پروفیسر غفوراحمد سیاست کا کوہ ِگراں

905

26دسمبر کی تاریخ پاکستان کی سیاست کے اس عظیم فرد کا یوم وفات ہے جس نے سیاست کو عبادت کادرجہ دیااور سیاست میں شرافت ،عجزوانکساری کو فروغ دیا ۔پروفیسر غفور احمد کے بغیر پاکستان کی سیاسی تاریخ نامکمل ہے۔ اللہ نے پروفیسر غفور احمد سے ایسا کام لیا کہ اُن کا نام تاریخ کا حصہ بن گیا۔
پروفیسر غفور احمد نے ہمیشہ جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور ڈائیلاگ کے ذریعے بڑے بڑے بحران اور مسائل کو حل کیا۔ انہوں سیاست کا آغاز کونسلر کی حیثیت سے کیا۔ وہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر بھی رہے۔کراچی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ 74 کے آئین کی تشکیل اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے والی کمیٹی میں بھی تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو پروفیسر غفور کی ذہانت اور قابلیت کے معترف تھے۔ پروفیسر غفور احمد کو بین الاقوامی شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب انہیں قومی اتحاد کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا۔ ’’قومی اتحاد‘‘ کی تحریک میں پروفیسر غفور احمد نے ملک گیر دورے کیے اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا جنہیں بڑی عوامی پزیرائی حاصل ہوئی ۔انتخاب میں ہونے والی دھاندلی میں پروفیسر غفور احمد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات میں پیش پیش تھے اور ان کے آخری لمحات میں حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی کامیاب ہوگئے تھے لیکن افسوس کہ ضیاء الحق نے مارشل لا لگا دیا۔
پروفیسر غفور احمد نے سیاست میں شرافت ،خدمت،عجز وانکساری ،دیانت داری کو فروٖغ دیا ۔1985کے غیر جماعتی انتخاب پر ان کے شدید تحفظات تھے اور انھوں نے غیر جماعتی انتخابات کو پاکستان کی سیاست کے لیے زہر قاتل قرار دیا تھا۔ انھوں نے جماعت اسلامی کی شوریٰ میں بھی اپنے خیالات سے آگاہ کیا‘ لیکن جب جماعت اسلامی نے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو پروفیسر غفور صاحب خاموش ہوگئے اور اکثریت کے فیصلے کو قبول کیا لیکن انتخابات میں حصہ لینے سے معذرت کر لی۔ انھوں نے کہا کہ جب میرا ضمیر غیر جماعتی انتخابات کو قبول نہیں کر تا تو میں کیسے اس میں حصہ لے سکتا ہوں ۔
1988میں جب آئی جے آئی بنائی گئی تو پروفیسر غفور احمد اس اتحادکے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اور جب تک جماعت اسلامی اس اتحاد میں شامل رہی غفور صاحب جنرل سیکریٹری کے عہدے پر کام کرتے رہے۔ غلام مصطفی جتوئی اس اتحاد کے پہلے صدر منتخب ہوئے تھے۔
متحدہ مجلس عمل کے دور میں پروفیسر غفور احمد سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے ۔ انھوں نے سینیٹ میں بھی آئینی اور قانونی امور کی تیاریوں میں اہم کردار ادا کیا۔ جس وقت کراچی میںہرطرف ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا‘ پروفیسر غفور احمد فیڈرل بی ایریا میںایم کیوایم کے گڑھ میں رہتے تھے ۔انھیں بڑی دھمکیاں اور خوفزدہ کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن غفور صاحب کی استقامت اور جرات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ ایم کیو ایم کے گڑھ میں ایم کیوایم کو للکارتے تھے اور الطاف حسین اور اس کی خونی سیاست کی ہر جگہ مذمت کرتے تھے ۔پروفیسر غفور احمد گولیوں کی گھن گرج کی پروا کیے بغیر صبح فجر کے وقت تن تنہا مسجد جاتے تھے ۔انھوںنے تمام تر دھمکیوں کے باوجود کبھی سرکاری اور پرائیوٹ گارڈ نہیں رکھے۔کئی دفعہ ان کے گھر پر ڈکیتی کی وارداتیں بھی ہوئیں ۔ایک دفعہ ڈکیتی کے دوران ڈاکو سے کہا کہ آپ بھی میرے بچوں کی طرح ہوں جو کچھ بھی لینا ہوں آپ لے لو۔ڈاکو پروفیسر غفور اس شفقت محبت سے برا حیران اور پریشان ہوئے اور غفور صاحب سے معافی مانگنے لگے۔
پروفیسر غفور احمد بلاشبہ پاکستان کی تاریخ وہ روشن باب ہے جس کو تاریخ میںہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سیاست میں شرافت، عجزوانکساری، تحمل، برداشت، بردباری کے ساتھ ساتھ کرداراور عمل کی دنیا کا ایک ایسا نور جس کی عظمت کا ہر فرد شاہد ہے۔

حصہ