رب ہی جانے

247

اس نے گھڑی پر نظر ڈالی، ہمیشہ کی طرح آج بھی دفتر کی گاڑی وقت پر نہ آئی۔ وہ پریشانی کے عالم میں بار بار دروازے کی طرف دیکھتی۔ دفتر پہنچ کر حاضری لگوانا کتنا ضروری تھا، اور پھر آج تو میٹنگ بھی تھی۔ اس نے بیگ سنبھالا اور نکل کھڑی ہوئی۔
گیٹ سے نکلی ہی تھی کہ اس کی پڑوسی شادمان نے بریک لگاتے ہوئے گاڑی اس کے سامنے روک دی۔ ’’کیا بات ہے، کیا پیدل آفس جائو گی؟ آئو میں تمہیں ڈراپ کردیتی ہوں۔‘‘
’’اللہ بھی کیسے مدد کرتا ہے…‘‘ اس نے لفٹ کو غنیمت جانا اور فوراً ہی ساتھ کی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ ابھی چند منٹ کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔
’’اُف…‘‘ شادمان نے ڈیش بورڈ کو دیکھتے ہوئے سر پکڑ لیا۔ وہ پیٹرول ڈلوانا بھول گئی تھی اور سرخ لائٹ بتا رہی تھی کہ گاڑی دَم توڑ چکی ہے۔
راستے میں کھڑی گاڑی کو دیکھ کر فضل دین قریب آیا ’’میڈم میں آپ کی گاڑی کو دھکا لگاکر کنارے کیے دیتا ہوں، پھر حکم کریں کیا مدد کرسکتا ہوں!‘‘
شادمان نے بے چارگی کے اس عالم میں ایک اجنبی کا مدد کو آجانا غیبی مدد سے کم نہ جانا اورفوراً بولی ’’بھائی! یہ ڈبہ لو، اس میں مجھے کہیں سے اتنا پیٹرول لا دو کہ میری گاڑی حرکت کرسکے، اور ہاں یہ لو‘‘۔ اس نے پیشگی ایک ہزار کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھمایا تو فضل دین کے آنسو بہہ نکلے۔
’’کتنے دن سے دیہاڑی کی آس میں مارا مارا پھر رہا تھا، گھر جاتا تو بچوں کی صورت نہ دیکھی جاتی۔ جب سے لاک ڈائون ہوا تھا گھر کا راشن پانی ہی لاک ہوگیا تھا۔ قدرت کو رحم آیا تو کیسے میڈم کے ذریعے گھر کا چولہا بھی روشن ہوگیا۔
فضل دین پیٹرول لے کر آیا تو خاصی دیر ہوچکی تھی۔ اب آفس، میٹنگ سب بے معنی تھیں۔ فضل دین کو خوش کرکے وہ آفس تو پہنچ گئی، لیکن یہ اس کا آخری دن تھا۔ اسے نوکری سے نکالا جا چکا تھا۔ تھکے تھکے قدموں سے گھر لوٹی۔ شادمان دروازے پر ہی مل گئی۔ چہرے کی اداسی دیکھ کر وہ سمجھ گئی تھی۔ لیکن قدرت تو اس کے لیے کوئی اور دروازہ کھول چکی تھی۔ شادمان اپنی فرم میں اسسٹنٹ کے لیے آفر دے رہی تھی۔
یوں گھر آکر کوئی اسے پیشکش کرے گا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ نوکری چھوٹنے کا ملال خوش کن مستقبل میں بدل بدل چکا تھا۔
نئی ملازمت میں اسے جگہ بنانے میں دیر نہ لگی۔ اس کے کام سے سب مطمئن اور خوش تھے۔ اب دفتر میں بیٹھی وہ آفس ورکرز کی نئی بھرتی کی اسکیم بنا رہی تھی۔ اس کے ذہن میں فضل دین کا خیال آیا۔ آنسوئوں سے بھری مجبوری کی داستان سناتی وہ آنکھیں وہ بھولی نہیں تھی۔ گھر آئی تو کچن کی حالت دیکھ کر سمجھ گئی کہ آج پھر ملازمہ نے چھٹی کی ہے۔ بہت دنوں سے وہ کہیں اور ملازمت پکی کرکے جانے کے لیے پَر تول رہی تھیں۔ اسی اثنا میں دروازے پر آہٹ ہوئی، کریمہ اپنے ساتھ کسی ادھیڑ عمر عورت کو لیے چلی آرہی تھی۔ اس کی سفارش اور اپنی مجبوری پر اس خاتون کو متبادل کے طور پر ملازمہ منظور رکھ لیا۔ لیکن وہ مستقل دیر سے آتی یا چھٹی کرلیتی۔ شہر کے حالات اچھے نہیں تھے، اس کا گھر کہیں دور تھا، لہٰذا آنا جانا دشوار تھا۔ ’’کل جب تمہارا شوہر لینے آئے تو مجھے بتانا، اور ہاں اپنا بندوبست کر لو، میرے ساتھ گزارا مشکل ہے۔‘‘
ملازمہ کی آس توڑتے ہوئے اُس نظر ملازمہ کے خاوند پر پڑی… ارے یہ تو فضل دین ہے! وہ حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ فضل دین آج بھی اُسی دن کی طرح آزردہ تھا۔ اس نے روکا اور فضل دین کو اپنے آفس میں بھرتی کرنے کا مژدہ سنا دیا۔
کیا فضل دین کو روزی دینے کا بہانہ اس کی آس کا ٹوٹنا تھا! اللہ کی حکمتوں اور مصلحتوں پر اسے انتہائی پختہ یقین ہوچکا تھا۔ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، رب کے فیصلے رب ہی جانے۔

حصہ