رب کی عطا

228

اماں کے بہت اصرار پر بالآخر میں نے شادی کے لیے ہاں کر ہی دی۔ پَر دل ہی دل میں اس صورت حال سے بہت خوفزدہ تھا جو آج کل ہر گھر کا قصہ ہے۔
پچھلے دنوں ماموں جان کے گھر بڑا ہنگامہ مچا ہوا تھا۔ عدیل بھائی اپنی اہلیہ کی خواہش پر علیحدہ رہنے پر راضی ہوگئے تھے اور مامی جان کا رو رو کے برا حال تھا، جب کہ ماموں جان کو صدمے نے جیسے چپ ہی لگا دی تھی۔ گھر کا بڑا بیٹا جو بڑھاپے کا واحد سہارا تھا، اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑا کر اپنا گھر بسانے چلا تھا۔ بھلا لوگ ہی کتنے تھے ماموں جان کے گھر میں! ماموں، ممانی، ایک چھوٹی بہن اور عدیل خود… یعنی گنتی کے چار لوگ، لیکن بہو چار ماہ بھی ساتھ نہ رہ سکی اور سب کو اداس کرگئی۔
یہ سب سوچ سوچ کر میں نے دل سے شادی کے خیال کو ہی مٹا ڈالا تھا۔ میں بھی تو اپنے گھر کا واحد سہارا تھا۔ بڑا بیٹا تھا۔ مجھ سے چھوٹی تین بہنیں اور ایک مجھ سے بڑی آپا تھیں۔ بھائی میں بھی ایک ہی تھا۔ شادی کسی کی نہ ہوئی تھی۔ اماں کی خواہش تھی کہ آپا کی شادی کے ساتھ ساتھ میرے سہرے کے پھول بھی دیکھنے ہیں، بہو لانی ہے۔ جب کہ میرا مسلسل اصرار تھا کہ پہلے آپا کی شادی کریں پھر باقی تینوں بہنوں کی۔ بعد میں مَیں اپنے بارے میں کچھ سوچتا۔ پَر میری ایک نہ چلی، بہنوں اور اماں کی ضد پر ابا جی نے بھی اپنا ووٹ اُن کے حق میں دیا، اور یوں میرے لیے لڑکی ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
آئے دن کبھی یہاں، تو کبھی وہاں لڑکی دیکھنے اماں کی فوج نکل پڑتی۔ پھر ایک دن اماں جی اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر لوٹیں تو مارے خوشی کے اماں بہنوں کا برا حال تھا۔ لوہا گرم دیکھ کر میں نے ہتھوڑا دے مارا اور اپنا مطالبہ اماں کے سامنے پیش کردیا کہ شادی سادگی سے ہوگی، کوئی فضول خرچی نہیں ہوگی۔
اماں میری بات پر ہاں میں سر ہلا کر مجھے تسلی دیتیں، اور میں اُن کے جھریوں بھرے چہرے کو دیکھ کر فکرمند ہوجاتا کہ اُن کے چہرے پر کیسی چمک آجاتی ہے، میرا گھر بسانے کی خواہش کہیں انہیں افسردہ نہ کردے۔ کبھی کچھ ذہن میں آتا‘ کبھی کچھ، اور یہ برے خیال مجھے پریشان کردیتے۔ یا اللہ پاک میری مدد فرما، میں اور میرے گھر والے برا وقت کبھی نہ دیکھیں، آمین۔ میں سجدوں میں رورو کر اللہ کے حضور دعا کرتا۔
پھر کچھ ہی دنوں میں بڑی سادگی سے سب تیاریاں ہوئیں اور شادی کا دن قریب آگیا۔ آپا کے رخصت ہونے پر اماں افسردہ تھیں، پَر نئی بہو کے آنے کی خوشی بھی نرالی تھی۔
