بھارت نے مغربی پاکستان کی غلطیوں کا فائدہ اٹھایا

632

ایم ایم عالم ہمارے بھی ہیرو تھے،پاکستانی قیادت کو ایک بھرپور بنگالی مسلم تاریخ کا آئیڈیا نہیں تھا ،بنگلادیش کے ممتاز مورخ ،محقق اور دانشور محمودالرحمٰن کا قومی ڈائجسٹ میں شائع ہونے والا خصوصی انٹریو
محمود الرحمن ڈھاکا کی ایک مڈل کلاس فیملی میں پیدا ہوئے، سیاسی معاملات سے دور رہتے ہوئے کیمیکل انجینئرنگ اور ایم بی اے کی ڈگریاں لیں، پرائیویٹ سیکٹر کو جوائن کیا اور مال بنانے میںجت گئے۔ لیکن قدرتِ حق کی کوئی اور مرضی تھی۔ سابق وزیراعظم بنگلہ دیش خالدہ ضیا بورڈ آف انوسٹمنٹ کے لیے کاروباری ذہن رکھنے والے، بے داغ ماضی کے حامل دیانت دار شخص کی تلاش میں تھیں۔ جن کی نظرِ انتخاب سے محمود الرحمن حکومت کا حصہ بن گئے۔ اس اثناء میں جب بھارت نے امریکا کی شہ پر بیگم خالدہ ضیا کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کروا کے شیخ حسینہ واجد کو کٹھ پتلی وزیراعظم کے طور پر منتخب کروا دیا تو محمودالرحمن نے یہ سب کچھ بہت قریب سے دیکھا اور ساری عمر سیاست سے دور رہنے والے اس بنگالی ٹیکنو کریٹ کے اندر کا انقلابی جاگ اٹھا۔ انہوں نے بورڈ آف انوسٹمنٹ سے فارغ ہونے کے بعد ایک مؤقر بنگالی اخبار روزنامہ ’’اماردیش‘‘ خریدا اور بطور ایڈیٹر اس میں بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں بھارت کی مداخلت کے خلاف لکھنا، اور ساتھ ساتھ بنگالی فوج اور عوامی لیگ کے بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنا شروع کردیا۔ اسی دور میں انہوں نے بنگالی زبان میں دس کتابیں تحریر کیں، جو اُن کے بیدار سیاسی ذہن کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔ جب ان کے اداریوں کی کاٹ سہنا مشکل ہوگیا تو شیخ حسینہ واجد نے انہیں جیل میں پھینک دیا، جہاں دو مختلف اوقات میں مجموعی طور پر لگ بھگ پانچ چھے برس قید رہے۔ مگر وہاں بھی ان کے اندر کا تاریخ دان، محقق اور دانشور سرگرم رہا۔ رہائی ملی تو حکومتی غنڈوں نے بھری عدالت میں ان پر حملہ کردیا، اب ان کے پاس خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
ماں دھرتی سے دوری کا غم سہتے محمود الرحمن پہلے ملائشیا اور بعد میں ترکی جا مقیم ہوئے۔ ملائشیا کی اسلامی یونیورسٹی نے انہیں ’’جنوبی ایشیا میں بھارت کا غاصبانہ تسلط اور چھوٹی ریاستوں کی سلامتی‘‘ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ لکھنے پر راضی کرلیا، جس پر کام کرتے کرتے وہ پاکستان آئے اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ میں لیکچر دیا جہاں محترم مجیب الرحمن شامی نے ان سے انٹرویو لینے کو کہا اور اگلے روز ہم قومی ڈائجسٹ کے لیے ان کی دانش بھری گفتگو ریکارڈ کرنے حاضر ہوئے۔
مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی کی کہانی ایک بنگالی کی زبانی نومبر کے مہینے میں سن کر دسمبر میں سقوط ڈھاکا کا سوگ منانا اپنی طرز کا انوکھا تجربہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بنگالیوں کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی کہ بھارت ان کے داخلی معاملات کو دِلّی سے کنٹرول کرے۔ یہ وہ چنگاری ہے جو بنگالی خون کو دہکائے ہوئے ہے اور پاکستانی اور بنگالی بھائیوں کے درمیان نقطۂ اشتراک بنتا جا رہا ہے۔ ذرا دیکھیے تو محمود الرحمن اور کیا کچھ کہتے ہیں۔
…٭…
سوال: اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتایئے۔
جواب: میری پیدائش جولائی 1953ء میں کومیلا میں ہوئی، جو پہلے سابق مشرقی پاکستان کا اور اب بنگلہ دیش کا ایک شہر ہے۔ میرے والد درمیانے درجے کے ایک کاروباری شخص تھے، ان کی آٹو پارٹس کی دکان تھی، جب کہ میری والدہ ایک کالج میں پروفیسر تھیں، اور اس اعتبار سے میں ایک استاد کا بیٹا بھی ہوں۔ والد کا انتقال 1992ء میں ہوگیا تھا، جب کہ والدہ 20 برس قبل ریٹائر ہوئیں اور الحمدللہ ابھی تک حیات ہیں اور بنگلہ دیش میں رہتی ہیں، جب کہ میں جلا وطنی میں اُن سے بہت دور رہنے پر مجبور ہوں۔
سوال: اُس وقت مشرقی پاکستان میں مڈل کلاس گھرانے کیسی زندگی بسر کرتے تھے؟
جواب: ہمارے پاس کھانے پینے کی فراوانی تھی لیکن ہم شاہانہ زندگی کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ اس کے باوجود کہ میرے والد ایک کاروباری شخص تھے، ہمارے گھر میں کوئی کار نہیں تھی، یہاں تک کہ ریفریجریٹر بھی نہیں تھا۔ والد جو کچھ کماتے تھے وہ ہماری روزمرہ ضروریات اور تعلیمی اخراجات پورے کرنے میں لگ جاتا تھا، البتہ ہمیں کسی سے ادھار لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ تاہم بنگالیوں میں ایک احساس رہتا تھا کہ مغربی پاکستان ان کے وسائل کا استحصال کررہا ہے، مشرقی پاکستان کی ترقی پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ یہ احساس میرے بچپن میں بہت عام تھا۔ عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمن کی جانب سے بھی کچھ ایسا ہی سیاسی پیغام دیا جاتا تھا۔ غلط یا صحیح، مگر بنگالیوں نے اس پیغام کو قریب قریب قبول کرلیا تھا، جب کہ مغربی پاکستان کی لیڈر شپ متبادل بیانیہ دینے اور مشرقی پاکستان کے لوگوں تک پہنچنے میں ناکام ہورہی تھی۔
سوال: آپ کے بچپن کا مشرقی پاکستان کیسا تھا؟
جواب: میں ایک پاکستانی کے طور پر پلا بڑھا تھا، البتہ ایک ایسے ماحول میں پرورش پارہا تھا جہاں بنگالی نیشنلزم کا رجحان زور پکڑتا جارہا تھا۔ یہ 1960ء کی دہائی کی بات ہے جب میں اسکول میں داخل ہوچکا تھا اور میٹرک 1969ء میں کیا، جس کے بعد میں ڈھاکا کالج میں داخل ہوا۔ 1971ء کی جنگ شروع ہوئی تو میں ڈھاکا کالج ہی میں تھا۔ وہ ہر کسی کے لیے مشکل ترین وقت تھا۔ ہم خوف زدہ تھے کہ خدا جانے کیا ہوگا! ہر طرف لڑائی ہورہی تھی، گولیوں کی تڑتڑ سے گلیاں گونجتی تھیں اور روزانہ کی بنیاد پر اموات ہوتی تھیں۔ میری زندگی کے تمام ادوار میں وہ انتہائی بے یقینی کا دور تھا۔
