سنتا ہوں سرنگوں تھے فرشتے مرے حضور
میں جانے اپنی ذات کے کس مرحلے میں تھا
ہماری ذات و شخصیت کا ایک اساسی تعارف یہ ہے کہ ہم سب ربانی شہکار ہیں۔ ایک ہی گھر کے سرچشمۂ تخلیق سے پھوٹ کر زمین کی وسعتوں میں پھلتے پھولتے رہے ہیں۔ ہماری ’’انفرادیت آپسی تعارف کا حوالہ بنی اور ’’پاکیزگی‘‘ تکریم کا معیار ٹھہری۔ یہ سب اُس ذات سے ممکن ہو ا، جو زندگی بانٹنے والی ہے۔ اب آیئے ایک نظر قرآنی دلیل پر ڈالتے ہیں۔
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں تاکہ تمہیں آپس میں’’پہچان‘‘ہو، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ ’’پرہیزگار‘‘ ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔‘‘ (الحجرات۔آیت 13)
یہی بات قدم قدم پر ہمیں قرآن یاد دلاتا ہے۔ ہر دم ہمیں ضمیر کی زندگی بانٹتی ہوئی آواز آتی ہے‘ لیکن ہم پُراسرار خاموشی اختیار کرتے ہوئے نئی نئی سرگرمیوں میں خود کو کھپا کر ،خود کو خود سے بھلائے رکھتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ کہیں ہم نے اپنی زندگی کوسمت کی تلاش و تعین میں برباد کردیا تو کہیں زندگی منزلوں کا تعین کیے بغیر راستوں کے چنائو اور پڑائوکے نام کردی۔ اب ہماری ذات خود ہر راہ کی دیوار بن گئی۔
کسی سے مجھ کو گلہ کیا کہ کچھ کہوں اخترؔ
کہ میری ذات ہی خود راستے کا پتھر ہے
آج ہم ایک دوسرے سے چند سادہ سے بنیادی سوال کرنے کا جوکھم لیتے ہیں۔ ویسے کسی بڑی’’آرزو کو ترسے ہوئے ذہن‘‘ پر بڑے سوالوں کا بار ڈالنا جھڑ بیریوں میں پھنسے ململ کو بچا لانے سے کم نہیں ہوتا۔ پھر بھی آپ اور ہم یہ مشترک کوشش کرتے ہیں۔ سوال در سوال کے لیے تیار رہیں۔
آج ہم اپنا نفسیاتی پتا کھوجتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ہم سب احساسات کی کسی گلی میں رہتے ہیں؟ کیا ان گلیوں میں سکون ہے یا ہنگامے برپا ہیں؟ ہمارے جذبات کی دنیا کے ہم سائے کون کون سے ہیں؟ ہم شعور کے کس شہر میں اور زندہ دلی کے کس گائوں میں رہتے ہیں؟ کیا ہمارا تعارف ہم سے یہ ہے کہ ہم خدا کا لیمٹڈ ایڈیشن ہیں یا تھوک میں، ہراج ، منڈی و میلے کا سستا مال بن چکے ہیں؟ کیا ہم اپنی زندگیوں کے خود معمار ہیں یا طفیلی کیڑوں کی طرح معذور مخلوق جو اوروں کے جھوٹے ٹکڑوں پر پلتے ہیں؟
کیا ہم نیکی سے نالاں، اباحت میں لتھڑے ذہن ہیں یا نور کا حصہ ہیں؟ کیا ہماری شخصیت کی پھاٹک پر یہ تو نہیں لکھا ہے کہ یہاں بڑے امکانات کا داخلہ منع ہے۔ یہاں ہمارے موڈ کے چھوڑے ہوئے جنگلی کتے گھومتے رہتے ہیں۔ جو ہر اجنبی کو بلا سبب کاٹ اور بھنبھوڑ سکتے ہیں۔ دروازے پر ایک الٹا جوتا بھی لٹکا ہوا ہے کیوں کہ دعائیں دینے کو اٹھنے والی ہر نظر کو ہم بددعا سمجھتے ہیں اور کوئی بد نظر ہم پر نہ پڑے اس لیے ہماری ذات کی پھاٹک کے استقبالیہ اشاروں کے تیور الگ ہیں۔ کیا ہماری پہچان ایک منہ لٹکائے اکھڑی ہوئی شخصیت کی طرح ہے؟ کیا ہم ہمیشہ جذبات کی چاکری کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے اپنے اختیار سے فیصلے کی طاقت کے اختیارکوخود گھٹا یا ہے۔ ویسے ہم سراسر بے وقوف نہیں لیکن کام احمقو ں جیسے کرتے ہیں۔ اسی تسلسل میں یہ بھی دیکھیں کہ کیا ہم ایک خود رُو پودا جو کسی اتفاقی پھوار میں جی اٹھا ہے یا منصوبہ بند تربیت کی بعد ہمارا وجود جاگا ہے؟ کیا ہم کسی معیار پر جیتے ہیں یا سفارش پر پھلتے پھولتے ہیں؟ کیا ہم صرف اقوال زریں پڑھ کر بہلتے ہیں یا ہماری زندگی سے لوگ اقوال کشید کرتے ہیں؟
اک زندگی عمل کے لیے بھی نصیب ہو
یہ زندگی تو نیک ارادوں میں کٹ گئی
