علم سب سے بڑی دولت ہے۔ اور جہالت سب سے بڑا افلاس۔ علم کے بغیر آدمی کا ایمان اور یقین پختہ نہیں ہوتا۔ جس کے نتیجے میں وہ عمل کی دولت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ جبھی تو علم کی طلب ہر مسلم کے لیے ضروری قرار دی گئی ہے۔ جنہیں اپنے ایمان و عمل کی فکر ہوتی ہے وہ اس دولت کے حصول کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں خواہ اس راہ میں انہیں کتنی ہی صعوبتیں پیش آئیں۔
امام بخاریؒ سے تو تم متعارف ہو۔ آپ نے علم کی خاطر بہت مصیبتیں جھیلیں، دور دراز کے سفر کیے۔ چودہ سال کے سن میں آپ گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور بخارا سے مصر تک سارے ممالک کی خاک چھانتے پھرے۔ ذرا غور تو کرو۔ کہاں بخارا اور کہاں مصر۔ اتنی طویل مسافت اور وہ بھی امام بخاریؒ کے دور میں جب کہ سفرمعمولی سفر ہوتا تھا۔ اتنا ہی نہیں، سفر میں بسا اوقات امام بخاریؒ اتنے تہی دست ہو جاتے تھے کہ کھانے کے لیے کئی کئی دن جنگل کی جڑی بوٹیوں کے سوا کوئی چیز نصیب نہ ہوتی تھی۔ پھر بھی وہ اپنی کوشش جاری رکھتے تھے اور ان کے شوق میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی تھی۔ امام بخاریؒ کا یہی اشتیاق تھا جس کے باعث اللہ نے علم کی دولت سے مالا مال کیا اور وہ حدیث کے سب سے بڑے امام ہوئے۔
سوالات :
سوال نمبر 1…دنیا کی سب سے بڑی دولت کیا ہے؟
سوال نمبر 2…حصول علم کی کوشش کون کرتا ہے؟
سوال نمبر 3…امام بخاریؒ کس عمر میں گھرسےنکلے حصولِ علم کےلیے؟
سوال نمبر 4…دوران سفر امام بخاریؒ کیا کیا مشکلات پیش آئیں؟