آدمیت تیری تلاش رہی
دیکھے ہیں پردہ ہائے نام بہت
مولانا یوسف اصلاحی رب کے مہمان ہوئے۔ ان کی شخصیت پر لکھنے کے لیے جس درجہ کا بڑا انسان ہونا چاہیے وہ میں نہیں ہوں۔ ان کی شخصیت کا صحیح مقام و مرتبہ کسی قصیدہ خان کا محتاج بھی نہیں ہے کہ کوئی بیان کرے کہ مولانا صاحب ایک شمع تھے اور یہ اس کی روشنی ہے۔ ان کی حیاتِ جاوداں کا ہر دور‘ ان کا اپنا ایمان و کردار‘ ان کا مقام متعین کرنے کے لیے کافی ہے۔
یہ تو پاکستانی میڈیا کی کم نگاہی ہے کہ بھارت کے کسی گلوکار اور اداکار کا انتقال ہو جائی تو اس کے گانوں اور فلموں کے منتخب حصے بار بار نشر کیے جاتے ہیں مگر صدی کا ایک مفکرِ حیات‘ ایک داعی حق‘ ایک متکلم السام‘ ایک مصنف‘ ایک تنظیم کا اَن تھک کارکن (بلاشبہ ان کی شخصیت تاریخی‘ علمی‘ ادبی ہر حوالے سے انتہائی اہم ہے) کے دنیا کے رخصت ہونے کا گویا یہاں کسی کو علم ہی نہیں۔
حکیم الامت علامہ اقبال نے جب قوم کو احساس دلایا کہ تم حالتِ جنگ میں ہو۔ گو مولاناسید عبدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے نہ صرف خود فکری اور تہذیبی جنگ کے ہتھیار اٹھائے بلکہ قوم کے صاحبِ فکر اور کردار لوگوں کی ایک سپاہ تیار کی جس کو اپنی خودی کے تحفظ اور اپنی ہستی کی بازیافت کا پیغام دیا۔
مولانا یوسف اصلاحی اسی لشکر کے ایک سپاہی تھے۔ جنہوں نے عین عالم شباب میں 25 برس کی عمر میں جماعت اسلامی ہند میں شمولیت اختیار کی اور آخردم تک اپنی پوری صلاحیتیں اس مشن کے لیے وقف کردیں۔
مادیت کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے لیے جس ایمانو شعور کی ضرورت ہے اسے اپنی نسلوں میں نمو دینے کے لیے ملانا یوسف اصلاحیؒ نے ایک عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا۔ ہزاروں صفحات پر پھیلا ہو ان کا لٹریچر جس میں کتاب و سنت کی حکمت کی روشنی میںتہذیبِ مغرب اور موجودہ دور کے چیلنجوں کے خلاف اپنا مقدمہ نہایت مدلل طور پر ثابت کیا۔ ان کے زندہ قلم نے اسلام کے اساسی اصولوں سے لے کر اس کے اصول و احکام تک ہر چیز اس طرح کھول کر رکھ دی کہ ایک صالح فکر کو گویا اپنی گمشدہ ہستی دوبارہ ہاتھ آگئی۔
انہوں نے تنظیمی ذمہ داریوں‘ شرق و غرب کے دوروں کے ساتھ 60 سے زائد کتب تصنیف کیں۔ ان کا لٹریچر ہند و پاک میں ہی نہیں بلکہ متعدد دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو کر عالمِ اسلام‘ یورپ اور امریکا میں بھی پھیل رہا ہے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک غیر ملکی سفرکے دوران نشست پر ساتھ بیٹھا فرد ان سے مختلف اختلافی امور پر گفتگو کرتا رہا۔ جاتے ہوئے اس نے اپنے بیگ سے ایک کتاب نکال کر ان کے حوالے کی کہ اسلام کا صحیح فہم حاصل کرنا ہی تو یوسف اصلاحی صاحب کی اس کتاب کا مطالعہ کر لینا۔ انہوں نے شکریے کے ساتھ مسکرتے ہوئے یہ گراں قدر تحفہ قبول کر لیا۔
