ہم کیوں مسلمان ہوئے

301

عبدالرحمٰن ۔۔۔(بھارت)
اب تک جو باتیں عرض کر چکا ہوںیہ دراصل میرے قبولِ اسلام کا پس منظر ہے اور اب میں یہ بات عرض کروں گا کہ کس مرحلے پر میں اسلام کی طرف متوجہ ہوا۔ میں بچپن ہی سے مصوری اور پینٹنگ کا دلدادہ رہا ہوں۔ زمانۂ طالب علمی میں مجھے ڈرائنگ سے دیوانگی کی حد تک لگائو تھا۔ انہی دنوں ہمارے اسکول میں ایک نئے مسلمان ڈرائنگ ماسٹر صاحب تبدیل ہو کر آئے۔ ڈرائنگ سے میری غیر معمولی دلچسپی کے پیش نظر ایک ٹیچر نے نئے ڈرائنگ ماسٹر صاحب سے میری سفارش کر دی کہ وہ مجھ پر خصوصی توجہ دیں۔ بعد میں اس ٹیچر نے مجھے بتا بھی دیا کہ میں نے ڈرائنگ ماسٹر صاحب سے تمہاری سفارش کر دی ہے اور انہوں نے خصوصی توجہ کا وعدہ کیا ہے اور تمہیں گھر پر ملنے کے لیے کہا ہے۔ چنانچہ اس ٹیچر کی ہدایت کے مطابق شام کو میں ان کے گھر جا پہنچا۔ وہ اس وقت کھانا کھا رہے تھے۔ اگرچہ میں پہلی بار ہی ان سے مل رہا تھا لیکن میری آواز سنتے ہی وہ فوراً باہر آئے اور بڑی شفقت و محبت سے میرا ہاتھ تھام کر اندر لے گئے۔ وہ تنہا ہی تھے۔ غالباً ان کی بیوی بچے کچھ دن بعد آنے والے تھے انہوں نے لوٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہاتھ دھو لیجیے اور کھانے میں شریک ہو جایئے۔ ’’جی…؟‘‘ مجھے حیرانی کا شدید جھٹکا لگا۔
’’کیوں بھئی؟‘‘ وہ مسکرائے۔ ’’جی… میں…میں دراصل ہندو ہوں۔‘‘ مجھے خیال ہوا کہ شاید وہ مجھے مسلمان سمجھ رہے ہیں۔
’’ہاں‘ ہاں مجھے معلوم ہے۔ سوریا نائیڈو تمہارا نام ہے۔‘‘
’’پھر میں آپ کے ساتھ بیٹھ کر کیسے کھا سکتا ہوں؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’کیوں نہیں کھا سکتے؟‘‘ انہوں نے بھی حیرت سے کہا ’’کیا میں انسان نہیں ہوں یا تم انسان نہیں ہو‘ ہندو یا مسلمان ہونے سے کیا ہوتا ہے‘ تمہیں بھی اسی خدا نے پیدا کیا ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور یہ غذا جسے کھانے کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں‘ یہ بھی انسانوں ہی کے کھانے کی ہے اور اس کا پیدا کرنے والا بھی وہی خدا ہے‘ جس نے تمہیں اور مجھے پیدا کیا ہے… آئو‘ آئو۔‘‘
’’کیا آپ کا مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایک غیر مذہب کے ماننے والے کسی شخص کو اپنے دستر خوان پر بٹھائیں؟‘‘
’’ہاں! ہاں! اجازت دیتا ہے‘ جبھی تو میں تمہیں کھانے کے لیے کہہ رہا ہوں‘ تم تو پھر بھی نائیڈو ہو اگرکوئی شودر بھی چاہے تو میرے ساتھ بیٹھ کر یہی کھانا کھا سکتا ہے اور پھر آخر کیوں نہ کھائے؟ بھئی دنیا کے تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں اور اس رشتے سے آپس میں بھائی بھائی ہیں اور پھر خدا کی نظر میں بھی حقیقتاً تمام انسان برابر ہیں۔ نہ کوئی بڑا نہ کوئی چھوٹا۔ ہاں اگر ان کے درمیان کوئی فرق ہے اور کوئی خداکو زیادہ پسند ہے اورکوئی ناپسند تو وہ محض اس بنا پر ہے کہ کون اللہ سے زیادہ ڈر کر دنیا میں اس کے احکام کے عین مطابق زندگی گزارنے والا ہے اورکون اس کا نافرمان ہے۔ ورنہ یہ ذات پات‘ اونچ نیچ‘ نسل و وطن اور رنگ و زبان کی بنیاد پر انسانوں نے اپنے درمیان جو تفریقیں پیدا کرلی ہیں‘ اس سے خدا کی ذات بری الذمہ ہے اور حقیقتاً وہ پاک ذات ان سطحی قسم کے جذبات سے بہت بلند اور پاک ہے۔‘‘