کچھ دن سکون سے گزرے، پھر ایک دن دروازے پر زوردار دستک ہوئی۔ کھول کر دیکھا تو میرے بہنوئی اور آپا جان تھے۔ ہاتھوں میں کچھ سامان تھا جسے دیکھ کر میں خاصا پریشان ہوگیا۔
’’ذیشان بھائی! آپ لوگ اتنی رات میں یہاں؟ آپا جان! سب خیر تو ہے نا؟‘‘
’’ہاں ہاں بھائی سب خیریت ہے الحمدللہ، ہمیں اندر تو بلا لیجیے، کیا سارے سوال دروازے پر پوچھ کر رخصت کرنے کا ارادہ ہے!‘‘ ذیشان بھائی نے میرا ہاتھ دباتے ہوئے کہا تو مجھے احساس ہوا کہ میں دروازے پر ہی سب پوچھنے لگ گیا۔
’’جی جی بھائی، آیئے اندر آیئے۔‘‘
’’سجاد بھائی! ہمارے مکان کی چھت گر گئی ہے، اس کی مرمت تک ہم یہاں رہ سکتے ہیں؟‘‘
’’جی آپا جان آپ کا اپنا گھر ہے۔‘‘ میں نے آپا کو تو تسلی دے دی، پَر خیال آیا میری بیوی روایتی بیویوں کی طرح کوئی ہنگامہ نہ مچا دے۔ مگر میں غلط تھا۔ عائشہ ایک سادہ مزاج اور بہت ہی سمجھ دار بیوی ثابت ہوئی۔ اماں، ابا کا خیال رکھتی، بہنوں سے ایسے پیش آتی جیسے ہمیشہ سے ہمارے ساتھ ہی رہتی
ہو۔ کبھی ان کی پڑھائی میں مدد کرتی، کبھی مزے مزے کے کھانوں کی ترکیب سکھاتی، کبھی سب کو بٹھا کر قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر سناتی، اور پھر یہ سب ہمارا معمول بن گیا۔ ابا جان بھی مسجد سے آکر کوئی نہ کوئی اچھی بات یا حدیث کا مطالعہ کرتے اور سب ایسے وقت نکالتے جیسے یہ ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ شروع میں تو مجھے لگتا تھا یہ سب اچھا بننے کا ڈھونگ ہے، پَر عائشہ کے مستقل رویّے نے میری سوچ کو بدل ڈالا۔ گھر کا ماحول پُرسکون تھا، ایسے میں آپا کے یوں آجانے پر سب خراب نہ ہوجائے۔ پھر میں نے سوچا جیسے تیسے کچھ دنوں کے لیے عائشہ کو سمجھا لوں گا۔
کمرے میں داخل ہوا تو عائشہ کمرے میں کہیں نظر نہ آئی۔ دیکھا تو محترمہ، آپا کو چائے پیش کررہی تھیں۔ ’’لیجیے آپا! چائے، اور بتائیں کھانا کھایا آپ لوگوں نے؟‘‘
’’جی بھابھی ہم کھانا کھا کر آئے ہیں۔‘‘
’’آپا! کیسے ہوا یہ؟‘‘
’’کیا بتائوں عائشہ! وہ تو شکر ہے ہم لوگ گھر پر موجود نہیں تھے تو یوں اس حادثے سے بچ گئے، ورنہ جانے کیا ہوتا ہمارا۔‘‘
’’اللہ آپ کو سلامت رکھے آپا۔ آپ بالکل پریشان نہ ہوں، جب تک چھت کا کام نہیں ہوجاتا آپ لوگ آرام سے یہاں رہیے، اِن شاء اللہ جلد سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
میں جس کی امید بھی نہیں کرسکتا تھا وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا، اور میں جیسے شرمندہ سا ہوگیا اپنی نظروں میں۔
’’یااللہ! کیسی نیک بیوی عطا کی ہے مجھے۔ پروردگار! میں تو اس قابل بھی نہ تھا جتنا کرم تُو نے کیا۔‘‘ میں دل ہی دل میں اللہ کا شکر گزار ہورہا تھا۔

حصہ