سیلزمین سے دوائیں نکلوانے کے بعد، پیسے دینے کے لیے جب کائونٹر پر پہنچا تو مجھ سے پہلے قطار میں دو لوگ کھڑے تھے۔ سب سے آگے ایک بوڑھی عورت، اس کے پیچھے ایک نوجوان لڑکا۔
میری دوائیاں کائونٹر پر سامنے ہی رکھی تھیں اور ان کے نیچے رسید دبی ہوئی تھی، ساتھ ہی دو اور ڈھیر بھی تھے جو مجھ سے پہلے کھڑے لوگوں کے تھے۔ مجھے جلدی تھی کیوں کہ گھر والے گاڑی میں بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے… مگر دیر ہورہی تھی کیوں کہ بوڑھی عورت کائونٹر پر چپ چاپ کھڑی تھی۔
میں نے دیکھا وہ بار بار اپنے دبلے پتلے، کانپتے ہاتھوں سے سر پر چادر جماتی تھی اور جسم پر لپیٹتی تھی۔ اس کی چادر کسی زمانے میں سفید ہوگی مگر اب گِھس کر ہلکی سرمئی ہوچکی تھی۔ پائوں میں عام سی ہوائی چپل اور ہاتھ میں سبزی کی تھیلی تھی۔ میڈیکل اسٹور والے نے خودکار انداز میں عورت کی دوائوں کا بل اٹھایا اور بولا ’’980 روپے‘‘۔ اس نے عورت کی طرف دیکھے بغیر پیسوں کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
عورت نے چادر میں سے ہاتھ باہر نکالا اور مٹھی میں پکڑے مڑے تڑے 50 روپے کے دو نوٹ کائونٹر پر رکھ دیے۔ پھر سر جھکا لیا۔
’’بقایا…؟‘‘ دکان دار کی آواز اچانک دھیمی ہوگئی، بالکل سرگوشی کے برابر۔ اس نے عورت کی طرف دیکھا۔ بوڑھی عورت سر جھکائے اپنی چادر ٹھیک کرتی رہی۔
چند سیکنڈ کی خاموشی رہی ہوگی۔ اس دوران ہم سب کو اندازہ ہوگیا کہ عورت کے پاس پیسے نہیں ہیں اور وہ اس کشمکش میں ہے کہ کیا کرے! مگر دکان دار نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر، تیزی سے اس کی دوائوں کا ڈھیر تھیلی میں ڈال کر آگے بڑھاتے ہوئے کہا:
’’اچھا اماں جی، شکریہ۔‘‘
بوڑھی عورت کا سر بدستور نیچے تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے تھیلی پکڑی اور کسی کی طرف دیکھے بغیر دکان سے باہر چلی گئی۔ ہم سب اسے جاتا دیکھتے رہے۔ میں حیران تھا کہ 980 روپے کی دوائیں اس دکان دار نے صرف 100روپے میں دے دی تھیں۔ اس کی فیاضی سے میں متاثر ہوا تھا۔
جونہی وہ باہر گئی، دکان دار پہلے ہمیں دیکھ کر مسکرایا، پھر کائونٹر پر رکھی پلاسٹک کی ایک شفاف بوتل اٹھالی جس پر لکھا ’’ڈونیشن فار میڈیسنز‘‘ یعنی دوائوں کے لیے عطیات۔