سوال: کیا آپ اُس وقت سیاسی طور پر ایک متحرک طالب علم تھے؟
جواب: بالکل نہیں، بلکہ میں ایک سخت محنت کرنے والا محض ایک طالب علم تھا جس کو اپنی پڑھائی سے غرض تھی اور اردگرد چلنے والی سیاسی ہوا سے کچھ لینا دینا نہ تھا۔ اس کے علاوہ اگر مجھے کوئی شوق تھا تو کرکٹ کھیلنے کا تھا۔ میں میڈیم پیس بولر تھا اور اسکول اور کالج میں تسلسل کے ساتھ کرکٹ کھیلی تھی۔
سوال: آپ کو اپنے پسندیدہ اساتذہ یاد ہیں؟
جواب: اسکول کے اساتذہ میں سے مجھے جناب عبدالرحمن کا نام یاد ہے۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کے استاد تھے اور ہمیں بنگالی ادب پڑھاتے تھے، جب کہ انگلش لٹریچر کے استاد جناب عبدالرئوف تھے۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر کا تعلق اقلیتی کمیونٹی سے تھا، اُن کا نام شدھی چندرا رائے تھا اور وہ عرفِ عام میں ایس سی رائے کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ طویل عرصے سے اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور بہت دل لگا کر پڑھایا کرتے تھے۔ حالانکہ اس بات کو بہت عرصہ ہوچکا ہے لیکن مجھے اسسٹنٹ ہیڈ ماسٹر کا نام بھی یاد ہے جو نذرالاسلام تھا۔ جہاں تک کالج کا تعلق ہے تو میرے پسندیدہ اساتذہ میں سے جن کا نام مجھے یاد ہے وہ ماشاء اللہ ابھی تک حیات ہیں۔ ان کا نام ابوسعید تھا اور وہ بنگالی ادب پڑھاتے تھے۔ دیگر اساتذہ میں جناب شوکت عثمان اور جناب ضیاء الدین شامل تھے۔ جناب ضیاء الدین شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا حصہ ہیں اور وزیراعظم کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ میری اُن سے ملاقات تب ہوئی تھی جب میں 2003ء میں اپنی اہلیہ اور والدہ کے ہمراہ حج پر تھا۔ جناب ضیاء الدین بیگم خالدہ ضیا کی حکومت میں کسی ملک میں سفیر کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔
سوال: کلاس فیلوز بھی یاد ہیں؟
جواب: جی ہاں! میرے کلاس فیلوز میں ایک صاحب اِس وقت ڈھاکا یونیورسٹی میں بہت مشہور شخصیت ہیں، ان کا نام ڈاکٹر صلاح الدین امین الزماں ہے۔ وہ پبلک ایڈمنسٹریشن کے پروفیسر ہیں۔ ایک اور اسکول فیلو اب ریٹائر ہوچکے ہیں، ان کا نام ڈاکٹر جعفر ہے۔ میرے ایک دو اور کلاس فیلوز پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام ڈاکٹر مسعود ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اپنے اسکول کے دوستوں میں سے میں واحد انجینئر ہوں، باقی سارے یونیورسٹی پروفیسر بنے یا ڈاکٹر بنے۔
سوال: آپ انجینئرنگ کی طرف کیسے گئے؟
جواب: میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے، اور یہ ایک مشکل سوال ہے۔ بچپن ہی سے میں مشینری، پروڈکشن اور انڈسٹری میں دلچسپی رکھتا تھا۔ مجھے یاد ہے، جب میں تیسری جماعت میں تھا تو لکھنے کے لیے ایک مضمون دیا گیا جس کا عنوان تھا ’’آپ مستقبل میں کیا بننا چاہیںگے؟‘‘ میں نے لکھا تھا کہ میں انجینئر بننا چاہتا ہوں۔
سوال: اس کا کیا سبب تھا؟
جواب: مجھے نہیں معلوم۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر دل چسپ بات یہ ہے کہ مجھ سے پہلے میرے خاندان میں بھی کوئی انجینئر نہیں تھا۔ لیکن میں ہمیشہ پروڈکشن اور انڈسٹری میں دلچسپی لیا کرتا تھا۔ میرا یہ شوق ہی مجھے اس میدان کی طرف کھینچ لایا۔ ہوسکتا ہے اس کی ایک وجہ میرے والد کی آٹوپارٹس کی دکان بھی ہو، جس کے سبب مجھے پرزوں اور مشینری کے بارے میں دل چسپی پیدا ہوگئی ہو۔ والدصاحب نے گریجویش کیا تھا اور اُن کا مضمون کامرس تھا۔ انہوں نے سائنس نہیں پڑھی تھی۔ میرے ایک ماموں اُن دنوں سی ایس پی افسر بنے تھے، لیکن جوانی ہی میں وفات پا گئے تھے۔ وہ ٹیکسیشن سروس میں تھے اور میری والدہ کے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ سیکرٹری بن کر ریٹائر ہوئے اور ان کی موت کینسر سے ہوئی تھی۔
سوال: بچپن کا کوئی اچھوتا واقعہ جسے اب تک نہ بھول پائے ہوں؟
جواب: مجھے 1964ء کے انتخابات یاد ہیں جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے فاطمہ جناح کے خلاف الیکشن لڑا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ لوگ سارا سارا دن انتخابات کے بارے میں بات کرتے رہتے تھے۔ گھروں میں، ڈرائنگ روم میں، ہوٹلوںمیں… غرضیکہ ہر جگہ پر انتخابات ہی موضوعِ بحث ہوتے تھے۔ تب بنگالیوںکی اکثریت فاطمہ جناح کی حمایت کررہی تھی جب کہ اپنے گھر میں واحد ایک میں تھا جو ایوب خان کا سپورٹر تھا جس پر میری فیملی کے لوگ خوش نہیں ہوتے تھے۔ جب مجھ سے پوچھا جاتا: تم کیوں کہتے ہو کہ ’’فیلڈ مارشل ایوب خان جیتیں گے‘‘ تو میرا جواب ہوتا تھا کہ ’’ایوب خان بہت خوب صورت انسان ہیں، وہ بہت لمبے چوڑے اور زبردست آدمی ہیں، چونکہ وہ مجھے اچھے لگتے ہیں اس لیے وہی جیتیں گے‘‘۔ اُس وقت میں چھٹی کلاس کا طالب علم تھا اور عمر گیارہ برس تھی۔ میرا ووٹ بھی نہیں تھا لیکن میری ایک رائے ضرور تھی جس کا میں کھل کر اظہار کرتا تھا۔ چنانچہ خاندان میں ہر کوئی مجھے چھیڑا کرتا تھا کہ دیکھ لینا تمہارا ایوب خان ہار جائے گا۔ چھیڑنے والوں میں والد، والدہ، حتیٰ کہ دادا بھی شامل ہوتے تھے۔ لیکن جب فیلڈ مارشل نے الیکشن جیت لیا تو میں نے اچھل اچھل کر گھر سر پر اٹھا لیا تھا، اور ہر ایک کو بتاتا پھرتا تھا کہ میری رائے ٹھیک اور ان کی غلط تھی۔
سوال: 1965ء کی پاک بھارت جنگ بھی آپ کو یاد ہے؟
