جملہ پڑھتے ہی لگتا ہے کہ یہ بیانیہ خاصا پرانا ہوچکا ہے اب تو میرا جسم میری مرضی کا زمانہ ہے ۔۔اس نے مضمون کا عنوان دیکھ کر اسے پڑھنے کا ارادہ ملتوی کرتےہوئے وہ کام نکالا جو اسے آج ہر حال میں مکمل کرنا تھا۔ایک اشاعتی ادارے میں پروف ریڈر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے اسے ابھی چند ہی ماہ ہوئے تھے،نئی نئی یونیورسٹی سے فارغ ہوئی تھی اور دوسروں کی طرح اسے بھی اپنی تعلیم کا صحیح استعمال نوکری ہی لگتا تھا۔آفس میں ایک ایوارڈ شو کا بڑا چرچا تھا جو اگلے چند دنوں میں ایک مشہور ہوٹل میں ہونے جا رہا تھا اور لوگ اس کے دعوت نامے حاصل کرنے کے لیے مرے جارہے تھے۔دوسروں کی طرح اسے بھی ٹی وی اور فلم کے اداکاروں کو قریب سے دیکھنے کا بڑا شوق تھا اس لیے جب اسے اس فنگشن میں شرکت کی دعوت ملی تو فوراً پلاننگ شروع کردی ۔ایوارڈ شو کیا تھا، رنگ برنگے پیرہنوں کا ایک اژدہام تھا، روشنی اور خشبوؤں کا ایک سیلاب تھا ،ہر شخص ہی اپنی جگہ ایک سیلبریٹی لگ رہا تھا۔ فلم اور ٹی وی کے ستاروں کو اتنے قریب سے دیکھنا اپنے اندر ایک الگ ہی سحر رکھتا ہے۔پروگرام کے دوران کھانے پینے کا دور بھی چل رہا تھا ،ویٹر اس کے سامنے بھی ٹرے لایا جس میں کئی طرح کے اسنیکس اور ڈرنکس موجود تھے ،اس نے ایک خوش نما شربت اٹھا یا۔ برابر میں بیٹھی ہوئی خاتون نے بیرے کو کہا “ون شیری پلیز” اور وہ جو گھونٹ منہ میں لے چکی تھی اب اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے اگلے یا نگلے۔۔یا اللہ ،یہ کیا تھا جو اس نے پیاتھا،مدھم لائٹوں کا فائدہ اٹھا کر اس نے اس بدذائقہ مشروب سے جان چھڑائی اور اب اسے بس گھر جانے کی فکر لگی تھی۔گھر پر اس نے جب یہ احوال سنایا تو اس کی امی نے کہا کہ چلو ہماری کوئی نیکی کام آ گئی اور کوئی حرام چیز تمہارے خون میں شامل نہیں ہوئی۔بات آئی گئی ضرور ہوگئی لیکن اس کے لیے سوچ کا ایک در وا کر گئی کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لیکن کیا یہاں اسلامی اقدار ہیں ۔جب اس نے اس عینک سے ارد گرد دیکھنا شروع کیا تو اسے سب سے پہلے اپنا آپ نظر آیا ،ایک مخلوط تعلیمی ادارے سے فارغ ،وہ بھی بس اتنا ہی پردہ کرتی تھی جتنا فی زمانہ درکار ہےلیکن دفتر کے ماحول اور میل اسٹاف کی نگاہوں نے اکثر اسے یہ احساس دلایا تھا کہ اس کا دوپٹہ پردے کے اعتبار سے ناکافی ہے وہ کہتے ہیں ناں کہ “چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی ” تو وہ بھی سر ڈھانپنے کا بس سوچ کر ہی رہ جاتی تھی اور پھر معاملہ ٹل جاتا۔آفس میں ایک نئے فرد کا اضافہ ہواتھا دیکھنے میں خاصے شریف لگتے تھے اور نام بھی شرافت تھا لیکن تھے بہت باتونی،مارچ کے مہینے میں غلغلہ اٹھا عورت مارچ کا تو اس نے بھی اپنی ذہنی استعداد کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بس بینر اٹھا کر ریلی میں شریک ہونے کی کسر رہ گئی تھی ۔شرافت صاحب نے ایک دن فرصت پا کر اسے آ گھیرا،بولے۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے کہ وہ کون سے حقوق ہیں جن کے لیے تم لوگ ریلیاں نکالتے ہو،جواب میں اس نے رٹے رٹائے جملے دہرانے شروع کردیے تو شرافت صاحب نے اسے روکا اور کہا کہ اسلام کے آتے ہی یہ سارے حقوق تو کئی سو سال پہلے ہی عورتوں کو مل چکے ہیں، اب کیا چاہیے۔۔اس نے پھر اپنے موقف کا دفاع شروع کیا تو شرافت صاحب نے کہا کہ میں تمہیں ایک کتاب دیتا ہوں اس کا پہلا صفحہ ہی اس بات کا تعین کر دے گا کہ تمہیں اسے پڑھنا ہے یا نہیں ،شکریہ کہہ کر اس نے وہ کتاب لے لی ۔ جب فارغ ہوکر اسے پڑھنا شروع کیا تو لگا کہ کسی نے اسے آئینے کے سامنے کھڑا کردیا ہے جس میں اس کا عکس خاصہ بدنما دکھائی دے رہا تھا۔وہ کیا تھی؟اس کے اندر کوئی بھی ایسی خوبی نہیں تھی جس کا تقاضہ اس کارب،اس کادین کرتا ہے،پانچ وقت نماز پڑھ کر قرآن کی تلاوت کر کےاپنے تئیں وہ سارے فرائض مکمل کررہی تھی لیکن کیا اپنے رب کے حضور پیش کرنے کے لیے یہ سب کافی تھا؟