اس کے گھر میں کچھ چیزیں حیران و پریشان کردینے والی تھیں۔ پریشان کردینے والی بات یہ تھی کہ قرآن کا ایک نسخہ کچن میں رکھا تھا جس پر تیل کے نشانات نمایاں تھے، اور جیسے اسے بار بار گیلے ہاتھوں سے بھی پکڑا گیا ہو۔ دوسرا نسخہ باہر باغیچے کے ایک کونے میں لگی تختی پر رکھا تھا۔ اس کے اوراق بھی پژمردہ سے تھے۔ ایک نسخہ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر تھا تو ایک لاؤنج میں۔ اور یہ سب ہی ایسی جگہیں تھیں جہاں بچے بآسانی پہنچ سکیں۔ یقیناً کئی مرتبہ پیٹھ ہوجاتی ہوگی، بے ادبی ہوتی ہوگی، اور بچے بھی عام کتاب کی طرح اٹھا لیتے ہوں گے، اسے ذرہ برابر احساس نہیں۔ دل میں غبار سا اٹھا، چہرہ متغیر ہوگیا، اس نے مصروفیت کے باوجود شاید مسئلہ بھانپ لیا، تبھی بولی: ”دراصل بچے چھوٹے بڑے سبھی ہیں اور بڑا خاندان ہے، بے تحاشا مصروفیات کے باعث ایک جگہ بیٹھ کر قرآن سے استفادے کا موقع ہی نہیں ملتا، اس لیے جگہ جگہ قرآن رکھ دیئے ہیں، جہاں ذرا گنجائش ملتی ہے اٹھاکر رہنمائی لے لیتی ہوں، دراصل باجی! مسئلے بھی تو دن میں ہزاروں طرح کے پیش آتے ہیں اور حل بھی اس میں ہی ہے۔“ میں کچھ سمجھ نہیں پائی، وہ گویا ہوئی: ”باجی! اللہ نے قرآن کریم میں ہر مسئلے کا حل بتایا ہے، یہ بات میرے ابا نے مجھے بچپن میں بتائی تھی، انھوں نے کہا تھا کہ اس سے دوستی کرلو، ہر معاملے میں اس سے پوچھا کرو، یہ کتاب تمھیں جواب دے گی، تمھارا ہر مسئلہ حل کرے گی۔ بس تب سے ہی یہی سہیلی ہے میری۔ میں اسی سے پوچھتی ہوں سب کچھ، اور یہ ہر مسئلہ حل بھی کردیتی ہے۔ کئی مسئلے تو چند آیات سے ہی سلجھ جاتے ہیں۔ ان آیات پر میں نے ریڈ مارکنگ کی ہوئی ہے، جب مسئلہ پیش آئے تو ان ساری آیات کو جلدی سے کھنگال لیتی ہوں، کبھی دو دو دن بھی لگ جاتے ہیں ڈھونڈنے میں، اور کبھی کھولتے ہی میرے مسئلے کا حل سامنے ہوتا ہے۔ کبھی حل کسی جگہ چھپا ہوتا ہے، ڈھونڈنا پڑتا ہے، دعائیں کرنا پڑتی ہیں، تب حل سامنے پاکر میرے آنسو بہنے لگتے ہیں رب کی محبت میں، اس کی عنایت پر، کہ معمولی سی بندی کو وہ اپنے کلام تک رسائی دے دیتا ہے۔ بس باجی! اسی لیے ان نسخوں کی یہ حالت ہے۔ اللہ تو جانتا ہے نا مجھے کہ میرے دل میں اس کے کلام کا مقام کیا ہے۔ میری مصروفیت اور میری مجبوریوں کو بھی وہی تو دیکھتا ہے“۔ ”کیسے تمھارے مسئلوں کو حل کرتا ہے یہ کلام؟“ میرے سوال میں اشتیاق کا سمندر پنہاں تھا۔ اس نے قرآن کو عقیدت سے اٹھایا، پیار اور جذب کے ساتھ سینے سے لگایا، اور جیسے کہیں کھو سی گئی، اسی کیفیت میں بولی: ”کل ہی میری نند آئی ہوئی تھی، کھلا پلا کر کچن سمیٹ کر نکل رہی تھی کہ اس کی کچھ باتیں کانوں میں پڑیں۔ غصے نے فوراً ہی حملہ کیا، اتنی مشقت اور پھر یہ جزا..؟ ایسے میں قرآن کھولا، ایک آیت سامنے تھی:
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَ-نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ(96)
(ترجمہ)”سب سے اچھی بھلائی سے برائی کو دفع کرو۔ ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ کررہے ہیں ۔“
دل پر پھایا رکھ دیا ہو جیسے کسی نے۔ میرے رب نے بڑے پیار سے بتادیا تھاکہ میں جانتا ہوں جو باتیں یہ کررہے ہیں۔
کل ہی میں اپنے لیے بُندے لائی تھی، جاکر نند کو پہنا آئی۔ اُس کی حالت دیکھنے والی تھی، وہ کچھ دیر دیکھتی رہی، پھر رو پڑی۔ میں نے اسے گلے لگالیا۔ بولی: بھابھی! سسرال کے منفی ماحول نے مجھے ایسا بنادیا ہے، معاف کردیجیے گا مجھے، آپ واقعی بہت اچھی بھابھی ہیں، بہنوں سے بھی بڑھ کر، اللہ خوش اور آباد رکھے۔ مجھے عجیب سی سرشاری ملی۔ آج جب آپ آئیں تو میں کھانا بنا چکی تھی، دل میں خیال آیا کیسے پورا ہوگا؟ قران کھولا، لکھا تھا:
لَئِنْ شَكَـرْتُـمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُـمْ اِنَّ عَذَابِىْ لَشَدِيْدٌ(7)
(ترجمہ)”اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔“
اس میں ہدایت بھی تھی اور تنبیہ بھی، میں کانپ گئی کہ مہمان تو رحمت ہیں، اس رحمت پر ناشکری بنی۔ اس بروقت عنایت پر شکر ادا کیا، فریج میں دیکھا مٹر رکھے ہیں، چاول نکالنے لگی کہ پڑوس سے بریانی کی ڈش آگئی، میاں آفس سے آتے حلیم ساتھ لیتے آئے، یعنی اللہ نے فوراً ہی مسئلہ حل کردیا تھا۔ میں نے رجوع جو کرلیا تھا اس سے۔ امی، ابا، بہنوں کی بہت لاڈلی تھی، سسرال آتے ہی کئی ذمہ داریاں آ پڑیں۔ جو کرتی، الٹا ہوجاتا۔ تب چپکے سے قرآن کھولا، دیکھا کئی انبیاء کے قصے سامنے آتے جارہے ہیں، اور میں پڑھتی چلی گئی۔ کن کن مراحل سے نہ گزرے تھے وہ۔ مشقت، پریشانیاں، آزمائشیں.. کبھی مال، کبھی جان، کبھی دل پر وار۔ حضرت نوح علیہ السلام کے قصص نے تو رونگٹے کھڑے کردیے کہ انھوں نے مشکلات کے پہاڑ سر کرلینے کے بعد بڑی دردمندی سے رب کو پکارا تھا:
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّ نَهَارًاۙ(5)فَلَمْ یَزِدْهُمْ دُعَآءِیْۤ اِلَّا فِرَارًا(6)وَ اِنِّیْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوْۤا اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَ اسْتَغْشَوْا ثِیَابَهُمْ وَ اَصَرُّوْا وَ اسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًاۚ(7)ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُهُمْ جِهَارًاۙ(8)ثُمَّ اِنِّیْۤ اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَ اَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًاۙ(9)
(ترجمہ)”عرض کی: اے میرے رب!بیشک میں نے اپنی قوم کو رات دن دعوت دی۔تو میرے بلانے سے ان کے بھاگنے میں ہی اضافہ ہوا۔اوربیشک میں نے جتنی بار انہیں بلایاتا کہ تُوانہیں بخش دے توانہوں نے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ڈال لیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اوروہ ڈٹ گئے اور بڑا تکبر کیا۔پھر یقیناً میں نے انہیں بلند آواز سے دعوت دی۔پھر یقیناً میں نے ان سے اعلانیہ بھی کہا اور آہستہ خفیہ بھی کہا۔“
کیا ہی درد تھا، کیا ہی کیفیت تھی کہ نبی کریمؐ نے اپنی کوشش کی انتہا کرڈالی، بدلے میں وہی کانٹے اور انکار، کلیجہ چیر دینے والا انداز.. لیکن میں سمجھ نہیں پارہی تھی کہ اس میں میرے مسئلے کا حل کہاں ہے؟ میرے رب مجھے کیا بتانا چاہ رہے ہیں؟ لہٰذا دعا کی ”میرے رب مجھے سمجھا دیجیے، کم فہم ہوں“، مجھے لگا میرے رب کو مجھ پر پیار آگیا اور میں یکدم سرشار ہوگئی کہ میرا رب مجھے بتانا چاہ رہا ہے کہ ہر بڑی منزل کا راستہ ہمیشہ کٹھن ہوتا ہے اور نتیجہ شاندار۔ اپنی عزیز ترین ہستیوں کے لیے اللہ نے الم اور مصائب کو چُنا تو مطلب یہ ہے کہ انھی مصائب اور مشکلات میں ہیرے چھپے ہیں، اسی لیے اللہ نے نبیوں کو صبر کا حکم دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تاکید فرمائی کہ صبر اور نماز سے مدد لو۔ معلوم ہوا کہ اسی میں اصل طاقت چھپی ہے۔ بس پھر کیا تھا میرے اندر بجلی سی بھر گئی، ماہ و سال کیسے شاندار گزرے بتا نہیں سکتی، کہ مشکلات کو دیکھنے کا زاویہ جو بدل گیا تھا۔ تب میں نے یہ بھی سوچا کہ گھر کے کاموں میں ایسا کیا ہے کہ یہ مشقتیں بلند منازل کا پیش خیمہ ہوں؟ کچھ دن غورو فکر اور دعاؤں سے یہ نکتہ بھی واضح ہوگیا کہ رب کریم نے آنے والے دور میں کئی قیمتی امانتیں مجھے عطا کیں اور مشقتوں کے ذریعے ان امانتوں کے لیے مجھے تیار کیا گیا تھا۔ روزانہ میرے سوال اور قرآن کے جواب.. اور یہ سلسلہ کبھی رکتا نہیں، ہاں اب ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ مسئلے بچوں سے ڈسکس کرتی ہوں اور پھر سب تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ کبھی بچے خوشی سے بتاتے ہیں کہ دیکھیں امی! میرا مسئلہ یہ تھا اور اللہ نے اس کا یہ جواب دیا ہے۔ ان کے ننھے ننھے سوالات، ان کی سمجھ کے مطابق جوابات سارا ماحول معطر کردیتے ہیں۔ باغیچے میں رکھے قرآن میں لگے سب نشانات بچوں کے لگائے ہوئے ہیں، ہر ایک نے اپنا رنگ طے کر رکھا ہے، کبھی مقابلہ کرتے ہیں کہ دیکھو میرے زیادہ مسئلے حل ہوئے ہیں، دیکھو میرے نشانات زیادہ ہیں۔
کووِڈ میں میاں کا کام چھُوٹا۔ بڑی پریشانی ہوئی۔ باغیچے میں آئی تو بچے اس پریشانی کا حل ڈھونڈ رہے تھے۔ میں نے بھی قران کھولا، لکھا تھا:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(10)یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ(11)وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا(12)
(ترجمہ) ”تو میں نے کہا: (اے لوگو!) اپنے رب سے معافی مانگو، بیشک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے،وہ تم پر موسلا دھار بارش بھیجے گااور مالوں اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا، اور تمہارے لیے باغات بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔
استغفار کرو، بدلے میں تمھیں بارش بھی دوں گا۔مال اور اولاد کو بڑھاؤں گا۔اور باغات اور نہریں عطا کروں گا ۔“
میں تو حیران رہ گئی، استغفار کے اتنے فائدے! سب گھر والے جمع تو تھے ہی، ایک دوسرے سے معافی تلافی کی، پھر سوچ سوچ کر ہر اُس شخص سے معافی مانگی جس سے گمان تھا کہ ہم نے کوئی زیادتی کی ہوگی۔ بچوں نے اپنے ساتھیوں سے معافی مانگی، ساتھ ہی سب نے زبان سے بھی استغفراُللہ کہنا معمول بنایا، سید الاستغفار کا بھی ورد رہا۔ آپ یقین جانیں، تین دن کے اندر ہی اس کے اثرات ظاہر ہونے شروع ہوگئے۔ ایک خاندان عرصے سے ناراض تھا، معافی تلافی کے بعد وہ سب گھر آئے۔ باتوں باتوں میں ایک عزیز نے لیدر کمپنی کی پوسٹ خالی ہونے کا ذکر کیا، میاں گئے اور ان کے تجربے کی بنیاد پر تین گنا تنخواہ اور کئی سہولیات کے ساتھ ان کو یہ نوکری مل گئی، اور ناراض لوگوں کے راضی ہونے سے جو سکون ملا، اس کا تو اندازہ ہی نہیں… گویا کئی برکتوں کی بارش اور خوشیوں کے باغ ہاتھ آگئے۔“
وہ بہت سادگی سے قرآن کو سینے سے لگائے بولتی جارہی تھی، اور میں سحر زدہ، کہ روشنی سے میری آنکھیں چندھیا رہی تھیں، شرمندگی سوا تھی۔ قرآن سے ایسا تعلق بھی ہوسکتا ہے میں نے سوچا نہ تھا، اور نہ ہی ایسی رہنمائی میسر تھی۔ دل کا غبارِ ندامت کے آنسوؤں میں ڈھل کر بہہ نکلا۔ کاش قرآن کے ظاہری رکھ رکھاؤ کے بجائے توجہ اس کے اصل پیغام پر دی ہوتی تو یہ شعور اور قرب میرے حصے میں بھی آتااور آج یوں دکھوں کی گٹھڑیاں سینے سے لگائے نہ پھر رہی ہوتی۔مجھے اچانک ہی لگا اوپر بہت اوپر رکھا قرآن مجھ سے ناراض سا ہے۔