ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے

411

تو اس سے کہنا کہ لکھے
محبتوں کو شمار کرکے
صداقتوں کا وقار لکھ دے
خلوص کی گر زبان ہوتو
تولے کے اس سے ثبات لکھ دے
وفا کے ذرے جو چُن سکے تو
سماعتوں سے ادھار لے کر
وہ اپنے ماضی کا حال لکھ دے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے
سنبھال رکھے جفا کے پتھر
وفا کے شیشوں میں بال لکھ دے
جو کوئی واپس پلٹ سکے تو
حقیقتوں کو سراب لکھ دے
وہ خدمتیں مستعار لے کر
دعاؤں کو بار بار لکھ دے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے
وہ گزرے لمحوں کو
خواب لکھ دے، شباب لکھ دے، سراب لکھ دے
مری طرف سے تم اس سے کہنا
محبتوں کا حساب لکھ دے
امید ابھرے تو رُخ بدل لے
وہ ہر حقیقت سے منہ چُرا کر سراب لکھ دے، عذاب لکھ دے
جو زندگی کے تمام لمحے گزر چکے ہیں
اُنھیں بلائے، جو ہو سکے تو حساب لکھ دے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے

حصہ