اسے شوبز کی چکاچوند اچھی لگتی تھی ،گھریلو تقریبات میں مخلوط محافل اور گانے بجانے کا حصہ بننے پر بھی اسے کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن جب کوئی میل کولیگ یا کزن حد سے تجاوز کرے تو اسے برا بھی بہت لگتا تھا،اب کیا کیا جائے،وہ کتاب تو اس نے اگلے دن لے جاکر شرافت صاحب کو واپس کردی لیکن اس کی خاموشی نے انہیں یہ ضرور سمجھا دیا کہ کہیں نا کہیں ضرب بڑی کاری لگی ہے اور یوں انہوں نے اس پر کام شروع کردیا ،وہ اٹھتے بیٹھتے اسے یہ احساس دلاتے تھے کہ نوکری کرنا اگر تمہاری ضرورت ہے تو الگ بات ہے لیکن اگریہ شوق ہے تو تمہاری صحیح جگہ گھر کی چار دیواری ہے،پتھر پر بھی بوند مستقل پڑے تو گڑھا بن جاتا ہے اسکا بھی دوپٹہ کندھوں سے اونچا ہوکر سر پر آگیا ،اسے اندازہ ہوا کہ لوگوں کی نظر میں اس کا احترام بڑھ گیا ہے ۔
اس کے پسندیدہ گلوکار کا کنسرٹ تھا اور تمام سہلیاں جانے کوتیار تھیں ،کنسرٹ شروع ہوا ، سب بہت انجوائے بھی کر رہے تھے کہ اگلی نشستوں پر کچھ نوجوان جھگڑ پڑے اور پھر سارا ہجوم جیسے بے قابو ہوگیا۔ لڑکیوں نے پنڈال سے باہر نکلنے کو کوشش کی لیکن مجمع تھا کہ کسی صورت راستہ دینے کو تیار نہیں تھا اس دھکم پیل میں کبھی اسے نامحرموں کے ہاتھ چھو رہے تھے توکبھی اس کا دوپٹہ کھینچا جارہا تھا،اپنے کپڑوں کو پھٹنے سے بچانے کے لیے اسے باقاعدہ جنگ کرنی پڑی ،اس وقت اس نے بڑی شدت سے اللہ کو یاد کیا اور کہا کہ یہاں سے بخیر و عافیت نکل جاؤں تو آئندہ ایسی کسی سرگرمی کا حصہ نہیں بنوں گی۔اللہ کے کرم سے وہ صحیح سلامت گھر پہنچی ۔اگلے دن کے اخبارات اس واقعے کی تشہیر کررہےتھے،شرافت صاحب نے اس سے پوچھا کہ “ارے تم بھی تو گئیں تھیں ،پھر آیا مزہ”وہ کیا بتاتی ،صرف اللہ سے کیا گیا اپنا وعدہ ہی دہراپائی تب شرافت صاحب نے اسے جرمنی کی مروہ الشربینی کاقصہ سنایا کہ اپنی حیا اور حجاب کی حفاظت میں اگر جان بھی چلی جائے تو رب کے یہاں یہ قربانی ضائع نہیں ہوگی ، بعد میں وہ جتنا اس واقعہ پر سوچتی ،یہ احساس ندامت بڑھتا جاتا کہ اسے تو اللہ رب العزت نے نازک اور قیمتی بنایا تھا ،اسے فکر معاش سے آزاد کیا تھا،اسے اپنی ایک صفت تخلیق کرنا عطا کی تھی ،اسےنسلوں کی پرورش سونپی تھی ،اسے تحفظ دے کر اس کا تقدس بڑھا یا اور وہ اپنی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں کر پائی۔ اسے یاد آیا کہ نبی آخرزماںﷺ نے کہا تھا کہ جب تم حیا نہ کرو تو جو دل چاہے کرو۔اب اسے احساس ہورہا تھا کہ مغرب کپڑے کے اس چھوٹے ٹکڑے سے اتنا خوف زدہ کیوں ہے،یہ پردہ تو بنیادی طور پر اس کی ڈھال تھا جسےاس نے بوجھ سمجھ لیا۔یہ حیا تو اس کا زیور تھی گلے کا طوق نہیں ۔اب اللہ سے کیا ہوا وعدہ نبھانے کا وقت آگیا تھااس دن وہ بہت شان سےآفس جانے کے لیے تیار ہوئی ،اپنا خوبصورت عبایہ زیب تن کیا اور چہرے کو ڈھانپتے ہوئے اسے لگا کہ مروہ اسے دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔آج اس نےاپنے رب سے ایک وعدہ اور کیا کہ وہ اس تصور کو بدلنے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں استعمال کرے گی کہ حجاب میں ملبوس عورت زمانہ جاہلیت کی عکاس ہے،زمانہ جاہلیت کی عکاس تو وہ عورت ہے جسے ماڈرن ازم کے نام پر شمع محفل بنا دیا گیا ہے ،اس پر معیار ِزندگی بلند کرنے کے لیے فکر معاش کی دوڑ میں جوت دیا گیا ہے اور اسے خبر بھی نہیں۔اللہ تعالی نے تو اسے گھر کی حکمرانی عطا کی ہے جہاں وہ شیطان اور اسکے حواریوں کی ناپاک نظروں سے محفوظ ہوتی ہے۔اسے خوشی ہوئی کہ معاشرے میں ایسی خواتین کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے کہ جو “چادر اور چار دیواری ” کو ہی اپنا اصل ٹھکانہ سمجھتی ہیں۔اللہ ہم سب کو استقامت عطا فرمائے۔