اس بوتل میں بہت سارے نوٹ نظر آرہے تھے۔ زیادہ تر دس اور پچاس کے تھے۔ دکان دار نے تیزی سے بوتل کھولی اور اس میں سے مٹھی بھرکر پیسے نکال لیے۔ پھر جتنے پیسے ہاتھ میں آئے انہیں کائونٹر پر رکھ کر گننے لگا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کیا کام شروع ہوگیا ہے! مگر دیکھتا رہا۔
دکان دار نے جلدی جلدی سارے نوٹ گنے تو ساڑھے تین سو روپے تھے۔ اس نے پھر بوتل میں ہاتھ ڈالا اور باقی پیسے بھی نکال لیے۔
اب بوتل بالکل خالی ہوچکی تھی۔ اس نے بوتل کا ڈھکن بند کیا اور دوبارہ پیسے گننے لگا۔ اس بار کُل ملا کر ساڑھے پانچ سو روپے بن گئے تھے۔
اس نے بوڑھی عورت کے دیے ہوئے پچاس کے دونوں نوٹ، بوتل سے نکلنے والے پیسوں میں ملائے اور پھر سارے پیسے اٹھاکر اپنی دراز میں ڈال دیے۔ پھر مجھ سے آگے کھڑے گاہک کی طرف متوجہ ہوگیا’’جی بھائی؟‘‘
نوجوان نے، جو خاموشی سے یہ سب دیکھ رہا تھا، ہزار کا نوٹ آگے بڑھا دیا۔ دکان دار نے اس کا بل دیکھ کر نوٹ دراز میں ڈال دیا اور گِن کر تین سو تیس روپے واپس کردیے۔ ایک لمحہ رکے بغیر نوجوان نے بقایا نوٹ پکڑ کر انہیں تہہ کیا، پھر بوتل کا ڈھکن کھولا اور سارے نوٹ اس میں ڈال کر ڈھکن بند کردیا۔ اب خالی ہونے والی بوتل میں پھر سے سو کے تین اور دس کے تین نوٹ نظر آنے لگے تھے۔ نوجوان نے اپنی تھیلی اٹھائی، زور سے سلام کیا اور دکان سے چلاگیا۔
بہ مشکل ایک منٹ کی اس کارروائی نے میرے رونگٹے کھڑے کردیے تھے۔ میرے سامنے چپ چاپ ایک عجیب کہانی مکمل ہوگئی تھی، اور اس کہانی کے کردار اپنا اپنا حصہ ملا کر، زندگی کی اسکرین سے غائب ہوگئے تھے۔ صرف میں وہاں رہ گیا تھا جو اس کہانی کا تماشائی تھا۔
’’بھائی یہ کیا کیا ہے آپ نے؟‘‘ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں پوچھ بیٹھا ’’یہ کیا کام چل رہا ہے؟‘‘
’’اوہ کچھ نہیں ہے سر!‘‘ دکان دار نے بے پروائی سے کہا’’ادھر یہ سب چلتا رہتا ہے۔‘‘
’’مگر یہ کیا ہے؟ آپ نے تو عورت سے پیسے کم لیے ہیں؟ پورے آٹھ سو اسّی روپے کم، اور بوتل میں سے بھی کم پیسے نکلے ہیں۔ تو کیا یہ اکثر ہوتا ہے؟‘‘ میرے اندر کا پرانا صحافی بے چین تھا جاننے کے لیے کہ آخر واقعہ کیا ہے!