جواب: جی ہاں! مجھے 1965ء کی پاک بھارت جنگ بھی اچھی طرح یاد ہے۔ میں نے بعد میں پڑھا کہ بنگال رجمنٹ نے بڑی بہادری سے لاہور سیکٹر میں لڑائی لڑی تھی۔ اسی طرح مجھے کچھ سیکٹروں کے نام ابھی تک یاد ہیں جن میں ایک چھمب سیکٹر تھا۔ ایم ایم عالم ہمارے لیے بھی ہیرو تھے، کیوں کہ وہ غضب کے پائلٹ تھے اور انہوں نے آنِ واحد میں پانچ سے زیادہ بھارتی جہاز مار گرائے تھے اور تاریخ رقم کی تھی۔ اسی طرح مجھے ایک نوجوان بنگالی کیپٹن بھی یاد ہیں جن کا نام کیپٹن ضیا تھا۔ ان کا تعلق بنگال رجمنٹ سے تھا اور وہ بھی 1965ء کی جنگ میں لاہور ہی میں لڑے تھے۔ یہی کیپٹن ضیا بعد میں بنگلہ دیش کے صدر بنے تھے، جب تک وہ جنرل بن چکے تھے۔ البتہ 1965ء میں مشرقی پاکستان کے محاذ پر کوئی جنگ نہیں ہوئی تھی۔ مگر ہم سب لاہور پر ہونے والے حملے کا سن کر بہت پریشان تھے اور پورے خاندان کو فکر رہتی تھی اس کے باوجود کہ تب تک یہ تاثر عام ہوچکا تھا کہ پاکستانی حکمران بنگالیوں کی پروا نہیں کرتے۔ انہوں نے فوج کا کوئی ڈویژن مشرقی پاکستان کی حفاظت کے لیے تعینات نہیں کیا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ تب ایسی بات کہیں نہ کہیں سے آجاتی تھی کہ حکمرانوں کو ہماری کوئی فکر نہیںہے۔ تب میں ساتویں کلاس میں تھا اور عمر لگ بھگ بارہ برس تھی۔
سوال: بنگالیوں میں اس سوچ کا کیا نتیجہ نکلا؟
جواب: اسی سوچ کا نتیجہ تھا کہ شیخ مجیب بنگالیوں کے قومی ہیرو کے طور پر ابھر کر سامنے آگئے۔ مجھے یاد ہے جب 1969ء میں شیخ مجیب نے صدر ایوب خان کے خلاف مشرقی پاکستان، اور ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ اگرچہ میں کبھی طلبہ سیاست کا حصہ نہیں رہا، مگر اس کے باوجود مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہیں۔ میں لوگوں کی آنکھوں میں بنگالی قوم پرستی کے دیے جلتے دیکھ سکتا تھا۔ ہر طرف بنگالیوں کے حقوق کی بات ہورہی ہوتی تھی۔
سوال: بنگالی قوم پرستی سے کیا مراد ہے؟
جواب: بنگالی قوم پرستی کی بنیاد تو لسانی حقوق کی تحریک سے پڑی تھی جب بنگالیوں نے مطالبہ کیا کہ بنگالی کو پاکستان کی قومی زبان ہونا چاہیے کیوں کہ نوزائیدہ پاکستان میں ان کی اکثریت ہے۔ 1971ء سے پہلے بنگالی متحدہ پاکستان کی کُل آبادی کا 52۔53 فیصد تھے۔ بنگالی قوم پرستی کی بنیاد تو میری پیدائش سے ایک سال قبل رکھ دی گئی تھی جب 21 فروری 1952ء کو پولیس نے گولیاں چلا کر اس مطالبے کے لیے نکلنے والوں کو ہلاک کیا تھا۔ میں نے وہ دن دیکھے تو نہیں ہیں مگرکتابوں میں اس کے بارے میں ضرور پڑھا ہے۔ یہی تحریک بعد میں علیحدگی کی تحریک کی شکل اختیارکر گئی تھی۔ کہا جانے لگا کہ بنگالیوں کی ایک علیحدہ شناخت ہے، اس لیے خودمختاری چاہیے۔ جو آگے بڑھ کر ’’اور آزادی چاہیے‘‘ میں تبدیل ہوگئی۔ یہاں میں ایک دل چسپ نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ مشرقی پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بھارتی بنگال میں بھی بنگالیوں کی اکثریت تھی۔ آج بھی بنگلہ دیش میں 90 فیصد کے قریب مسلمان ہیں، جب کہ مغربی بنگال (یعنی بھارت) میں تقریباً 70 فیصد بنگالی ہندو ہیں، اور صرف 30 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کے بنگالی مسلمان تو لسانی حقوق کے لیے پاکستان کی مرکزی قیادت سے لڑ رہے تھے، لیکن بھارتی بنگال میں مقیم ہندو بنگالی ایسا کوئی مطالبہ بھارتی لیڈرشپ سے نہیں کررہے تھے۔ انہوں نے ہندی کو قومی زبان کے طور پر تسلیم کرلیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندو بنگالیوں کے لیے بھارت ہی ان کا وطن ہے۔ چنانچہ برصغیر کی تقسیم کی تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ 1947ء میں جب بنگال کی تقسیم ہوئی تو اس تقسیم کا مطالبہ بنگالی ہندوئوں نے کیا تھا، کیوں کہ وہ اقلیت میں تھے۔ اگر آپ پاکستان کے لفظ پر غور کریں تو اس میں بنگال کی ’ب‘ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس میں پنجاب، افغانیہ، کشمیر، بلوچستان اور سندھ کا ذکر تو ہے مگر بنگال کا ذکر نہیں ہے، کیوں کہ پاکستان کے ابتدائی تصور میں بنگال کو اس کا حصہ تصور نہیں کیا گیا تھا۔ علامہ اقبال نے دو قومی نظریہ عام کیا اور چودھری رحمت علی نے لفظ پاکستان تجویز کیا۔ معلوم نہیں اُن کے تصورِ پاکستان میں بنگال تھا بھی یا نہیں؟
سوال: لیکن اُس وقت کی جو بنگالی لیڈرشپ قائداعظم کے ساتھ کام کررہی تھی، کیا انہوں نے بھی یہ نکتہ نہیں اٹھایا ہوگا جو آپ اٹھا رہے ہیں؟
جواب: اے کے فضل الحق نے تو قراردادِ لاہور پیش کی تھی جو ایک بنگالی تھے۔ اُس وقت وہ بنگال کے وزیراعظم تھے۔ بنگالی لیڈرشپ مسلم وطن کے خلاف نہیں تھی، وہ اس کے حق میں تھی، مگر 1940ء تک پاکستان کا لفظ عام نہیں ہوا تھا۔ قراردادِ لاہور میں لفظ پاکستان درج نہیں ہے، وہاں پر ریاستوں کا ذکر ہے، اور کہا گیا ہے کہ جہاں بھی مسلمان اکثریت میں ہوں گے، وہ خطے علیحدہ وطن تشکیل دیں گے۔ پھر اپریل 1946ء میں مسلم لیگ کے دہلی اجلاس میں وزیراعظم بنگال حسین شہید سہروردی نے ایک متحدہ پاکستان کی قرارداد پیش کی جو منظور کرلی گئی۔ جب 1947ء آیا تو بنگالی لیڈرشپ بنگال کو متحد رکھ کر ایک علیحدہ مسلمان وطن بنانے کی خواہاں تھی جس کا پاکستان سے کنفیڈریشن کے اصول پر تعلق قائم ہو۔ اسی طرح حسین شہید سہروردی مشرقی اور مغربی بنگال کو ایک مسلم اکثریتی وطن کے طور پر متحد رکھنا چاہتے تھے، کیوں کہ 1947ء میں اگر دونوں کو یکجا کیا جاتا تو مسلمانوں کی آبادی 56 فیصد ہوجاتی، جب کہ ہندوئوں کی آبادی 44 فیصد بنتی تھی۔ چنانچہ سہروردی یہ تجویز لے کر محمد علی جناح کے پاس گئے تو انہوں نے اس تجویز کو مسترد نہیں کیا اور کہا کہ ٹھیک ہے لیکن دیکھ لیں کہ کیا آپ بنگال کو متحد رکھ سکیں گے؟ تاہم جب یہ تجویز انڈین کانگریس میں گئی تو انہوں نے اسے مسترد کردیا اور کہا کہ ہندو کسی بھی طور مسلمانوں کے تابع نہیں رہ سکتے، ہم بنگال کی بھی تقسیم چاہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں بنگال کی تقسیم مسلم لیگ کا مطالبہ نہیں تھا بلکہ یہ بھارتی کانگریس پارٹی کا مطالبہ تھا۔ یہ بنگالی ہندو تھے جنہوں نے بنگال کو تقسیم کیا، کیوں کہ انہوں نے سوچا ہوگا کہ متحدہ بنگال میں بنگالی مسلمان ان پر حاوی رہیں گے۔ یہ ان کا سیاسی فیصلہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ بنگالی ہندوئوں نے بھارت میں بنگالی زبان کے لیے کوئی تحریک نہیں چلائی کیوں کہ وہ بھارت کو اپنا وطن قرار دیتے تھے اور ہندی کو مادری زبان مانتے تھے۔ مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ جب مشرقی پاکستان میں بنگالیوں نے لسانی تحریک کا آغاز کیا تو ہندوئوں نے اس کی بھرپور حمایت کی۔ بھارتی بنگالیوں کی وہ ایک سیاسی چال تھی جس کا مقصد پاکستان کو توڑنا تھا۔
سوال: تو کیا مشرقی پاکستان کے بنگالی علیحدہ نہیں ہونا چاہتے تھے؟
جواب: ابتدا میں وہ شاید ایسا نہیں چاہتے تھے، وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ بنگالی کو قومی زبان تسلیم کیا جائے، لیکن مغربی پاکستان کی قیادت نے مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں بھانپا اور اس مطالبے کو نظرانداز کردیا۔ مزید یہ کہ ان دنوں پاکستانی قیادت کو ایک بھرپور بنگالی مسلم تاریخ کا آئیڈیا نہیں تھا۔ مثال کے طور پر پاکستان کے وزیراعظم فیروز خان نون نے بیان دیا تھا کہ بنگالی اچھے مسلمان نہیں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ فیروز خان نون مشرقی بنگال کے اسلامی ورثے سے آگاہ نہیں تھے۔ بنگال 1204ء سے مسلم حکمرانی میں تھا جب وہاں مسلم سلطنت کا قیام عمل میں آیا تھا۔ چنانچہ ہمارا اسلامی کلچر اتنا ہی توانا ہے جتنا مغربی پاکستان کا ہے۔ لیکن یہاں کی قیادت نے اپنی لاعلمی میں سمجھا کہ ہم کمتر مسلمان ہیں۔ آج بھی بنگالی بہت اچھے مسلمان ہیں، بہت پاک باز ہیں اور پوری سنجیدگی سے اسلامی شعائر کی بجا آوری کرتے ہیں۔ خیر، بھارت نے بنگالی قوم پرستی کے ارتقاء اور مغربی پاکستان کی قیادت کی غلطیوں کا فائدہ اٹھایا جو بالآخر 1971ء کی جنگ کا موجب بنا۔
سوال: آپ کو اس بات کا اندازہ کب ہوا کہ بنگالی ایک علیحدہ وطن کے لیے تل گئے ہیں؟
جواب: مجھے 1970ء کے انتخابات میں اس بات کا احساس ہوا جب تمام بنگالیوں نے شیخ مجیب کے لیے ووٹ کیا۔ تب اس بات کا پہلی بار امکان پیدا ہوا کہ مشرقی پاکستان کے لوگ علیحدگی کے لیے پر تول رہے ہیں۔ تب تک کم و بیش یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ پاکستان موجودہ حالت میں قائم نہیں رہے گا۔ ہو سکتا ہے 1970ء تک یہ بات صرف احساس کی حد تک موجود ہو کہ بنگالی علیحدگی چاہتے ہیں لیکن 25 مارچ 1971ء کی رات آرمی کے کریک ڈائون کے بعد متحدہ پاکستان کا تصور ختم ہو گیا تھا اس کے بعد دونوں طرف کے لیے اکٹھے رہنا مشکل ہو گیا تھا۔
پاکستانی لیڈر شپ کی ناکامی کی ایک ا ور مثال سن لیجیے۔ انہوں نے 20 مارچ کو شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر لیاتھا، ڈھاکا یونیورسٹی پر کریک ڈائون کیا، بنگالی پولیس کو مارا اور ایک مخصوص تعداد میں میرے پاس بہت سی پیشکشیں تھیں، چنانچہ ایک گیس کمپنی تھی، اس کا نام ’’تیتاس گیس کمپنی‘‘ تھا۔ تیتاس بنگلہ دیش میں سب سے بڑا گیس کے ذخائر کا علاقہ ہے۔ وہاں ڈیڑھ برس تک کام کیا اور پرائیویٹ سیکٹر میں ایک برطانوی کمپنی کو جوائن کر لیا جس کا سبب اس کی طرف سے آفر ہونے والی بھاری تنخواہ تھی۔ اس کمپنی کا نام برٹش آکسیجن تھا۔ یہاں پاکستان میں وہ پاکستان آکسیجن کے نام سے کام کرتے تھے۔ میں نے وہاں انجینئر کے طور پر کام کیا۔اس دوران 1983ء میں ایم بی اے کیا۔ وہ شام کی کلاسیں تھیں۔ اسی اثناء میں 1985ء میں میری شادی ہو گئی۔ تب تک میں کمپنی میں ایک سینئر افسر بن چکا تھا اور مجھے انتہائی معقول تنخواہ ملنے لگی تھی۔ اس کے بعد 1986ء میں اسکالر شپ پر سرامک انجینئرنگ پڑھنے کے لیے جاپان چلا گیا۔ ایک سال میں کورس مکمل ککے واپس آگیا اور اس کے بعد میں بنگلہ دیش میں سرامک پراڈکٹس کے ایکسپرٹ کے طور پر جانا جانے لگا۔ بلکہ یوںکہیے کہ بنگلہ دیش میں سرامک کے شعبے میں لگنے والی اکثر فیکٹریاں میرے ہاتھوں سے لگی ہیں۔ میں نے بطور ایک ایکسپرٹ کے ان کے لگنے میں کردار ادا کیا۔ اس کے بعد میں نے 1989ء میں اپنا ایم بی اے بھی مکمل کر لیا جو میری باقاعدہ تعلیم کا اختتام تھا۔
سوال: بنگلہ دیش بن جانے کے بعد اس کی ترقی، معاشی نمو اور دیگر عوامی سہولیات میں کیا فرق پڑا؟
جواب: بنگلہ دیش بن جانے کے بعد کا ابتدائی زمانہ انتہائی کٹھن تھا کیوں کہ شیخ مجیب الرحمن ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر نہ تھے۔ 1974ء میں بنگلہ دیش میں قحط پڑا تھا جس میں ایک لاکھ سے زائد لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ممکن ہے کہ تعداد اس سے بھی بڑھ کر ہو اور ڈیڑھ لاکھ کی قریب لوگ اس کا شکار ہوئے۔ وہ صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ عام لوگ شیخ مجیب سے بے حد ناخوش تھے اور یہ ناخوشی بالآخر 15 اگست 1975ء کو فوجی بغاوت میں انہیں گولی لگنے سے ان کی ہلاکت پر منتج ہوئی۔ دو بیٹیوں کے سوا انہیں ان کی فیملی سمیت مار دیا گیا تھا۔ ان کی بڑی بیٹی شیخ حسینہ واجد اس وقت بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہیںاور سیاہ و سفید کی مالک ہیں۔ لیکن شیخ مجیب کے دو بیٹے اور بیوی ان کے ساتھ ہی مارے گئے تھے۔ شیخ مجیب کی حکومت کو مکمل طور پر ناکامی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس دوران کوئی ترقیاتی کام نہ ہوئے، شیخ مجیب سوائے آزادی لے کر دینے کے کچھ اور کرنے کے اہل نہ تھے۔ وہ کوئی اعلیٰ پائے کے جمہوری شخص بھی نہ تھے۔ وہ ایک آمر کے طور پر رویہ اختیار کر گئے تھے اور انہوں نے بنگلہ دیش میں تمام سیاسی جماعتوںپر پابندی لگا دی، سارے اخبارات بند کردیے اور مکمل مطلق العانیت کے ساتھ حکمرانی کرنے لگے، چنانچہ جلد ہی غیر مقبول ہو گئے تھے۔
