صبح امید

243

کشمیر کی فضائوں میں فجر کی اذان گونجی تو احمد صاحب اپنی بیگم اور بیٹی کو اٹھاتے ہوئے وضو کرنے چل دیے۔ دادا پہلے ہی وضو کرکے تخت پر بیٹھ چکے تھے۔ ضعیفی کے پیش نظر وہ سردیوں میں گھر پر ہی نماز ادا کرلیا کرتے تھے۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے احمد صاحب نے بیگم سے کہا ’’ذرا دیر سے آئوں گا، تم ناشتا تیار رکھنا، ساتھ ہی کریں گے۔‘‘
وضو کرتی ثمینہ بیگم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ لوگ ناشتے پر احمد صاحب کا انتظار ہی کرتے رہ جائیں گے۔
نماز سے فارغ ہوکر باہر نکلتے ہوئے احمد صاحب نے امجد صاحب سے کہا ’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، مسجد کا کام بارش سے پہلے ہی کروا لینا چاہیے ورنہ چھت ٹپکنے کا خدشہ ہے۔‘‘ ابھی وہ کچھ اور کہتے کہ پیچھے سے بھارتی فوجی نے احمد صاحب کے سر پر کلاشنکوف کا دستہ مارا اور غرایا ’’ہماری کئی دنوں سے تم پر نظر ہے، ہمارے خلاف دہشت گردی کی سازش تیار کروگے!‘‘
امجد صاحب احمد صاحب کو اٹھانے آگے بڑھے، ساتھ ہی بولے ’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، ہم تو…‘‘ بھارتی فوجی نے ان کو ٹھوکر مار کر پیچھے کیا اور دھاڑا ’’ڈالو اسے جیپ میں، اور جائو۔ اس کو سزا ملنی چاہیے تاکہ کوئی آئندہ ایسا سوچ بھی نہ سکے۔‘‘
باقی سب روکتے رہ گئے مگر وہاں سننے والا کوئی نہ تھا، اور اُس دن کے بعد سے احمد صاحب کوکسی نے نہیں دیکھا۔
اور آج احمد صاحب کو گئے پورا ایک سال بیت چکا تھا۔ سمیر کو صبح سے شدید بخار تھا، کرفیو کی وجہ سے دوا لانا مشکل تھا۔ نسرین نے فکرمندی سے اس کو دیکھتے ہوئے ڈائری نکالی اور پینسل گھسیٹنے لگی۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ اپنے بابا کو خط لکھ رہی تھی:
’’پیارے بابا جان!السلام علیکم
آج آپ کو گھر سے گئے پورا ایک سال ہوچکا ہے۔ ہمیں آپ کا انتظار ہے۔ ہم ہر صبح اس امید پر بیدار ہوتے ہیں کہ آج آپ آن ملیں گے، اور ہر رات اسی امید پر سوتے ہیںکہ صبح آپ آجائیں گے۔ سمیر کو شام میں اچانک تیز بخار چڑھا اور مزید تیز ہوتا جارہا ہے۔ کرفیو کی وجہ سے دوائی لانا مشکل ہے۔ اگر آپ ہوتے تو دوائی کا انتظام کرلیتے۔ ہمیں آپ کی بے حد ضرورت ہے۔ بابا! کل امجد چچا نے پھر احتجاجی مظاہرے کا انتظام کیا ہے، ہم بھی جائیں گے اور مجھے امید ہے اِس بار آپ کا اور باقی لاپتا افراد کا سراغ مل جائے گا، ان شاء اللہ۔‘‘
لکھتے لکھتے اس کی آنکھوں میں امید کی کرن جاگی اور مایوسی کی جگہ حوصلے نے لے لی۔ اب اس کو آنے والی صبحِ روشن کا انتظار تھا۔

حصہ