بھارت کے صوبے اتر پردیش کے ایک ضلع کا نام بدایوں ہے جو روہیل کھنڈ کے خطے میں واقع ہے۔ بدایوںکو ’’روہیل کھنڈ کا دل‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بدایوں کی سرزمین نے برصغیر کو بے شمار نامور لوگ دیے جنھوں نے مختلف شعبہ جات میں اپنی جداگانہ شناخت بنائی ۔ عصمت چغتائی، دلاور فگار، عبدالحامد بدایونی اور عبدالقادر بدایونی جیسی نامور شخصیات کو جنم دینے والی اس سر زمین پر 17 مارچ 1931کو ایک عظیم سیاسی او ر سماجی شخصیت نے جنم لیا جنھیںہم اور آپ ’’الحاج شمیم الدین‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ الحاج شمیم الدین کی پیدائش ایک معزز اور راسخ العقیدہ مذہبی گھرانے میں ہوئی۔ عشق ِ مصطفیؐ انہیں گھٹی میں ملا جب کہ پاکستان سے محبت ان کے خون میںشامل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ابتدا ہی سے اپنی مثبت سوچ کے ساتھ مذہبی اور سیاسی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ الحاج شمیم الدین کا بچپن اور لڑکپن تحریک ِ پاکستان کے اس دور سے وابستہ رہا جس دور میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے پاکستان ایک عشق اور آزادی ایک جنون کا نام بن چکے تھے۔ درحقیقت پاکستان کی آزادی میں الحاج شمیم الدین جیسے با ہمت نوجوانوں کی محنت شامل حال تھی جس نے اقبال کے خوابوں کو تعبیر دی ۔
مسلمانوں کے سیاسی بحران کے بعدآل انڈیا مسلم لیگ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے آخری امید تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے دو قومی نظریئے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے الگ آزاد ریاست کے مطالبہ کیا تھا وہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کا ترجمان بن چکا تھا۔ الحاج شمیم الدین اُن نوجوانوں میں سرفہرست تھے جو قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مظلوم مسلمانوں کے روشن مستقبل کے لیے مسلم لیگ کو ہندوستان کی ایک حقیقی سیاسی قوت بنانے میں دن رات مصروف ِ عمل رہتے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستانی معاشرے میں پاکستان کا نام لینا بھی جرم تھا اور وہ پاکستان کے عشق میں اس جرم کو صبح شام کرتے، علی الاعلان کرتے، ببانگ ِ دہل کرتے۔ ہندوستان کے گلی کوچوں میں ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الااللہ‘‘ کا نعرہ بلند کرتے جوانوں میں الحاج شمیم الدین صفِ اوّل میں کھڑے نظر آتے۔
قیام ِ پاکستان کے بعد الحاج شمیم الدین کی پاکستان کی طرف ہجرت جن آلام و مصائب کی روداد سناتی ہیں وہ یہ بتانے کو کافی ہیں کہ پاکستان کی محبت میں ان عظیم نفوس نے کتنی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کی خاطر اپنا گھر، محلہ، عزیزو اقارب اور دوستوں کو چھوڑکر آنے والے اس سچے پاکستانی کا دل صرف پاکستان کے لیے دھڑکتا تھا۔ اپنے گھر کا سامان مستحق لوگوں میں تقسیم کرنے کے بعد 7 مئی 1950کو، لگ بھگ چالیس خاندانوں کے ہمراہ الحاج شمیم الدین نے پاکستان کی جانب رخت ِ سفر باندھا‘ اس پُرخطر سفر میں ان کی والدہ، اہلیہ‘ دو بھائیوں اور ایک ہمشیرہ بھی شامل تھیں۔ ان کے پاس ضرورت کے سامان کے علاوہ زیورات اور چوبیس ہزار کی خطیر رقم بھی تھی۔ جب یہ قافلہ باڑہ میر جنکشن پہنچا تو بلوائیوں نے تمام رقم اور قیمتی سامان لوٹ لیا‘ البتہ زیورات جو والدہ نے صراحی میں چھپا رکھے تھے محفوظ رہے۔ اس قافلے کی محرومی اور کسمپرسی کو دیکھتے ہوئے بلوائیوں نے بطور زادِ راہ ہر فرد کو ایک سو روپیہ واپس کیا۔ سب کچھ لٹ جانے کے بعد بھی جان ہتھیلی پر لیے یہ نفوس پاکستان کی جانب اپنے سفر پر گامزن رہے۔
