خود دار اونٹ

274

گزشتہ سے پیوستہ
بھیڑیا بولا:اس نان پر میرا حق ہے کہ سب سے پہلے میں نے اسے دیکھا۔ لومڑی بولی: یہ کیا بات ہوئی؟ پہلے ہی مرحلے پر حیلہ گری اور درشتی۱ مناسب نہیں۔ بہتر ہے کہ ہم اس نان کے تین حصے کرلیں۔ اگر سچ پوچھو تو یہ نان مجھے کھانا چاہیے کیونکہ اونٹ صحرا میں گھاس کھا سکتا ہے۔ بھیڑیے کو بھی شکار کرنا چاہیے۔ میں سب سے زیادہ اس کی مستحق ہوں لیکن اب چونکہ ہم ایک دوسرے کے دوست بن چکے، یہی بہتر ہے کہ اس کے تین حصے کرلیں۔
بھیڑیا بولا: یہ بات تم نے درست کہی کہ اونٹ کو صحرا میں گھاس چرنی چاہیے مگر جہاں تک میرا تعلق ہے، سرِدست مجھے کوئی شکار دکھائی نہیں دیتا سوائے اس کے کہ اونٹ کو چیر پھاڑ دوں لیکن میں یہ کام کرنا نہیں چاہتا کیونکہ اُسے ہم سے کچھ لینا دینا نہیں۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم قرعہ اندازی کرلیں اور وہ جس کے نام کا نکلے، وہ نان کو اکیلا کھالے تاکہ کسی ایک کا تو پیٹ بھرے۔ پرانے وقتوں سے یہ کہاوت چلی آتی ہے کہ سو اُجڑے شہروں سے ایک آباد گاؤں بہتر۔
یہ سن کر اونٹ کو سخت غصہ آیا۔ اس کے منہ سے کف جاری ہوگیا اور وہ بولا: منہ سنبھال کر بات کر اور میرے مقابل مت آ کیونکہ تو اونٹ کے مقابلے میں پدّا سا ہے کہ اسے شکار کرسکے اور اگر تجھے ایسی ہی الٹی بات سُوجھی ہے تو میں تیرے سر پر ایک لات رسید کروں گا اور تو ڈھیر ہو جائے گا۔ میں تیرے منہ پر ایک تھپڑ دوں گا اور تو ستّرقلابازیاں کھا کر پہاڑ کی چوٹی سے زمین پر جاگرے گا۔ ایک بات تو یہ ہوئی، دوسرے یہ کہ میں قرعہ اندازی کا بھی مخالف ہوں کیونکہ قرعہ ایک اندھی شے ہے اور قرعہ اندازی کے نتیجے میں حق دار کو اُس کا حق نہیں ملتا۔ لگتا ہے کہ تو بدفطرتی اور مکاری پر اُتر آیا ہے۔ اب جب معاملہ یہاں تک آپہنچا ہے تو سن لے کہ اس نان پر میرا حق ہے کہ میں سب سے بڑا ہوں اور بزرگ کا احترام لازم ہے۔
بھیڑیا اونٹ کی باتیں سن کر خوف زدہ ہوگیا تھا لیکن ہمت کرکے بولا: بہت خوب بڑے میاں! مگر آخر بزرگی کا ثبوت کیا ہے۔ بزرگی عقل سے ہے۔
اونٹ بولا: نہیں بزرگی قد کاٹھ سے ہے۔ جب یہی طے کرلیا گیا کہ کسی امر میں دلیل اور منطق سے کام نہیں لیا جائے گا اور انصاف نہیں کیا جائے گا تو اس وقت بزرگی، زور اور مُکّے کا نام ہوتا ہے لیکن پھر بھی مجھے نان کھانے پر اصرار نہیں۔ میں بہرحال کسی کی دَھونس میں نہیں آتا۔
لومڑی بولی: اب لڑائی جھگڑے سے باز آئیں۔ میں اپنے حق سے دستبردار ہوتی ہوں لیکن اگر بزرگی عقل سے ہوتی ہے تو نان پر میرا حق ہے چونکہ میں سب سے زیادہ ہوش مند ہوں۔ اب میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے جس سے حق دار کو اس کا حق مل جائے گا۔ یہ کیسا رہے گا کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی آپ بیتی بیان کرے اور جس کی آپ بیتی سب سے عمدہ ہو وہ نان کا حق دار قرار پائے؟