مولانا یوسف اصلاحی مفکر اور مصنف بھی ہوتے تو تاریخ میں زندہ رہتے مگر انہوں نے تنظیم کی عملی جدوجہد کی ذمہ داریاں اٹھائیں اور مردانہ وار اٹھائیں۔ خود کو ایک نصب العین کے لیے وقف کر دینا اور ساری زندگی اس کے نام کر دینا‘ فرد کو نظم کی لڑی میں پرونا‘ اس کی تربیت‘ نصب العین کے لیے وقت‘ صلاحیتوں اور مال کی قربانی‘ ان کو الحاد پرستی اور مغربی اور دجالی فتنوں سے آگہی دے کر اسلام کا سپاہی بنانا کوئی آسان کام نہیں۔ ان کی شخصیت راستی کے مسلک پر چلتے اور تعزیر کی بھتیوں سے گزر کے کھرا سونا ثابت ہوئی۔
مولانا یوسف اصلاحی کو علما کی صفوں میں جگہ دینے سے انکی شخصیت کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا‘ کیوں کہ وہ اسلامی نظریہ اور اسلامی اصولوں کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے ساری زندگی کسی خانقاہ یا علمی مسند پر قلم و کتاب کے خوگر نہ تھے بلکہ ایک عظیم اسلامی اجتماعیت کے روحِ رواں تھے۔
مولانا یوسف اصلاحی کی شخصیت کی تصویر اتنی پھیلی ہوئی ہے اور اس کے اتنے درخشاں گوشے سامنے ہیں کہ ان سب کا احاطہ کرنا مشکل کام ہے۔ ایک طرف وہ ہزاروں بچیوں کی دینی و عصری تعلیمی درس گاہ قائم کرتے ہیں تو دوسری طرف ماہنامہ مجلّہ ’’ازکیٰ‘‘ کا اجرا کرتے ہیں۔ کتنی علمی و رفاہی تنظیموں کے سرپرست رہے۔ انہوں نے قلبی و روحانی طور پر پاکستان ہجرت کے باوجود جسمانی طور پر بھارت ہجرت کی تاکہ وہاں کے مسلمانوں کو فتنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا داعیانہ کردار ادا کر سکیں۔
آپ کی کئی کتابیں ’’بیسٹ سیلر‘‘ کی فہرست میں آسکتی ہیں۔ حُسن معاشرت‘ آداب زندگی‘ شعورِ حیات‘ آسان فقہ وغیرہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں تحریکی و نظریاتی افراد اور اداروں کی لائبریری میں موجود ہے۔
کچھ افراد کے دنیا سے رخصت ہونے پر احساس ہوتا ہے کہ کتنے خوش قسمت تھے کہ ’’حقِ وفا‘‘ ادا کر گئے۔ (ان شاء اللہ تعالیٰ)
اپنے قلم اور زبان کے ذریعے دنیا کے چپے چپے پر ایمان و حکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہو چکی ہے۔ یوٹیوب پر بھی ان کی تقاریر سنتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ اب بے قرار اور مضطر وجود کو بالآخر قرار آہی گیا۔ ان کی کرسی ان کے کمرے میں خالی ہو چکی ہے‘ ان کی کتابیں انہیں ڈھونڈ رہی ہیں‘ ان کا قلم اور کاغذ کا دستہ منتظر ہوگا ان کے لمس کا۔
ان کے ساتھ کام کرنے والے رفیقوں کو بہت عزم و ہمت کی ضرورت ہوگی۔ کل سے سوشل میڈیا پر ان کے حوالے سے تحریریں اور تاثرات دیکھ رہی ہوں‘ ان کے غمِ جدائی کی وسیع جاگیر کے حصہ دار بے شمار ہیں۔
ہم اس مرحوم و مغفور ہستی کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعائیں کر رہے ہیں مگر میری لائبریری سے جھانکتی ’’آداب زندگی‘ حسنِ معاشرت‘ آسان فقہ‘‘ کہہ رہی ہے کہ مولانا یوسف اصلاحی زندہ ہیں اور رہیں گے اپنی تحریروں میں۔ اللھم غفرلہ و ارحمہ و داخلہ الجنۃ‘ آمین۔