’’کبھی ہوجاتا ہے سر! کبھی نہیں۔ آپ کو تو پتا ہے کیا حالات چل رہے ہیں۔‘‘ دکان دار نے آگے جھک کر سرگوشی میں کہا ’’دوائیں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں۔ سفید پوش لوگ روز آتے ہیں۔ کسی کے پاس پیسے کم ہوتے ہیں، کسی کے پاس بالکل نہیں ہوتے، تو ہم کسی کو منع نہیں کرتے۔ اللہ نے جتنی توفیق دی ہے، اتنی مدد کردیتے ہیں۔ باقی اللہ ہماری مدد کردیتا ہے۔‘‘ اس نے بوتل کی طرف اشارہ کیا۔
’’یہ بوتل کتنے دن میں بھر جاتی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’دن کدھر سر!‘‘ وہ ہنسا’’یہ تو ابھی چند گھنٹے میں بھرجائے گی۔‘‘
’’واقعی!‘‘ میں حیران رہ گیا۔ ’’پھر یہ کتنی دیر میں خالی ہوتی ہے؟‘‘
’’یہ خالی نہیں ہوتی سر! اگر خالی ہوجائے تو دو سے تین گھنٹے میں پھر بھر جاتی ہے۔ دن میں تین، چار بار خالی ہوکر بھرتی ہے۔ شکر الحمدللہ‘‘۔ دکان دار اوپر دیکھ کر سینے پر ہاتھ رکھا اور بولا۔
’’اتنے لوگ آجاتے ہیں پیسے دینے والے بھی اور لینے والے بھی!‘‘ میں نیکی کی رفتار سے بے یقینی میں تھا۔
’’ابھی آپ نے خود دیکھا ہے سر!‘‘ وہ ہنسا۔ ’’بوتل خالی ہوگئی تھی، مگر کتنی دیر خالی رہی؟ شاید دس سیکنڈ۔ ابھی دیکھیں‘‘ اُس نے بوتل میں پیسوں کی طرف اشارہ کیا۔
’’پیسے دینے والے کون ہیں؟‘‘
’’ادھر کے ہی لوگ ہیں سر! جو دوائیں لینے آتے ہیں، وہی اس میں پیسے ڈالتے ہیں۔‘‘
’’اور جو دوائیں لیتے ہیں ان پیسوں سے، وہ کون لوگ ہیں؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’وہ بھی ادھر کے ہی لوگ ہیں۔ زیادہ تر بوڑھے، بیوائیں اور کم تنخواہ والے لڑکے ہیں جن کو اپنے والدین کے لیے دوائیں چاہیے ہوتی ہیں‘‘۔ اس نے بتایا۔
’’لڑکے؟‘‘ میرا دل لرز گیا۔ ’’لڑکے کیوں لیتے ہیں چندے کی دوائیں؟‘‘
’’سر! اتنی بے روزگاری ہے۔ بہت سے لڑکوں کو تو میں جانتا ہوں، اُن کی نوکری کورونا کی وجہ سے ختم ہوگئی ہے۔‘‘ اس نے دکھی لہجے میں کہا۔’’اب گھر میں ماں باپ ہیں، بچے ہیں۔ دوائیں تو سب کو چاہئیں۔ تو لڑکے بھی اب مجبور ہوگئے ہیں اس بوتل میں سے دوا لینے کے لیے… کیا کریں، کئی بار تو ہم نے روتے ہوئے دیکھا ہے اس میں سے لڑکوں کو پیسے نکالتے ہوئے۔ یقین کریں ہم خود روتے ہیں۔‘‘ مجھے اس کی آنکھوں میں نمی تیرتی نظر آنے لگی۔
’’اچھا، میرا کتنا بل ہے؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھ لیا کہ کہیں وہ میری آنکھوں کی نمی نہ دیکھ لے۔
’’سات سو چالیس روپے‘‘۔ اس نے بل اٹھا کر بتایا اور ایک ہاتھ سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ میں نے بھی اس کو ہزار کا نوٹ تھمایا اور جو پیسے باقی بچے، بوتل کا ڈھکن کھول کر اس میں ڈال دیے۔
’’جزاک اللہ سر!‘‘ وہ مسکرایا اور کائونٹر سے ایک ٹافی اٹھاکر مجھے پکڑادی۔
میں سوچتا ہوا گاڑی میں آبیٹھا کہ غربت کی آگ ضرور بھڑک رہی ہے، مفلسی کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے ہیں، مگر آسمانوں سے ابابیلوں کے جھنڈ بھی، اپنی چونچوں میں پانی کی بوندیں لیے، قطار باندھے اتر رہے ہیں۔ خدا کے بندے اپنا کام کررہے ہیں، چپ چاپ، گم نام، صلے و ستائش کی تمنا سے دور، اس یقین کے ساتھ کہ خدا دیکھ رہا ہے اورمسکرا رہا ہے کہ اس کے بندے اب بھی اس کے کام میں مصروف ہیں۔