بھیڑیا بولا: مجھے اس سے اتفاق نہیں کیونکہ ہر شخص کی آپ بیتی اس کے اپنے زعم میں عمدہ اور پرکشش ہوتی ہے۔ ہر کوئی کُچھ نہ کُچھ خودپسند ہوتا ہے اور ممکن ہے میں اپنی آپ بیتی کو تمھاری آپ بیتی سے زیادہ عمدہ سمجھوں اور تم اس سے اتفاق نہ کرو اور ذوق کے فرق کی وجہ سے پھر سے اختلاف شروع ہو جائے۔ بہتر یہی ہے کہ اونٹ کے قول پر عمل کریں اور کم عمری اور بزرگی کے احترام میں ہر کوئی اپنی اپنی تاریخ پیدائش بتائے اور جس کسی کی تاریخ پیدائش زیادہ پہلے کی ہو اور اس کی عمر زیادہ ہو وہ نان کا حق دار ٹھہرے۔
لومڑی بولی: تجویز تو عمدہ ہے۔
اونٹ نے بھی اس تجویز سے اتفاق کیا اور بولا: یااللہ، تو شروع کریں۔ پہلے اپنی تاریخ پیدائش کون بتائے گا“؟ لومڑی نے جو مکاری میں مشہور ہے، تجویز پیش کی کہ سب سے پہلے بھیڑیا شروع کرے۔ اس نے دل میں سوچا کہ اس میں کیا برائی ہے کہ جو کُچھ بھیڑیا کہے میں اس سے زیادہ عمر کی بات کروں اور اونٹ کو بھی اپنی چکنی چپڑی باتوں سے فریب دوں اور بالآخر نان کی اکیلی حق دار ٹھہروں۔ اونٹ نے اس سے اتفاق کیا کہ سب سے پہلے بھیڑیا اپنی بات شروع کرے۔
تب بھیڑیا بولا: جیسا کہ میرے والد نے اپنی دعا کی کتاب کی جلد کے پیچھے لکھا ہے، میری ماں نے مجھے حضرتِ آدمؑ کی خداوند کے ہاتھوں تخلیق سے سات روز پہلے جنم دیا۔
یہ سن کر حیرت سے اونٹ کا منہ تو کھُلے کا کھُلا رہ گیا مگر لومڑی نے بھیڑیے کی بات کو بہت آسان لیا اور کہا:ہاں ہاں ٹھیک کہا اس نے۔ جب بھیڑیے کی ماںنے اسے جنم دیا تھا، میں نے شمع ہاتھ میں تھام رکھی تھی اور روشنی کا اہتمام کر رہی تھی۔ اس وقت میں دس سال کی تھی۔“
اونٹ نے جب یہ باتیں سنیں تو اسے اندازہ ہوگیا کہ اس کے ساتھی جھوٹ کی راہ پر چل پڑے ہیں اور اب اس کے لیے کہنے کو کُچھ نہیں رہا۔ یہ سوچ کر اونٹ نے اپنی گردن لمبی کی اور نان کی ٹکیا کو دانتوں سے پکڑ ایک لقمے کی طرح نگل گیا اور اسے کھانے کے بعد بولا: میں نے شروع ہی سے فیصلہ کیا تھا کہ میں یہ نان نہیں کھاؤں گا کیونکہ میری خوراک تو اصل میں گھاس ہے اور میں نے گمان کیا کہ چونکہ طے ہے کہ تم لوگ سچ بات کہو گے اور انصاف کو پیشِ نظر رکھو گے اس لیے میں چاہتا تھا کہ یہ نان اگر میرے مقدّر میں ہوا بھی تو میں یہ تمھیں بخش دوں گا لیکن اب جب تم نے کام کی بنیاد مکّاری پر رکھ دی اور معاملہ دگرگوں ہوگیا سو میں بھی ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ جو مائی کا لال بھی میرے جسم اور قد کاٹھ کو دیکھے گا، جان لے گا کہ میں کل رات پیدا نہیں ہوا بلکہ تم سے بہت پہلے اس دنیا میں آیا ہوں اور اُسے بہت دیکھا ہے اور جو چیز عیاں ہے اس کے بیان کی کیا ضرورت؟

حصہ