صعوبتوں کے سفر کے بعد جب یہ قافلہ پاکستان پہنچا تو سب نے اس ارضِ پاک کا بوسہ لیا اور سجدۂ شکر ادا کیا۔ پتھورو جنکشن پر بے سروسامان‘ کھلے آسمان تلے یہ وہ باضمیر لوگ تھے جو پاکستان کے لیے اپنے گھر اور کشادہ آنگن چھوڑ کر آئے تھے۔ الحاج شمیم الدین انتہائی غیور اور باضمیر انسان تھے‘ انہوں نے مشکل اور آزمائشوں بھرے دور میں بھی اپنی شرافت اور دیانت داری کو قائم رکھا اور اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔
الحاج شمیم الدین قیام پاکستان سے قبل ہی سیاست سے وابستہ تھے۔ تحریک ِ پاکستان میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا‘ وہ قیام پاکستان کے قبل سے ہی مسلم لیگ کا حصہ تھے۔ پاکستان آمد کے بعد 1957میں انہیں سٹی مسلم لیگ لائبریری کا سیکرٹری بنایا گیا۔ 1960میں وہ بی ڈی(Basic Democracy) کے رکن منتخب ہوئے اور 1968 تک ممبر و چیئرمین رہے۔ ضیا الحق کے مارشل لا دور میں وہ سندھ کاونسل کے بھی رکن رہے۔ یہ کاونسل گورنر سندھ جنرل عباسی کی صدارت میں قائم ہوئی تھی۔
الحاج شمیم الدین کراچی کے ایک علاقے سے کونسلر بھی منتخب ہوئے اور تعمیراتی خدمات سر انجام دیں۔1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں رکن سندھ اسمبلی اور غوث علی شاہ کی کابینہ میں وزیر مذہبی امور اور وزیر زکوٰۃ و عشر بھی رہے۔1987میں وہ سندھ کے قائم مقام وزیرِ اعلیٰ بھی رہے۔ ان اہم عہدوں پر فائز ہونے کے بعد انہوں نے جس دیانت اور امانت داری سے خدمات سرانجام دیں وہ نہ صرف لائق تحسین بلکہ قابل تقلید بھی ہیں۔ وزیر ِ محنت، ویلفیئر اور اس کے علاوہ کئی اہم اور کلیدی ذمے داریاں ان کے کاندھوں پر آتی رہیں جنھیں وہ خوش اسلوبی سے ادا کرتے رہے۔ مسلم لیگ کی صوبائی کابینہ اور دیگر عہدوں پر فائز رہے۔ الحاج شمیم الدین کا ایک اور نمایاں پہلو مذہبی حوالے سے بھی انتہائی اہم اور قابل ذکر ہے۔ چوں کہ انہوں نے مذہبی اور راسخ العقیدہ گھرانے میں آنکھ کھولی اس بنا پر ان کا مذہب سے ازحد لگائو تھا۔ ان کی گفتگو اور افکار سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ آقائے نامدار تاجدارِ مدینہؐ سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھتے تھے ۔ وہ مسلک اہلسنت سے وابستہ تھے۔ وہ 1970سے 1978 تک بریلوی مکتبہء فکر کی تنظیم ’’جمعیت علمائے پاکستان‘‘ سے بھی وابستہ رہے، اس دوران وہ کراچی ونگ کے صدر اور انفارمیشن سیکرٹری کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔ علمائے کرام سے ان کی قربت مثالی رہی جب کہ پاکستان کے جید اور نامور علما ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے جن میں علامہ احمد شاہ نورانیؒ اور علامہ محمد شفیع اوکاڑویؒ کا نام سرفہرت ہے۔ الحاج شمیم الدین نے مختلف جرائد میں مضمون نویسی اور کالم نگاری میں بھی اپنی ایک منفرد پہچان بنائی۔ ان کی تحریری خدمات قابل تحسین ہیں۔ الحاج شمیم الدین ’’پاکستان اسلامک فورم‘‘ کے بانی بھی ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے انہوں نے مختلف مکاتب فکر میں ہم آہنگی کو فروغ اور دینی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کیا۔
الحاج شمیم الدین سچے اور مخلص پاکستانی تھے۔ ان کی ذات پہلے قیام ِ پاکستان اور پھر استحکامِ پاکستان کے لیے وقف رہی۔ لوگ اپنی رہائش گاہوں پر ذات، قبیلے یا قوم کا نام لکھواتے ہیںجب کہ الحاج شمیم الدین کی رہائش گاہ پر آج بھی ’’پاکستان ہائوس‘‘ کی تختی آویزاں ہے۔ انہوں نے صرف ایک ہی پرچم سے محبت کی اور وہ ہے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم۔
ملک و ملت کا یہ عظیم رہنما اور محسن 23 مارچ 2021کو دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