مساوات اور انسانی اخوت کے جو تصورات میرے ذہن میں تھے‘ وہ یہی تو تھے جو ماسٹر صاحب بتا رہے تھے۔ میں گہری سوچ میں غرق ہوگیا۔
’’بھئی تم کیا سوچنے لگے۔ آئو کھانا کھائو‘ ٹھنڈا ہوا جارہا ہے اور پھر ہمیں ابھی دوسرے کام بھی تو کرنے ہیں۔‘‘ انہوں نے مجھے ٹوکا تو میں اپنے خیالات کی دنیا سے نکل آیا اور یہ دیکھ کر مجھے بڑی شرمندگی ہوئی کہ وہ میرے انتظار میں ابھی تک ہاتھ روکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے جلدی سے لوٹا اٹھا کر ہاتھ دھویا اور دستر خوان پر بیٹھ گیا اور میں پھر ایک بار یہ دیکھ کر حیران سا ہو گیا کہ چاول کا برتن ایک ہی ہے۔
’’بھئی کب تک سوچتے رہو گے؟ کھانا لیتے کیوں نہیں؟‘‘ انہوں نے مجھے الجھن میں مبتلا دیکھ کر پھر ٹوکا۔
’’جی کچھ نہیں‘ کیا اسی برتن سے کھانا لوں؟‘‘
’’ہاں ہاں… پھر اور کس سے لو گے؟ چلو شرو کرو۔‘‘
اور میں نے کھانے کے برتن کی طرف ہاتھ بڑھا دیا اور خاموشی سے کھانے لگا۔ میرے دل و دماغ میں ایک عجیب سا ہنگامہ مچا ہوا تھا۔ ہمارے اپنے طرزِ معاشرت اور آدابِ نشست و برخواست سے یہ طریقے کس درجہ ممتاز اورفطری تھے۔ کوئی تکلف نہیں‘ کوئی اجنبیت نہیں‘ کوئی اونچ نیچ نہیں اور پھر ماسٹر صاحب کی شفقت و محبت نے بھی مجھ پر سحر سا کر دیا تھا۔ میں نے چور آنکھوں سے ان کے سراپا کا جائزہ لیا۔ نکلتا ہوا قد‘ ورزشی جسم‘ بلند و بالا پیشانی‘ کھڑا جسم‘ بھرپور سیاہ ڈاڑھی‘ کانوں تک زلفیں‘کپڑے کی دوپلی ٹوپی سر پر‘ آنکھوںمیں سادگی‘ شرافت اور معصومیت‘ پیوستہ لب‘ بیک نظر بڑے خاموش اور سنجیدہ معلوم ہوئے۔ لیکن بات کرتے تو مسکراہٹ کی چاندنی چہرے پر پھیل جاتی اور پھلجھڑیاں سی چھوٹنے لگتیں۔ اچانک انہوں نے نگاہیں اٹھا کر مجھے دیکھا تو جیسے میری چوری پکڑی گئی۔
وہ میری گھبراہٹ دیکھ کر مسکرائے۔ ’’بھئی تم کھاتے کیوں نہیں؟ کیا سوچ رہے ہو‘ تکلف بالکل نہ کرو اوراسے اپنا ہی گھر سمجھ کر اطمینان سے کھائو۔‘‘
’’ماسٹر صاحب!‘‘ بڑی دیر بعد میں نے زبان کھولی ’’انسانی مساوات وغیرہ سے متعلق ابھی جو باتیں آپ نے بتائی ہیں‘ یہ آپ کے شخصی خیالات ہیں یااسلام ہے ہی ایسا روادار اور فطری مذہب؟‘‘
’’میں نے تمہیں جو کچھ بتایا ہے وہ اسلام کے احکام اور اس کی تعلیمات ہی ہیں۔ میری کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہے۔ میں اوّل اور آخر مسلمان ہوں‘ گھر میں بھی اور گھر سے باہر بھی۔ اسلام میں دراصل اس قسم کی دو رنگی اور ڈبل ایکٹنگ کی کوئی گنجائش موجود نہیں کہ آدمی ایک موقع پر خدا کی اطاعت کا پابند ہو اور ایک موقع پر اپنی مرضی اور خواہشات کا تابع۔ اسلام غیر مشروط اطاعت اور لامحدود دائرۂ اقتدار چاہتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ معروف معنوں میں محض مذہب نہیں ہے بلکہ ایک دین ہے۔ ایک طریقۂ زندگی (Way of Life) ہے‘ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ آئندہ کے لیے بھی یہ ہدایت نوٹ کر لو کہ تم مجھے جو کچھ بھی کرتے یا کہتے ہوئے دیکھو گے ان شاء اللہ وہ سب اسلام کی ہدایات کے مطابق ہی ہوگا اور پھرمیری اپنی پسند یا ناپسند کا سوال ہی کیا ہے۔ میں کیا جانوں کہ کون سی بات اور کون سا طرزِ عمل میرے لیے صحیح ہے یا غلط ہے۔ یہ تو ہمارااور اس کائنات کا خالق و فرمانروا ہی جان سکتا ہے کہ میرے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ جس طرح ایک مشین کا بنانے والا ہی صحیح طور پر یہ بات جان سکتا ہے کہ… پرزے کیسے بنائے جائیں۔ کہاںفٹ کیے جائیںاور کس طرح اس مشین کو استعمال کیا جائے کہ وہ اپنے بنائے جانے کے مقصد کو پورا کرے۔ بالکل ایسا ہی معاملہ ہمارا اور خالقِ کائنات کا ہے۔ وہی ہمارا خالق بھی ہے‘ علیم و خبیر بھی۔ اس مصلحت سے واقف بھی جو ہمارے مقصد وجود کی اصل وجہ ہے۔ وہی یہ بات قطعی طور پر بتا سکتا ہے کہ ہمارے لیے مفید و مضر اور خیر و شر کیا ہے اور ظاہر ہے کہ انسان کے لیے صحیح ترین طرزِ عمل یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے خالق کی ہدایات اور احکام کے مطابق ہی اپنی زندگی گزارے ورنہ اسکا بھی وہی حشر ہوگا جو بندر کے ہاتھ میںاسترا دینے کی صورت میں ہو سکتا ہے اور فی الواقع جب اور جہاں بھی انسان نے ان حدود سے تجاوز کی کوشش کی جو خالق کائنات نے اس کے لیے مقرر فرمائے تھے تو تاریخ شاہد ہے کہ انسان کا وہی حشر ہوا جو استرا بدست بندر کا ہو سکتا ہے۔
’’لیکن سوال یہ ہے کہ خالقِ کائنات کی رہنمائی آخر کہاں سے ملے اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جس چیز کو خدائی رہنمائی کہہ کر پیش کیا جارہا ہے وہ فی الواقع خدائی رہنمائی ہے‘ کچھ خود غرض انسانوں یا طبقات کے حصولِ مفاد کا ذریعہ نہیں؟‘‘ میں نے ماسٹر صاحب کی بات کاٹ کر پوچھا۔ میرا متجسس ذہن بیدارہونے لگا تھا اور دیر سے اجنبی ماحول اور خود ماسٹر صاحب کی مسحور کن شخصیت کی وجہ سے میں اپنے دل و دماغ پر جو بوجھل پن محسوس کر رہا تھا‘ وہ اب چھٹ رہا تھا۔
’’یہ معلوم کرنا تو کچھ زیادہ مشکل نہیں‘ ذرا سے غور و فکر سے ہم ایک ایسی کسوٹی فراہم کر سکتے ہیںجس پر گھِس کر ہم کھرے اور کھوٹے میں فوراً تمیز کر سکتے ہیں۔‘‘ ماسٹر صاحب نے بھی فوراً ہی جواب دیا۔
’’ذرا براہِ کرم وضاحت فرما دیجیے۔‘‘ میں نے گزارش کی۔
’’بھئی ہم چاہیں تو اپنے ذہن میں چند سوالات متعین کر سکتے ہیں کہ:
-1 جس چیز کو خدائی رہنمائی کہہ کر پیش کیا جاتاہے کیا وہ انسانی فطرت و مزاج سے کوئی مناسبت بھی رکھتی ہے یا نہیں؟
-2 اس رہنمائی کا دائرہ کچھ مخصوص افراد یا کسی مخصوص قوم یا ملک کی حد تک ہی محدود ہے یا یہ کوئی ایسی آفاقی نوعیت کی رہنمائی ہے جونہ صرف یہ کہ انسانی زندگی کے تمام گوشوں اور شعبوں کو محیط ہے اور ان سے متعلق واضح اور دو ٹوک قسم کی رہنمائی کر سکتی ہے بلکہ اس کا دائرہ قوم و وطن‘ رنگ و نسل اور زبان و تہذیب کی امتیازات سے ماورا ہے کہ جو شخص چاہے اس کی اصولوں پر ایمان لا کر اور اسے اختیار کرکے فائدہ اٹھا لے۔
-3 دیکھنا چاہیے کہ اس رہنمائی کو اختیارکرنے کے نتیجے میں کس قسم کی افراد یا معاشرہ تیار ہوتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ کہ جس میں نیکیاں فروغ پا سکیں اور پروان چڑھ سکیں یا ایک ایسا معاشرہ جو انسانی زندگی کو فتنہ و فساد سے بھر دے۔
-4 پھر دیکھنا چاہیے کہ آیا یہ رہنمائی انسان کی صرف اُخروی نجات ہی سے بحث کرتی ہے یا انسانی زندگی کے عملی گوشوں پر بھی محیط ہے کہ اس کے اختیار کرنے کے نتیجے میں انسان کی دنیا سنورجائے یعنی وہ ایک مطمئن‘ خوش گوار اور پرسکون دنیوی زندگی بھی گزار سکے اور جب وہ اس دنیا کو چھور کر اپنے مالک حقیقی کے روبرو پہنچے تو اُخروی خسران اور گھاٹے سے دوچار نہ ہو اور اپنے رب کی رضا اسے حاصل ہو جائے۔