سوال: ایسا کیوں ہوا؟ آپ کا تجزیہ؟
جواب: اس وقت جیو پالیٹکس مختلف تھی۔ اگر ہم 1972-73ء میں واپس جائیں اور دیکھیں کہ اس وقت کون شیخ مجیب کو سپورٹ کر رہا تھا تو پتا چلتا ہے کہ سوائے انڈیا اور سوویت بلاک کے کوئی اور اسے سپورٹ نہیں کر رہا تھا کیوں کہ 1971ء کی جنگ سے قبل بھارت اور سوویت یونین کے مابین باہمی تعاون کا ایک 25 سالہ معاہدہ ہوا۔ 1971ء کی جنگ پاکستانی فوج مشرقی پاکستان کی طرح مغربی پاکستان میں بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔ وہ اس طرح کہ مغربی پاکستان سے بھارت پر دبائو نہ ڈال سکی۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے۔
میں دوبارہ جیو پالیٹکس کی طرف آتا ہوں۔ اس وقت امریکا شیخ مجیب کے مخالف تھا، چین مخالف تھا اور اس نے شیخ مجیب الرحمن کی وفات تک بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا تھا حالانکہ امریکا نے تسلیم کر لیا تھا۔ دوسری جانب مڈل ایسٹ کے تمام مسلم ممالک میں سے کسی ایک نے بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ سعودی عرب نے بھی بنگلہ دیش کو تسلیم ہیں کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ آزادی کے بعد ڈاکٹرکمال حسین بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ بنے تھے۔ ایک اور سینئر لیڈر جسٹس ابو سعید چودھری تھے ،وہ دونوں سعودی عرب گئے اور شاہ فیصل سے درخواست کی کہ وہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیں۔ لیکن شاہ فیصل نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ چنانچہ جیو پالیٹکس بنگلہ دیش کے خلاف تھی۔ اس لیے شیخ مجیب کے لیے ممکن نہ تھا کہ بنگلہ دیش کی ترقی کویقینی بنا سکتا۔ لوگ سرعام کہا کرتے تھے کہ ہم نے آزادی تو لے لی لیکن ہمارا معیار زندگی پہلے سے بھی ابتر ہو گیا ہے۔ چنانچہ ان کا بڑھتا ہوا عدم اطمینان قابل فہم تھا۔ اس لیے شیخ مجیب نے سوچا کہ اگر وہ آمرانہ رویہ اختیار کر لے اور رائے عامہ کے ذرائع کو بند کر دے تو عوام کے بھڑکے ہوئے جذبات پر قابو پا لے گا لیکن ان کی یہ سوچ ان کی موت پر منتج ہوئی جب بغاوت ہوئی اور وہ بنگلہ دیشی فوج کے ایک گروپ کے ہاتھوں مارے گئے، جنہوں نے شیخ مجیب کو مارا وہ سارے کے سارے فریڈم فائٹرز تھے جن میں کرنل رشید اور کرنل فاروق شامل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شیخ مجیب بنگلہ دیش نہیں چلا سکتے۔
سوال: شیخ مجیب کے بعد کا بنگلہ دیش کیسا تھا؟
جواب: شیخ مجیب کی گولی سے ہلاکت کے بعد پہلے مشتاق احمد خوندکر اور پھر جنرل ضیا الرحمن بنگلہ دیش کے صدر بن گئے انہوں نے ملک کی ترقی کا کام شروع کیا۔ جب وہ بنگلہ دیش کے صدر بنے تو ہر کسی نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا جن میں چین اور پورا مڈل ایسٹ شامل تھا۔ جنرل ضیا الرحمن نے آئین کو تبدیل کیا کیوں کہ شیخ مجیب کا آئین کہتا تھا کہ بنگلہ دیش ایک سیکولر ملک ہے۔ جنرل ضیا نے آئین کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کیا۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ جنرل ضیا نے کہا کہ بنگلہ دیش ایک مسلم ملک ہے اس لیے ہمیں آئین کی ابتدا اللہ تعالیٰ کے پاک نام سے کرنی چاہیے۔ اس کے بعد ملک میں ترقیاتی فنڈ آنا شروع ہوگئے اور بنگلہ دیش کی ترقی کا آغاز ہو گیا۔ میں نے اپنی انجینئرنگ بھی اسی زمانے میں مکمل کی تھی۔
سوال: ایم بی اے کرنے کے بعد کیا کیا؟
جواب: ایک بی اے کرنے کے بعد بھی میں مختلف ملٹی نیسنل کمپنیوں میں کام کرتا رہا۔ 1990ء میں 37 برس کا تھا جب چائے کی ایک بنگلہ دیشی کمپنی ڈنکن بردارز میں منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر تین سال تک تعینات رہا اس کے بعد ایک بڑی کمپنی کا سی ای او بن گیا۔ لوگ مجھے بطورسی ای او جاننے لگے۔ تاہم میں کبھی سیاست میں نہیںآیا۔ میں نے کبھی کوئی سیاسی جماعت جوائن نہیںکی، حتیٰ کہ آج تک ایسا نہیں کیا۔
سوال: اس دوران کتب بینی کا شوق بھی جاری رہا یا پھر پیسہ بنانے میں لگے رہے؟
جواب: میں ملازمتوں کے دوران بھی کثرت سے کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا ہوں۔ والدہ کی وجہ سے مجھے لٹریچر پڑھنے کا شوق ہوا جہاں تک سیاسی اور تاریخی مطالعے کا تعلق ہے تو وہ میری ذاتی دل چسپی کا شاخسانہ ہے۔ میں نے بھارتی تاریخ کے مطالعے سے شروع کیا، پھر اسلامی تاریخ پڑھی۔ میں تب بھی بہت پڑھتا تھا اور اب بھی بے حد مطالعہ کرتا ہوں۔ مجھے پڑھنے سے شغف ہے۔ مجھے جو کتاب ملتی ہے، پڑھ کر چھوڑتا ہوں۔ مطالعہ میرا واحد مشغلہ ہے۔ آج بھی یہی عالم ہے۔ میں پڑھتا ہوں یا ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھتا ہوں۔
سوال: آپ نے کرکٹ کھیلی بھی یا محض ٹی وی پر دیکھ کر ہی شوق پورا کیا؟
جواب: میں 48 سال کی عمر تک کرکٹ کھیلی۔ میں ایک میڈیم پیس سوئنگ بائولر تھا۔ البتہ کبھی قومی ٹیم میں کھیلنے کا خیال نہیں آیا کیوںکہ میں اپنا کیریئر بنانے میں زیادہ مصروف رہا۔کرکٹ اور مطالعے کو میں نے تفریح کے طور پر لیا۔ بنگلہ دیش میں کرکٹ کھیلنے کی اچھی سہولیات دستیاب ہیں۔
