کسی انسان کی عظمت کا معیار محض اس کے افکار و نظریات کی ہمہ گیری‘ جامعیت اور فلاح انسانیت کے لیے ان کی افادیت ہی نہیںبلکہ اس کی سیرت و کردار‘اس کی عادات و اطوار اس کی رفتار و گفتار بھی اس کی بڑائی جو جانچنے کا ایک پیمانہ ہے۔ ایک شخص اپنی روز مرہ زندگی میں اپنے بلند اخلاق‘ معاملات کے پُر خلوص ہونے‘ اپنے کردار کی صداقت کی بنا پر لوگوں میں پسند کیا جاتا ہے۔
آپؐ کی سیرت طیبہ کمال انسانیت کا بہترین اور ارفع ترین نمونہ ہے۔ آپؐ کے ارشادات زبان و ادب کے انمول موتی ہیں۔ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ معنی اورمفہوم کے لحاظ سے جامع اور پر مغز ہے۔ آپؐ نے خود اپنے بارے میں فرمایا ’’مجھے معنی و مفہوم کے لحاظ سے نہایت جامع کلمات عطا ہوئے ہیں۔‘‘ آپؐ کے چند ارشادات مندرجہ ذیل ہیں۔
-1 لوگ سونے چاندی کی کانوں کی مانند کانیں ہیں جو لوگ ان میں سے زمانہ جاہلیت میں بہتر تھے جب انہوں نے اسلام کو سمجھ لیا تو وہی اسلام میں بھی بہتر ٹھہرے۔
-2 میرے اصحابؓ ستاروں کی مانند ہیں۔ ان میں سے جس کی پیروی تم کرو گے ہدایت پائو گے۔
-3 میرے اہلِ بیت کی مثال سفینہ نوح ؑ کی سی ہے جو اس میں سوار ہو گیا وہ پار ہو گیا جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا۔
-4 نیکو کار ہمنشین کی مثال ایسی ہے جیسے عطار کہ اگر تمہیں اس کی خوشبو سے کچھ مل جائے تو بہت خوب ورنہ اس کی مہک تو آئے گی اور برے ہمنشین کی مثال لوہار کی بھٹی کی سی ہے کہ اگر اس کی آگ کی لپٹ آئے تو جھلسا دے ورنہ اس کی چنگاریاں تو تم پر پڑیں گی۔
-5 ابوبکرؓ کی مثال بادل کی سی ہے کہ جہاں برستا ہے نفع پہنچاتا ہے۔
-6 تمہارے اعمال ہی تمہارے حکمراں ہیں۔ جیسے تم ہوگے ویسے ہی والی تم پر مسلط کر دیے جائیں گے۔
-7 اگر تم اللہ پر توکل کرو گے جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے‘ تو وہ تمہیں بھی اسی طرح روزی دے گا جس طرح وہ پرندوں کو روزی دیتا ہے کہ وہ صبح کے وقت خالی پیٹ باہرجاتے ہیںاور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔
-8 موسم سرما مومن کے لیے بہار کی مانند ہے۔ اس کا دن چھوٹا ہوتاہے تو وہ دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات لمبی ہوتی ہے تو وہ قیام اللیل میںگزارتا ہے۔
-9 وہ علم جس سے کسی کو نفع نہ ہو‘ اس کی مثال اس خزانے کی ہے جس میںسے کچھ خرچ نہ کیا جائے۔
-10 تم دنیا میں اس طرح رہو جیسے تم پردیسی ہو‘ یا راہ چلنے والے مسافر ہو۔
-11 کوئی چیز تحفہ دے کر واپس لینے والا ایسا ہے جیسے قے کرکے پھر اس کو چاٹ لینے والا۔
-12 مومن اپنے بھائی کے لیے آئینہ ہے۔
-13 قبر ایک اچھا قلعہ ہے۔
-14 سلامت رہ جاناہی بڑی بیماری ہے۔
-15شیطان اکیلے انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ دو انسانوں سے وہ دور رہتا ہے۔
-16 جنت تکلیفوں میں گھری ہوئی ہے اور دوزخ کے گرد خواشات نفسانی ہیں۔
-17مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
-18 مومن وہ ہے جس کے شر سے لوگوں کی جانیں اور مال امن میں رہیں۔
-19 ہدیہ بغض و عداوت کو دور کر دیتا ہے۔
-20 مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔
-21 دانائی مومن کی گم شدہ چیز ہے وہ جہاں اسے پائے اسے لینے کا زیادہ حق دار ہے۔
-22 آدمی اس کے ساتھ ہوتاہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔
-23 اللہ جس سے بھلائی کرنا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔
-24 بہادر وہ نہیںجو پچھاڑ دے‘ بے شک بہادر وہ ہے جو غصے کی حالت میں بھی اپنے نفس پر قابو رکھے۔
-25 لوگ اپنے حکمرانوںکے طرز زندگی پر ہوتے ہیں۔
-26 مشورہ طلب کرنے والے کو مدد دی جاتی ہے اور جس سے مشورہ کیا جائے وہ امانت دار ہوتا ہے۔
-27 جس نے اپنی قدر پہچانی وہ ہلاک نہیں ہوا۔
-28 جو کچھ جس کے لیے پیدا کیا گیا ہے وہ اس کو مل کر رہے گا۔
-29 انسان کے جسم میں گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست رہتا ہے اوراگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے خبردار سن لو اور وہ دل ہے۔
-30 تم پیٹ بھر کر کھانے سے بچو کیوں کہ خوب پیٹ بھر کرکھانا آدمی کو بیمار کر دیتا ہے۔ تم بھوک سے بھی بچو کیوں کہ یہ بڑھاپا لاتی ہے۔
-31 پرہیز بہترین علاج ہے اور معدہ بیماری کا گھر ہے یعنی ام الامراض ہے۔
-32تم اس چیز کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالے۔ اس چیز کی خاطر جو تمہیں شک میں نہ ڈالے۔
-33 بلاشبہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔
-34 ثبوت مہیا کرنا مدعی کے ذمے ہے اور قسم اس پر ہے جو الزام سے انکار کرے۔
-35 تم دنیا سے بے رغبتی اختیار کرو‘ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے رغبتی اختیار کر لو‘ لوگ تم سے پیارکرنے لگیں گے۔
-36 دانائی کا سرچشمہ اللہ کا خوف ہے۔
-37 تین باتیں نجات دینے والی ہیں اور تین ہی ہلاک کرنے والی ہیں۔
نجات دینے والی چیزیں یہ ہیں۔
٭ چھپے اور کھلے اللہ کا خوف۔
٭خوشی اور ناراضی کی حالت میں انصاف۔
٭ تنگ دستی اور خوش حالی کے زمانے میں میانہ روی۔
ہلاک کر دینے والی تین چیزیں یہ ہیں:
٭ ایسا بخل کہ آدمی جس کے پیچھے پڑا رہے۔
٭ ایسی خواہشِ نفس کہ جس کی پیروی کی جائے۔
٭ خود پسندی اور غرور نفس۔
-38 تم میں بہتر وہ ہے جو بلند مرتبہ ہوتے ہوئے تواضع سے پیش آئے جو دولت مند ہوتے ہوئے دولت سے بے رغبت رہے‘ جو طاقت کے باوجود دوسروں سے انصاف برتے اور جو انتقام پر قادر ہونے کے باجود درگزر کرے۔
-39 چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
-40 تم قرض سے بچو کیوں کہ یہ رات کا غم اور دن کی رسوائی ہے۔
-41 تم بدگمانی سے بچو کیوں کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔
-42بہترین صدقہ وہ ہے جو ایک تنگ دست آدمی اپنی طاقت کے مطابق دے۔
-43جس نے میانہ روی اختیار کی وہ تنگ دست نہیں ہوگا۔
-44 اچھا گمان ایک اچھی عبادت ہے۔
-45 مسلمان کو گالی دینا گناہ اور اس کو قتل کرنا کفر ہے۔
-46 مسلمان کا مسلمان پر سب کچھ حرام ہے اس کا مال‘ اس کی عزت‘ اس کا خون۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت و بلاغت کی یہ خوبیاں آپؐ کے ان چھوٹے چھوٹے جملوں ہی تک موقوف نہیں ہیں بلکہ مبسوط اور طویل ارشادات میں بھی موجود ہیں۔ اور نظم الفاظ اور حسن ترکیب ان خوبیوں کے علاوہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے ایک نیکی کا ارادہ کیا اور اس کو عملی جامہ نہ پہنا سکا تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور اگر اس نے وہ نیک عمل کیا تو اسکے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اگر کسی نے بدی کا ارادہ کیا اور اس بدی پر عمل پیرا نہ ہوا تو اس کے لیے کچھ نہیں لکھا جاتا اور اگر اس بدی پر عمل کیا تو اس کے لیے ایک گناہ لکھا جاتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فصاحتِ زبان اور بلاغتِ کلام میں ایسے بلند و رفیع مقام پر فائز تھے جہاں سلامتِ طبع‘ فصاحت کاملا‘ ایجاد‘ موزوں الفاظ کا انتخاب‘ صحت معانی اور قلتِ تکلف کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کم الفاظ اور وسیع معانی کا وصف عطا کیا گیا تا اور نادر حکمتوں کے ساتھ آپؐ مخصوص کیے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عرب کی تمام (مختلف) زبانیں سکھا دی تھیں۔ آپؐ ہر قوم سے اس کی ہی زبان میں خطاب فرماتے تھے۔ اس قوم اور قبیلہ کے محاورے اور اسی کے روز مرہ میں سے لغت استعمال فرماتے تھے اور اس کے روز مرہ میں بلاغت کی رعایت مدنظر رکھتے تھے۔ بعض صحابہ کرامؓ آپؐ سے اس کلام کی شرح دریافت فرماتے اور آپؐ کی ارشادِ گرامی کی توضیح کے خواست گار ہوتے ہیں جس نے آپ کے اقوال گرامی احادیث و سیرت میں غور و فکر کیا ہے۔ اس پر یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ کا کلام جیسا قریش انصار‘ اہل حجاز و اہل نجد کے ساتھ ہوتا تھا۔ ویسا اندازِ کلام اس وقت نہیں ہوتا تھا جب آپ ہمدانی‘ ہندی‘ اشعث بن قیس اور وال بن حجرالکندی سے گفتگو کے وقت اختیار فرماتے تھے وج امرا و مملو ک میں سے تھے۔
آپؐ ان لوگوں سے گفتگو اور معاملے کے وقت وہی الفاظ استعمال فرماتے جو بعینہ وہ لوگ استعمال کرتے تھے۔ قرآن حکیم کی آیات کی تشریح اور وضاحت بھی انہی کی زبان میں فرماتے جس میں وہ لوگ کلام کرتے تھے اور پسند کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا ’’بے شک اونچا ہاتھ تو دینے والا ہے اور لینے والا ہاتھ تو نیچاہے۔‘‘
آپؐ نے فرمایا ’’میں عرب میں فصیح ترین شخص ہوں جب کہ میں قریش میںسے ہوں اور بنی سعد بن بکر میں میری نشوونما ہوئی ہے۔‘‘
حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کی خوبی کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا ’’میرے رب نے میری تعلیم کی ہے اور خود ہی ادب سکھایا ہے۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا ’’دنیائے عرب میں سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ فصیح و بلیغ کوئی فرد نہیں تھا۔‘‘