’’کسی مذہب کی حقانیت اور صداقت کو پرکھنے کے لیے آپ نے جو کسوٹی فراہم کی ہے کیا اس معیار پر خود اسلام پورا اترتاہے؟‘‘ میں نے صاف گوئی سے کام لیا۔ ’’اور اگر اسلام پورا اترتا ہے تو کیا اسلام کے علاوہ بھی کوئی مذہب ایسا ہے جو اسی معیار پر پورا اترتا ہو اور اگر ہے تو پھر اسلام پر ہی آپ قانع کیوں ہیں؟‘‘
’’عزیزم! تم نے بیک وقت کئی سوالات کر دیے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تمہارا ذہن متجسس ہے اور یہ اچھی بات ہے۔ تمہارے سوالات کے سلسلہ وارجوابات تو میں ابھی دوںگا گا لیکن پہلے تم یہ بتائو کہ میں نے جس کسوٹی کا ذکرکیا ہے کیا تم اس سے متفق ہو؟‘‘
’’بڑی حد تک‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’میں نے اس موضوع پر کافی غور و فکر کیا ہے اور خود میرا خیال بھی بالکل یہی ہے کہ مذہب کو ایسا ہی ہونا چاہیے جیسا کہ آپ نے فرمایا۔‘‘
’’ٹھیک ہے اب تم اپنے سوالات کے جوابات سنو۔‘‘
’’میری متذکرہ کسوٹی پر اسلام سو فیصد پورا اترتا ہے اور اسی لیے میں نے اسے شعور طور پر اختیار کیا ہے۔ میں محض اس لیے مسلمان نہیں ہوں کہ میرے ماں باپ مسلمان تھے بلکہ اس لیے مسلمان ہوںکہ میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد مختلف مذاہب کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد ہی اسلام کو بلاجبر و ا اکراہ شعوری آمادگی کے ساتھ اختیار کیا ہے۔‘‘ ماسٹر صاحب نے سنجیدگی سے بتایا۔ تمہارے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب ایسا نہیں ہے جو ان شرائط پر پورا اترتا ہو اور تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی ایسا قابل ترجیح مذہب موجود ہی نہیں تو پھر اسے اختیار کرنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔‘
اس دوران میں کھانا ختم کر چکا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ماسٹر صاحب میرے اٹھنے تک دستر خوان ہی پر بیٹھے رہے اور تھوڑا تھوڑا کرکے چکھنے کے انداز میں کھاتے بھی رہے تاکہ مجھے یہ احساس نہ ہو کہ دستر خوان پر میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ ماسٹر صاحب اس طرزِ عمل نے بھی مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔ کہاں تو ہمارے ہاں یہ طریقہ ہے کہ دور دور بیٹھ الگ الگ پترولیوں یا برتنوںمیں کھاتے ہیں اور کہاں یہ یگانگت اور بے تکلفی کہ ایک ہی برتن میںسے سبھی لے رہے ہیں۔ یہ بظاہر ایک معمولی بات تھی لیکن مجھ جیسے شخص کے لیے یہ بھی فکر و نظر کی جلا کا سبب بنی اور میں صفائی کے ساتھ اس بات کا اعتراف کر لوں کہ اسی دن میرے قلب میں اسلام کا بیج پڑ گیا۔ اب یہ اور بات ہے کہ اس کی مکمل نشوونما کے لیے مزید تین سال لگے۔
ماسٹر صاحب کے پاس سے لوٹ کر میں اپنے اندر ایک عجیب قسم کی حیات آفرین تبدیلی محسوس کرنے لگا تھا جیسے ایک مسلم کی حیثیت سے میرے وجود کی تشکیل شروع ہو گئی ہے۔ ماسٹر صاحب کی دی ہوئی کتابوں کو پڑھ کر میں گھنٹوں غوروفکر کیا کرتا۔ خوش قسمتی سے میری تعلیم اردو میڈیم ہی سے ہو رہی تھی اور اس کے نتیجے میں مجھے اسلامی لٹریچر کے مطالعے کی بڑی سہولت تھی۔ ماسٹر صاحب سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ جماعتِ اسلامی کے رکن ہیں۔
(جاری ہے)

حصہ