سوال: پاکستان میں دیہی اور شہری زندگی میں بہت فرق ہے، بنگلہ دیش کی کیا صورت حال ہے؟
جواب: بنگلہ دیش میں بھی صورت حال مختلف ہے۔ آج پاکستان ایک جاگیردارانہ معاشرت کا قیدی ہے جب کہ بنگلہ دیش میں کبھی جاگیردارانہ نظام نہیں رہا۔ اس کے برعکس اسے کھیتی باڑی والی سوسائٹی کہا جا سکتا ہے۔ بنگلہ دیش میں لینڈ ریفارمز 1940ء میں ہوگئی تھیں، جب اے کے فضل الحق متحدہ بنگال کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے زمین داری سسٹم ختم کرکے لینڈ ریفارمز کا آغاز کیا۔ اگرچہ شہری زندگی میں زیادہ سہولیات ہوتی ہیں، سڑکیں ہوتی ہیں، سنیما ہال ہوتے ہیں، زیادہ اسکول اوراسپتال ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے لیکن جہاں تک معیارَ زندگی کا تعلق ہے، اس میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ وہاں سائیکل رکشا اب بھی چلتا ہے۔
سوال: آپ نے زندگی میں پہلی گاڑی کب خریدی؟
جواب: میں نے پہلی کار 1983ء میں خریدی تھی جب میں ایک کمپنی میں پروموٹ ہوا تھا۔ا گرچہ میرے والد کاروبار کرتے تھے، مگر اتنے بڑے کاروباری نہیں تھے کہ گاڑیوں کی ریل پیل ہوتی۔ ہماے پاس کبھی فیملی کار نہیں رہی۔ انہوں نے میری گاڑی ہی میں سفر کیا تاہم ان کا انتقال جلدی ہو گیا تھا۔ ان کا گائوں میں ایک بڑا گھر تھا۔
سوال: کیا آپ کے والدین کے ہاں متحدہ پاکستان کے دو لخت ہونے کا کوئی قلق تھا؟
جواب: نہیں، بالکل نہیں۔ انہیں کوئی ایسا دکھ نہیں تھا اور خوش تھے۔ تاہم انہوں نے کبھی پاکستان کو دشمن ملک کے طور پر نہیں دیکھا اور بطور ایک مسلمان ان کے یے پاکستان کے لیے ہمیشہ نیک جذبات رہے۔ عام بنگالیوں کا بھی یہی عالم ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بنگالیوں کو 1971ء میں بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تھا، بہت سے لوگ مارے گئے تھے۔ اگر وہاں کوئی قلق ہے تو وہ بھارت کے کردار پر ہے کہ پاکستان سے علیحدہ ہونے کے بعد بھارت ہماری زندگیاں کنٹرول کر رہا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے بنگالیوں کوا س کا دکھ ضرور ہے کیوں کہ بنگلہ دیش میں 90 فیصد آبادی مسلمان ہے، وہ پاکستانیوں سے کہیں بڑھ کر اینٹی انڈیا ہیں کیوں کہ کچھ بھی ہو آخر ہم مسلمان ہیں اور انڈین ہندو ہیں اور ہمارے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی عقیدے کی لڑائی جاری ہے۔ میں نے اسی نام سے یعنی UnfinishedBattle of Faith کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔
یہ درست ہے کہ ہم نے بھارت سے مدد لی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس نے بنگال کی کوئی خدمت کی ہے بلکہ بھارت بھی متحدہ پاکستان کو توڑنا چاہتا تھا چنانچہ اس نے صورت حال کا فائدہ اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک عام بنگالی سوچتا ہے کہ ہم اس لیے پاکستان سے جدا نہیں ہوئے تھے کہ ہمارے معاملات کو دلی سے کنٹرول کیا جائے۔ ہم مکمل آزادی کے خواحاںہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ تیس برسوں میں بنگلہ دیش نے بہت زیادہ معاشی ترقی کی ہے جس کا آغاز 1990ء سے ہوا۔ تیس برسوں میں بنگلہ دیش معاشی طور پر کامیابی کی ایک اسٹوری بیان کرتا ہے۔ اس وقت ہماری ایکسپورٹ 40 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر ہم نے گارمنٹس میںبہت کامیابی حاصل کی ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر سرامک انڈسٹری میں کامیاب رہے ہیں۔ ہم سرامک پراڈکٹس کے بھی بہت بڑے ایکسپورٹرز ہیں، ہم Bone China پراڈکٹ کے ماہر ہیں جس کی دنیا میں بہت مانگ ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں چمڑے کی صنعت بھی بہت اعلیٰ ہے۔ ہم نٹ ویئر کے بھی بڑے مینو فیکچرر ہیں۔ ہمارے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 45 ارب ڈالر سے زائد ہیں اور ہمارا کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ اس کی اکانومی ہے جس کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ کو ہر بار آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس جانا ہوتا ہے۔
سوال: 2000ء کے بعد آپ کی زندگی میں ایک بڑا موڑ آیا اور آج آپ ایک مصلح اور اسکالر کے طور پر جانے جاتے ہیں، یہ کیسے ہوا؟
جواب: 2001ء میں بیگم خالدہ ضیا بنگلہ دیش کی وزیراعظم بنیں۔ وہ بنگلہ دیش اکانومی کو بہتر بنانے میں بہت سنجیدہ تھیں۔ بنگلہ دیش میں بزنس کی صورت حال کو بہتر بنانا چاہتی تھیں اور حکومت کی جانب سے اچھی سہولیات یقینی بناکر تمام رکاوٹیں ختم کرنا چاہتی تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کاروباری افراد بنگلہ دیش کی جانب متوجہ ہوں۔ یہ ان کا ٹارگٹ تھا۔ بنگلہ دیش میں بھی ایک بورڈ آف انوسٹمنٹ ہے۔ میری جوائننگ سے قبل حکومت کے تمام امور بیوروکریٹ چلاتے تھے اور وہی اس بورڈ کو چلاتے تھے۔ کسی نے بیگم خالدہ ضیا سے کہا کہ آپ کو پرائیویٹ سیکٹر سے کسی شخص کو اس عہدے پر لانا چاہیے، جسے علم ہو کہ انڈسٹری کسے کہتے ہیں اور مینو فیکچرنگ کیسے ہوتی ہے کیوں کہ بیورو کریٹ سوائے رولز اینڈ ریگولیشنز کے اور کچھ نہیں جانتے لیکن انڈسٹری چلانا پرائیویٹ سیکٹرکے لوگوں کا کام ہے اس لیے کسی قدر جوان، ایمان دار اور اچھی شہرت کے بزنس مین کو لے کر آئیں جو بنگلہ دیش میں صنعتی ترقی کی رفتار بڑھا سکے۔
