت میں عرب کے لوگ بڑے لڑاکو تھے۔ بات بات پر لڑتے۔ اور اگر کسی طرف کا کوئی آدمی ہلاک ہو جاتا تو جب تک اس کا بدلہ نہ لے لیتے چین سے نہ بیٹھتے۔ اس طرح آئے دن جنگیں ہوتیں، اور جب ایک بار جنگ کا شعلہ بھڑک اٹھتا تو پھر برسوں بجھنے میں نہ آتا اور عرب کے ایک بہت بڑے حصے کے امن و سکون کو جلا کر خاکستر کر دیتا۔ ان جنگوں کی وجہ سے ملک میں بڑی بے چینی رہتی۔ ہزاروں آدمی ہلاک ہوتے۔ کسی کو بھی اپنی، اپنے اہل و عیال، نیزا عزہ واقربا کی جان سلامت نظر نہ آتی۔ ان خون ریزیوں کا نتیجہ یہ بھی ہوتا کہ سیکڑوں عورتیں بیوہ اور ہزاروں بچے یتیم ہو جاتے۔ ان بیوائوں اور یتیموں کا کوئی پرسانِ حال نہ ہوتا۔ ظالم لوگ انہیں ستاتے، طرح طرح سے پریشان کرتے۔ غلاموں کا حال تو ان سے بھی بدتر تھا۔ ان کے ساتھ بالکل جانوروں کا سا برتائو کیا جاتا۔
آنحضرت ؐ ابھی کم سن تھے۔ اللہ نے آپؐ کو نبوت بھی نہیں بخشی تھی۔ مگر آپؐ شروع ہی سے بہت نیک تھے۔ ان درد ناک مناظر کو دیکھ کر آپؐ بہت کڑھا کرتے۔ آپؐ اس بات کی پوری کوشش کرتے کہ کسی طرح اس قسم کے واقعات ہی رونما نہ ہونے پائیں، جن سے جنگ وجدال کی نوبت آئے۔ اور ملک کا امن و سکون غارت ہو۔ چنانچہ حجرِ اسود کو کعبہ کی دیوار میں نصب کرنے کے معاملہ میں جب سرد ارانِ قریش کی تلواریں کھنچ گئیں اور قریب تھا کہ خون خرابہ ہو جائے، اس وقت آنحضرتؐ نے کتنی خوش اسلوبی سے جھگڑے کو رفع دفع کیا تھا۔ آپؐ نے ایک چادر میں حجرِ اسود کو رکھوایا۔ پھر ایک ایک گوشہ تمام سرداروں کو پکڑوایا اور لے جا کر دیوار میں نصب کرا دیا۔ اور اس طرح اہل عرب کو ایک زبر دست تباہی سے بچالیا۔
اسی دوران میں اتفاق سے ایک بیرونی تاجر سامانِ تجارت لے کر مکہ آیا۔ یہاں لوگوں نے اس کا سامان لے کر اپنے گھروں میں رکھ لیا اور قیمت ادا نہیں کی۔ وہ بیچارہ روتا پیٹتا مختلف لوگوں کے پاس گیا۔ مگر کسی نے اس کی مدد نہ کی۔ایک غریب الوطن تاجر کو اس حال میں دیکھ کر آپؐ کو بہت دکھ ہوا۔ آپ اکثر اس قسم کے مظالم کی روک تھام کی تدابیر سوچا کرتے تھے۔
عرب کے چند نیک مزاج لوگوں نے پہلے ہی سے ایک معاہدہ کر رکھا تھا۔ جس کا نام حلفِ الفضول تھا۔ اس کے اراکین اس بات کا اقرار کیا کرتے تھے کہ ہم سب مل کر مظلوموں کی مدد کیا کریں گے۔ مگر آہستہ آہستہ لوگوں نے اس قول و قرار کو بھلا دیا تھا۔ آپؐ نے اکثر قبائل کے سرداروں اور سمجھ دار لوگوں کو ملک کی اس تباہی، لوٹ کھسوٹ، بدامنی، راستوں کی خطرناکی، غریبوں، بے کسوں اور مسافروں کے ساتھ ناروا سلوک اور اس کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی۔ آخر ایک انجمن قائم ہو گئی جس میں بنو ہاشم، بنو عبدالطلب، بنواسد، بنو زہرہ اور بنو تمیم شامل تھے۔
اس انجمن کے اراکین مندرجہ ذیل عہد کیا کرتے تھے۔
1…ہم ملک سے بدامنی دور کریں گے۔
2… ہم مسافروں کی حفاظت کیا کریں گے۔
3… ہم غریبوں اور بیکسوں کی امداد کیا کریں گے۔
4… ہم زبر دست کو زیر دست پر ظلم کرنے سے روکیں گے۔
اس تدبیر سے ملک کی بدامنی ایک حد تک دور ہو گئی۔ لوگوں کی جان و مال کی بھی بہت کچھ حفاظت ہو گئی۔ آپؐ بعشت کے بعد بھی فرمایا کرتے تھے۔
’’میں آج بھی اس معاہدہ پر عمل کرنے کو تیار ہوں‘‘۔

حصہ