وزن

242

میں بے ہنگم یک طرفہ ٹریفک پر واقع بس اسٹاپ پر کھڑی تھی، شام کا وقت تھا، میرے پیچھے کئی منزلہ فلیٹس اور روشنی سے جگمگاتی دکانوں کی قطاریں تھیں۔ اندھیری سڑک پر گاڑیاں بھاگی چلی جا رہی تھیں، پیچھے سے جاتی ہوئی گاڑیوں کی لال بتیاں گویا الوداع کہہ رہی ہوں۔ لیکن صرف گاڑیاں ہی نہیں، ہر گزرتا شخص جلد بازی میں نظر آرہا تھا، اور سب ایک دوسرے سے لاپروا… کچھ دور ایک عمر رسیدہ شخص لوہے کی اونچی سی ٹرالی (جوکہ بھاری سامان کم فاصلے پر پہنچانے کے کام آتی ہے) لیے کھڑا تھا، شاید مزدوری کے انتظار میں تھا۔ تھوڑے فاصلے پر ایک کار آکر رکی، ایک آدمی نے اتر کر گاڑی کی ڈگی کھولی اور اشارے سے ٹرالی والے مزدور کو اپنے پاس بلا لیا۔ ایک رجسٹر اور دو شاپروں پر مشتمل سامان مزدور کے حوالے کیا اور ہاتھ سے کچھ اشارہ بھی کیا، گویا کچھ سمجھا رہا تھا۔ وہ مزدور ٹرالی میں سامان ڈالے دو عمارتوں کے درمیان پتلی سی گلی میں چلا گیا اور وہ شخص گاڑی بند کرکے مجھ سے کچھ فاصلے پر آکھڑا ہوا۔ اتنے میں مزدور عمارت کے پیچھے سے ہوکر دوسری طرف کی گلی سے سامنے آموجود تھا۔ میں دل میں سوچنے لگی اتنی بڑی ٹرالی میں اتنا کم سامان…؟ کتنا کاہل آدمی ہے، چھوٹے سے شاپر نہیں اٹھا سکتا! یہی تو المیہ ہے ہمارا، ہم اپنا کام خود نہیں کرتے، نواب کے بچے بنے رہتے ہیں۔ گھروں میں خواتین کا ماسیوں کے بغیر کام نہیں چلتا، ذرا سا پیسہ کیا آجائے پیسہ پھینک تماشا دیکھ…جیسے کوئی سیاسی لیڈر اپوزیشن کی کرپشن گنواتا ہے، میں بھی اپنی قوم کے عیب گن رہی تھی۔
’’صحیح ہے صاب! پچھلی گلی سے آرام سے لے آیا ہوں، یہاں کھڑی ہوئی گاڑیوں نے رستہ بند کیا ہوا ہے۔‘‘
وہ مزدور اس شخص سے کہہ رہا تھا جو گاڑی پارک کرکے وہاں منتظر تھا۔ اس نے مزدور کو کچھ پیسے دیے، جو وہ پہلے ہی ہاتھ میں لیے کھڑا تھا۔
’’بوت شکریہ صاب!آج صبح سے کوئی دہاڑی نہیں لگا، بوت شکریہ…‘‘ مزدور کے چہرے پر مسکراہٹ اور رب کا شکرانہ میں دیکھ سکتی تھی۔ وہ شخص اپنا سامان اٹھائے فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھنے لگا اور میں نظریں جھکائے رہ گئی۔

حصہ