مجھے نہیں معلوم کہ میرا نام کس نے لیا ہوگا، لیکن مجھے ایک دن وزیراعظم آفس سے فون موصول ہوا کہ وزیراعظم خالدہ ضیا آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ بتایا گیا کہ وہ اسی شام پانچ بجے اپنے آفس میں آپ کا انتظار کریں گی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں نے کیا غلط کام کیا ہے کہ مجھے وزیراعظم بنگلہ دیش نے طلب کر لیا ہے۔ میں بہت حیران تھا۔ خیر میں تیار ہوا اور شام کو پہنچ گیا۔ وہ بڑی شفقت سے ملیں، چائے پیش کی اور پھر کہنے لگیں محمود کیا آپ بورڈ آف انوسٹمنٹ کے بارے میں جانتے ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا کیوں کہ ہر طرح کی منظوری وہیں سے ملتی ہے۔ وہ کہنے لگیں کہ میں چاہتی ہوں کہ آپ بورڈ کو بطور ایگزیکٹیو چیئر مین کے جوائن کر لیں؟ میں نے کہا کہ مجھے گورنمنٹ سروس کاکوئی تجربہ نہیں ہے۔ وہ کہنے لگیں کہ چونکہ آپ ایک اچھے سی ای او ہیں اس لیے آپ اگر بورڈ کے چیئرمین لگ جائیں تو ہماری معیشت ترقی کر سکتی ہے۔ میں نے او کے کر دیا۔ تاہم میں نے کہا کہ میں پرائیویٹ سیکٹر میں بہت بھاری تنخواہ لے رہا ہوں جس کے مقابلے میں بورڈ کے چیئرمین کی تنخواہ ایک بٹا دس کے برابر ہوگی۔ انہوں نے بہت دل چسپ جواب دیا۔ کہنے لگیں آپ کو پتا ہے کہ صدر ضیا کہا کرتے تھے کہ ملک میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو بغیر کسی فائدے کے ملک کی خدمت کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ آپ کا کام صرف انکو تلاش کرنا ہوتا ہے۔ مجھے کسی نے بتایا ہے کہ آپ ہی ایسے شخص ہو سکتے ہیں جو بغیر کسی مفاد کے ملک کے لیے کام کرنے کو تیار ہوسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میرے خاندان کے اخراجات کیسے پورے ہوںگے؟ کہنے لگیں کہ آپ کے خاندان میںسوائے آپ کی والدہ ا ور بیگم کے اور کون ہے؟ تین لوگوں کا کتنا خرچا ہوتا ہوگا۔ آپ کا اپنا ایک گھر بھی ہے، اس لیے آپ سے بڑھ کر اور کوئی بھی ملک کی خدمت کے لیے موزوں شخص نہیں ہوگا۔ میں خاموش ہو گیا کیوں کہ میں اپنا مقدمہ پیش کر چکا تھا۔ پھر کہنے لگیں آپ کی بیگم بنگلہ دیش کے بہت امیر شخص کی بیٹی ہیں۔ چنانچہ میں اپنا مقدمہ ہار گیا اور گھر واپس آیا اور بیگم سے کہا کہ اخراجات کو ایک بٹا دس کاٹ لو۔ صرف چاول اور دال کھائیں گے اور یوں میں چیئرمین بورڈ آف انوسٹمنٹ بنگلہ دیش مقرر ہو گیا اور یوں سمجھ لیجیے کہ آپ کے سامنے بیٹھے محمودا لرحمن کی 2001ء میں پیدائش ہوئی۔
سوال: بورڈ آف انوسٹمنٹ میںکب تک رہے؟
جواب: میں وہاں پانچ برس تک رہا۔ اس دوران بیگم خالدہ ضیا میرے کام سے بہت مطمئن رہیں۔ لوگ کہتے تھے کہ پورے بنگلہ دیش میں صرف ایک ڈپارٹمنٹ ہے جس میں کوئی کرپشن نہیں ہے اور وہ بورڈ آف انوسٹمنٹ ہے۔ یہ میری کامیابی ہے۔ میں نے دو کام کیے میں نے ہر شے کو آٹومیٹ کر دیا اور درخواست دہندہ کو اس قابل بنا دیا کہ جونہی اس کی درخواست آئے تو اس درخواست پر جو نمبر لگے وہ اس کا پاس ورڈ ہو گا جس کے ذریعے وہ بورڈ آف انوسٹمنٹ کی ویب سائٹ تک رسائی پا لے گا اور اپنی درخواست کے سفر سے آگاہ ہونا شروع ہو جائے گا کہ عین اس وقت جب وہ ویب سائٹ پر دیکھے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ اس کی فائل منظوری کے کس مرحلے پر ہے۔ وہ اپنے فائل کی ٹریکنگ کر سکتا ہے تاآنکہ اس کی حتمی منظوری نہ ہو جائے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کوئی بھی افسر فائل کو زیادہ دیر تک روک کر کرپشن کا تقاضا نہ کرے۔ اس ساتھ ساتھ میں نے بورڈ کے ملازمین سے کہا کہ پلیز مجھے پانچ سال کے لیے قبول کر لیں اور میرے وہاں قیام کے عرصے کے دوران کرپشن نہ کریں۔ مجھے پانچ سال دیں، اس کے بعد جو مرضی کریں کیوں کہ میں سیاست دان نہیں ہوں اور واپس اپنے کام پر چلا جائوں گا۔ اس کے علاوہ میںنے انہیں سرکاری انعامات دینے کا بھی سلسلہ شروع کیا۔ وہ میں نے سسٹم میں شفافیت کو یقینی بنایا۔ میں 2006ء تک اس عہدے پر رہا جب کہ حکومت کی مدت 2005ء میں مکمل ہو گئی تھی۔ اس کے بعد بنگلہ دیش میں فوجی بغاوت ہوگئی۔
سوال: ایسا کیوں ہوا؟
جواب: میرے خیال میں اس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ تھا اور اسے امریکا کی آشیرباد حاصل تھی کیوں کہ وہ خالدہ ضیا کی حکومت ختم کرنا چاہتے تھے جو ایک اتحادی حکومت تھی جس میں قوم پرست اور مذہبی جماعتیں ان کی حلیف تھیں۔ 9/11 کے بعد امریکا مذہبی قوتوں کو کچلنا چاہتا تھا اور ہر مسلم ملک میں اسلامی مخالف حکومت کا خواہاں تھا۔ چنانچہ بھارت نے امریکا کی مدد سے سازش کی اور بدقسمتی سے بنگلہ دیشی فوج بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک گئی اور بغاوت کر دی جس کے بعد 2008ء کے انتخابات میں بنگلہ دیشی فوج دھاندلی کرکے شیخ حسینہ واجد کو اقتدار میں لے آئی۔
سوال: تب آپ نے کیا کیا؟
جواب: میں نے 2006ء میں واپس پرائیویٹ سیکٹر جانے کیا سوچا۔ میری بیگم ایک چھوٹی سی سرامک فیکٹری چلا رہی تھیں جو ایکسپورٹ پراڈکٹ تیار کرتی تھی۔ اس فیکٹری کا نام Artisan Ceramic Factory تھا۔ مجھے اچانک ایک خیال سوجھا اور میں نے ایک بنگالی زبان کا اخبار روزنامہ امردیش خرید لیا۔ میں اس کا ایڈیٹر بھی بن گیا۔ یہ 2007ء کی بات ہے۔
سوال: اخبار خریدنے اور ایڈیٹر بننے کا خیال آپ کو کہاں سے آیا؟