ایک منظر یہ بھی ہے کہ اگر ہم اپنے گھر کے بڑے ہیں تو کیا اس کا سبب یہ ہے ہم جلدی پیدا ہوکر بڑا پن جتلاتے رہتے ہیں؟ ویسے بڑے پن کی لازمی پہچان ایثار اور جاں نثاری ہے۔ کہیں ہم نے اس کو ایک اختیاری سرگرمی تو نہیں مان رکھی ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ اکثر گھروں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ بڑوں نے گھروں کوجہنم زار بنا رکھا ہے؟ بے عمل بڑوں نے اپنے اَنا کو منوانے کے لیے‘ اپنے جذبات کی وحشت کے ایندھن میں دینی دانش بھی جھونک دی ہے۔ مذہب کا وقار و مسلک کا مقام سب کچھ جھونک ڈالا‘ بلکہ اپنی سابقہ زندگی کی تمام اتفاقی اچھائیوں کو احسان کی طرح جتلاجتلا کر فرعونیت کے دھتکارے ہوئے اسلوب و رویے سے اہم ترین دینی باتیں منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گھرمیں سب سے ہر وقت ناراض اور روٹھے ہوئے رہنا۔ تقریبات میں اُکھڑے رہنا‘ خوشیوں میں ماتمی موڈ میں پرائے زخموں کی نمائش کرکے واویلا مچاتے اور کوستے رہنا۔ گریجویٹ ہو کر بھی مستقل جاہل بنے رہنا۔ جب تک کہ اپنے پتھرائے وجود کے آگے اپنے ہی چھوٹوں کی ناک نہ رگڑوا دیں تب تک اجتماعی خوشیاں برباد کرنا۔ یہ تو گھرکے ایک کردار کا فسانہ تھا۔ اس کے برعکس چند چھوٹے یعنی کم عمر لوگوں کی پہچان بھی بعض اوقات کسی کھلنڈرے اور چھلاوے کی طرح ہوتی ہے‘ بلکہ ایسے نادان بچے کی طرح ہوتی ہے جو اپنی شخصیت کو اپنے گندے پیمپرکی طرح اپنے وجود سے چپکائے رکھتا ہے۔ بدن و شخصیت سے جڑی بد بوکو الگ نہیں کرتا۔ کبھی بچپن کے اٹھائے ناز کو اپنا حق سمجھ کر دہائیوں کی عمر گزارنے کے باوجود ایسی ہڑبونگ مچائے رکھتا ہے کہ بڑوں کا اختیار ہو تو گلا دبا کر لوگوں کو عافیت کے سانسیں بانٹیں۔ ہم نے ایسے بدبخت چھوٹوں کو بھی دیکھا ہے جو عدالتوں تک میں بڑوں کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ کئی ایسے بدنصیب بھی ہیں جنہوں نے اپنی بہنوں کے حق کو اژدہوں کی طرح نگل کر دوزخ کو اپنے نصیبوں کے لیے یقینی بنا لیا۔ گرہستی کے رنگ منج پر جتنے کردار ہیں ان سب کا ایک نہ ایک نفسیاتی تعارف ہے۔ کہیں بہن کا ایثار بھی ہے تو وہیں بہن کی بہمیت بھی ہے۔ اس کا وجود نند کے روپ میں کبھی ایسا ہے جیسے پل بھر میں وہ گھر کو آگ لگا دے۔ کہیں مرد حضرات کی سرد مہری خاندانوں کو بے حسی کے برف میں زندہ گاڑ رہی ہے۔ اس لیے ہر کردار اپنے اوصاف کے ساتھ اپنی کہانیوں میں جیتا اور مرتا ہے۔ کردار کا بودا پن تو جیسے ایک جزام ہے۔ چاہے اس کا نام منافقت ہو، خود غرضی ہو یا خود نمائی۔ اعلیٰ کردار کے سبب روشن جیت کی بشارت کے باوجود ہم لوگ خواہشاتِ نفسانی کی باڑ میں بہتے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ تونظر آتا ہے کہ ہر سال بستیاں بہہ جاتی ہیں لیکن یہ نظر نہیں آتا کہ کیسے بہاروں کے موسم میں، خوش حالیوں کے ماحول میں، آسودگی کی گھڑیوں میں ہزاروں لوگ خواہشاتِ نفسانی کی باڑ میں بہہ جاتے ہیں۔
دیکھ رہ جائے نہ تُو خواہش کے گنبد میں اسیر
گھر بناتا ہے تو سب سے پہلے دروازہ لگا
زندگی کی گزرگاہ کا اصول یہ کہ اس میں مسائل پہاڑوں کی طرح آتے ہیں۔ پہاڑوں پر چڑھنے والا ہر کوہِ پیما اپنے آلات، اپنی پیش قدمی، ہر پتھر پر رکھے ہاتھ کی گرفت، ہر نوکیلے ٹیلے پر رکھے پائوں کا خود ذمے دار ہوتا ہے۔ وہ کسی کو الزام نہیں دیتا۔ نہ آلات کو نہ حالات کو۔ یہی مرحلہ زندگی کا بھی ہے۔ ہاں…! یہ رب کا وعدہ ضرور ہے کہ زندگی کی الجھی ہوئی پگڈنڈیوں سے زخمی پائوں اور ہاتھوں کے چھالوں سے چلے آنا میں تمہارے اُخروی سفر کے راستوں میں ستارے بچھا دوں گا‘ تمہارا پور ا سفر کہکشانوں کی سڑک کا سفر ہوگا۔
تیرے مقام کو انجم شناس کیا جانیں
کہ خاکِ زندہ ہے تو تابعِ ستارہ نہیں