ایک بے روزگار شخص حالات سے تنگ تھا۔ ایک درگاہ پر چلا گیا اور درگاہ کی صفائی کرنے لگا۔ وہ وہیں لنگر سے کھانا کھا لیتا اور ایک کونے میں سوجاتا۔ درگار کا متولی روز اس کو دیکھتا۔ اس کی محنت اور لگن دیکھ کر متولی نے اس کو مرید بنا لیا۔ کچھ عرصہ گزرا تو اس مرید نے ترقی کی، اور یوں وہ متولی کا خاص الخاص مرید بن گیا، یعنی مجاور کا رائٹ ہینڈ۔ کچھ عرصے بعد مرید نے پیر صاحب سے کہا کہ بہت عرصہ ہوا گھر سے نکلا ہوا ہوں، ماں باپ کی خبر نہیں، اگر اجازت ہو تو گھر والوں سے مل آئوں؟ پیر صاحب نے نہ صرف اجازت دے دی بلکہ اپنی خاص گدھی سواری کے لیے بھی دے دی۔ مرید گدھی پر سوار ہوکر روانہ ہوا۔ گرمی کا موسم تھا۔ گدھی گرمی سے گری اور مر گئی۔ مرید کو بہت رنج ہوا ایک پیر صاحب کی گدھی کے مرنے کا، دوسرا بقیہ سفر پیدل طے کرنے کا سوچ کر۔اس نے گدھی کو ایک گڑھا کھود کر دفن کیا، تھکن سے چور ہوا تو وہیں سوگیا۔ آنکھ کھلنے پر کیا دیکھتا ہے کہ اس گدھی کی قبر کے ساتھ کچھ رقم پڑی ہوئی ہے۔ اس نے سوچا یہ تو آمدن شروع ہوگئی، یہیں پڑا رہتا ہوں۔ دوسری جانب جب مرید بہت عرصے تک واپس نہ آیا تو پیر صاحب مرید کی تلاش میں نکل پڑے۔ سفر کے دوران ایک نئے مزار پر نظر پڑی تو سوچا سلام کرنا چاہیے اور کچھ دیر آرام بھی۔ مزار پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کی متولی انہی کا مرید خاص ہے۔ مرید نے پیر صاحب کا گرم جوشی سے استقبال کیا، خوب آئو بھگت کی۔ رات کو جب دونوں تنہائی میں بیٹھے تو پیر صاحب نے پوچھا ’’یہ بتائو صاحبِ مزار کون سی ہستی ہے؟‘‘ مرید بولا ’’حضرت ہستی وستی کوئی نہیں، آپ کی گدھی دفن ہے‘‘۔ اس پر پیر صاحب نے ایک قہقہہ لگایا۔ مرید کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ یہ نسل ہی بڑی برکت والی ہے، جہاں میں براجمان ہوں وہاں اس کی ماں دفن ہے۔ (مرسلہ: سیِما حفیظ)