جواب: میرا خیال تھا کہ میں سیاست دان ہوں اور نہ ہی بیورو کریٹ، بلکہ میں پرائیویٹ سیکٹر ہوں اس لیے بھارتی تسلط کے خلاف لڑنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اخبار اور اپنی تحریروں کے ذریعے لڑوںکیوںکہ میں دیکھ رہا تھا کہ بھارت بنگلہ دیش پر اپنا تسلط جمانے جا رہا ہے۔ چنانچہ میں نے بنگلہ دیش کے خلاف بھارتی اور امریکی سازش کے حوالے سے لکھنا شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مارشل لاء کے دوران ہی ملٹری ریجیم کے خلاف لکھنا شروع کردیا۔ اس وقت جنرل معین الدین احمد ملٹری چیف تھا اور ایک کٹھ پتلی چیف ایڈوائزر ڈاکٹر فخرالدین کے ذریعے حکومت کر رہا تھا۔ وہ سابق ورلڈ بینک کا آدمی تھا۔ وہ بھارت کے اشارے پر ناچ رہے تھے۔ میں نے کتابیں اور آرٹیکل لکھنا شروع کر دیے اور میں بھارت کا دشمن بن گیا اور 2009ء میں حسینہ واجد اقتدار میں آئیں تو میں نے ان کی فیملی اور حکومت کی کرپشن کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا، عدلیہ کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا جسے وہ ہدایات جاری کرتی ہے۔ وہ عدالتی فیصلوںکی منظوری دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں مجھے پہلی مرتبہ 2010ء میں گرفتار کرکے ایک سال کے لیے جیل میں ڈال دیا اور میرا اخبار چھے ہفتوں کے لیے بند کر دیا۔ ہم کورٹ میں گئے اور اس کو بحال کروایا۔ ایک سال بعد رہا ہوکر میں نے دوبارہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا اور 2013ء میں مجھے دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور حکومت نے اخبار پر قبضہ کر لیا۔
دراصل میں نے ایک بڑی خوف ناک اسٹوری شائع کی تھی، وہ یہ کہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے نام سے حسینہ حکومت نے 1971ء کی مناسبت سے جو عدالتی ڈراما رچا رکھا تھا اور جس طرح انصاف اور قانون کی دھجیاں بکھیر کر پھانسیاں دی جارہی ہین، ان کی مناسبت سے مذکورہ ICT کے چیف جج نظام الدین کی اپنی دوست سے ایک گفتگو کو، جسے Skype سے لے کر میں نے اپنے اخبار میں شائع کیا، اس میں یہ ’’جج‘‘ انصاف کے قتل اور حکومتی جبر اور زور زبردستی کا اعتراف کرتا ہے۔ یہ اسٹوری اخبار میں کیا چھپی پورے ملک میں کہرام مچ گیا۔ اگلے ہفتے اسی اسٹوری کو لندن اکانومسٹ نے ہمارے اخبار کے شکریے سے اپنے ہاں شائع کیا۔ اس جسارت پر حکومت نے مجھ پر غداری کا مقدمہ قائم کرکے جیل میں ڈال دیا۔ میں چار سال تک جیل میں رہا اور نومبر 2016ء میں رہا ہوا۔ میں تب بھی بنگلہ دیش نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ میں کشیم پور جیل میں تھا اور وہاں بنگالی زبان میں کتابیں لکھتا رہا۔ میری تازہ ترین کتاب The Political History of Muslim Bengal ہے۔ میرا اخبار بنگالی زبان میں تھا مگر میں نے انگریزی میں لکھنا شروع کر دیا تاکہ بین الاقوامی کتب بینوں تک پہنچ سکوں۔ رہا ہونے کے بعد بھی مجھ پر بہت سے مقدمات بنائے گئے اور میں مختلف مقدمات میں جگہ جگہ عدالتوں میں پیش ہو رہا تھا کہ جولائی 2018ء می کلشکیہ کے علاقے میں ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں جج کے سامنے مجھ پر حکومتی غنڈوں نے قاتلانہ حملہ کیا۔ میرے خلاف 120 مقدمات زیر التوا ہیں۔ اس سے قبل جیل میں بھی مجھ پر تشدد کیا گیا تھا۔ تازہ حملے میں بری طرح زخمی ہوا اور بالآخر بنگلہ دیش چھوڑنے کا ارادہ کر لیا کیوںکہ مجھے لگ رہا تھا کہ حکومت مجھے قتل کروا دے گی۔ چنانچہ میںنے اگست 2018ء کو بنگلہ دیش چھوڑ دیا۔
سوال: خود ارادی جلا وطنی کے بعد کہاںگئے؟
جواب: میں ملائیشیا چلا گیا جہاں میں نے اپنی کتاب The Political History of Muslim Bengal مکمل کی اور اسلامک یونیورسٹی آف ملائیشیا نے اس کی نقاب کشائی کی۔ اس کے بعد یونیورسٹی نے مجھے ایک اور پراجیکٹ آفر کیا اور ان میں ان دنوںRise of Indian hegemony in South Asia and Securitryofsmall states کے موضوع پر ریسرچ کا منصوبہ بنایا اور اسی سلسلے میں پاکستان آیا ہوا ہوں۔ میرا فائنل تھیسس مارچ 2022ء تک مکمل ہو جائے گا۔ اس سے قبل میں گیارہ کتابیں لکھ چکاہوں جن میں سے دس بنگالی زبان میں ہیں اور ایک انگریزی زبان میں ہے۔
سوال: آپ کے مستقبل کے کیا منصوبے ہیں؟
جواب: میں اب استنبول، ترکی میں رہائش پذیر ہوں، میرا فوری منصوبہ اپنا تھیسس مکمل کرنا ہی اور اس کے بعد مزید کتابیں لکھوں گا۔ سیاست نہیں کروں گا لیکن ہو سکتا ہے کہ میں اپنے اخبار کو لندن سے آن لائن شروع کرسکوں۔
سوال: کیا آپ اپنی مصیبتوں کا الزام بیگم خالدہ ضیا کو دیتے ہیں؟
جواب: بالکل نہیں، بلکہ میں ان کا شکر گزار ہوں۔ اگر وہ مجھے سیاست میں نہ لاتیں تو میں یہ سب کتابیں نہ لکھ سکتا تھا۔ حکومت کو جوائن کرنے سے پہلے میں ایک امیر آدمی تھا اور بہت سا پیسہ کما رہا تھا، لیکن مجھے بنگلہ دیش میں چند ایک بزنس مین ہی جانتے تھے لیکن اب بے بہا لوگ مجھے جانتے ہیں، میری کتابیں پڑھتے ہیں۔ اگر میں سیاست میں نہ ہوتا تو ممکن ہے میں یہ سب کچھ نہ کرسکتا۔ بیگم خالدہ ضیا 76 برس کی ہیں اور اس وقت جیل میں ہیں۔ میری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں لیکن اگر کل کو وہ حکومت میں آتی ہیں تو میں دوبارہ سے سیاست میں جانا قطعاً پسند نہیں کروں گا۔ میں ان کی مدد ضرور کروںگا اگر انہوں نے ایسا چاہا۔
سوال: پاکستان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب: یہ میرا تیسرا وزٹ ہے۔ میں پاکستانی فوڈ اور میوزک پسند کرتا ہوں۔ پچھلی مرتبہ میں 2005ء میں آیا تھا اور اب سولہ برس بعد پلٹا ہوں میں پاکستان کا خیرخواہ ہوں اور چاہتا ہوں کہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط ہونا چاہیے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کا معاشی عدم استحکام ہے، اگرچہ نظریاتی بنیاد مضبوط ہے۔ پاکستان کی کامیابی اور ترقی پر ہمیں اسی طرح خوشی ہوتی ہے جس طرح یہاں عام پاکستانی اپنے بنگلہ دیشی بھائیوں کی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں۔
پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرکے بھارت کی بالادستی کو جھٹک دیا ہے۔
آپ کا وقت دینے کا شکریہ
محمودالرحمن: آپ کا بھی بہت شکریہ۔

حصہ