خوب صورت تحفہ

478

نیہا تیز تیز قدموں سے کمرے کے اندر داخل ہوئی اور اپنی الماری کھول کر کچھ ڈھونڈنے لگی۔ مگر وہ چیز نہیں ملی جو اُسے چاہیے تھی۔ اس نے جلدی میں سارے کپڑے نیچے گرا دیے۔ آج اسے خود پر بہت غصہ آیا کہ ’’آخر میں بھی…!‘‘ وہ بڑبڑائی۔ بالآخر اسے الماری کے سب سے نیچے کے خانے میں وہ چیز مل گئی جس کی اُسے تلاش تھی۔ اس نے جلدی سے زارا کا دیا ہوا تحفہ نکال کر مسکراتے ہوئے دیکھا، اسے اپنی آنکھوں سے لگایا۔ نرم نرم احساس اور ہلکی خوشبو نے جیسے اس کے دل و دماغ کو معطر کردیا۔
اس کی آنکھوں کے سامنے ایک سال پہلے کا منظر گھوم گیا۔ آج صبح سے وہ طرح طرح کے پکوان بنانے میں مصروف ہے۔ دراصل اس کی بہت پرانی اچھی دوست جو کہ شادی ہوکر دبئی چلی گئی تھی، پاکستان آئی ہوئی تھی اور آج شام کو اس کے گھر آرہی تھی۔ وہ آج بہت خوش تھی۔
جیسے ہی اس کی دوست گھر کے اندر داخل ہوئی، اُس نے خوش دلی سے استقبال کیا۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ خوب جی بھر کر پرانی باتیں کیں۔ کچھ دیر میں نیہا چائے اور اس کے ساتھ کے لوازمات لے کر کمرے میں آئی تو یہ سب دیکھ کر زارا نے کہا ’’یہ کیا؟ تم نے اتنا تکلف کیوں کیا؟‘‘
نیہا نے مسکراتے ہوئے کہا ’’بس میرا دل چاہ رہا تھا۔ میری اتنی پیاری دوست جو مجھ سے ملنے آرہی ہے… اور مجھے پتا ہے کہ تم کھانے پینے کی بہت شوقین ہو۔کالج میں بھی کینٹین جانے کی سب سے جلدی تمہیں ہوتی تھی۔‘‘ نیہا نے پلیٹ اور چمچ زارا کو پکڑاتے ہوئے کہا۔
’’واہ! مزا آگیا۔‘‘ زارا نے کباب اور دوسری چیزیں چکھتے ہوئے کہا۔ ’’آج تم نے کتنی مزے کی چیزیں بنائی ہیں۔ یقینا اس میں تمہارا خلوص بھی شامل ہے۔‘‘
ماضی کی باتیں، ہنسی مذاق… کھاتے پیتے وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔ پھر رخصت ہوتے ہوئے زارا نے نیہا کو کچھ تحائف دیے۔ انہیں دیکھ کر نیہا بہت خوش ہوئی اوراپنے کمرے میں لے جاکر رکھ دیے کہ رات کو آرام سے دیکھوں گی۔ سب کاموں سے فارغ ہونے کے بعد اس نے خوب صورت پیکنگ میں لپٹے سارے تحائف اپنے سامنے رکھے۔ پہلا تحفہ دیکھتے ہی اس کے منہ سے نکلا ’’واہ! کتنا اچھا پرفیوم ہے، یہ تو میرا پسندیدہ ہے۔‘‘ دوسرا لفافہ کھولا تو اس کے اندر سے خوب صورت نقلی زیورات نکلے۔ ’’واقعی بہت خوب صورت ہیں یہ…‘‘ اس نے خود سے کہا۔ پھر اس کی نظر سب سے بڑے لفافے پر پڑی۔ ’’اسے بھی کھول کر دیکھتی ہوں اس میں کیا ہے!‘‘ اس نے خوشی سے بولتے ہوئے کھولا تودیکھتے ہی اس کے مسکراتے ہونٹ سکڑ گئے۔ دل کچھ بجھ سا گیا۔ ’’یہ کیا…؟ یہ تو میرے کام کی چیز نہیں ہے… میں اسے کسی اور کو دے دوں گی۔‘‘ اس نے فیصلہ کر لیا۔
پڑھائی سے فارغ ہوکر نیہا ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری کررہی تھی۔ آج صبح سے موسم بہت اچھا تھا۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی بھی ہورہی تھی۔ خوش لباس تو وہ شروع سے تھی لیکن نوکری کرنے کے بعد وہ اپنا زیادہ خیال رکھتی، اپنی طرف سے جدید سے جدید طرز کے کپڑے پہنتی اور بہت خوش ہوتی۔ آفس میں اسے کبھی کبھی لگتاکہ کچھ لوگ اسے بری طرح گھور رہے ہیں، لیکن وجہ اس کی سمجھ میں نہ آتی۔ ویسے بھی وہ نوکری کرکے بہت بہادر ہوگئی تھی، اسے زمانے کی کوئی پروا نہیں تھی۔
آج اس نے موسم کی مناسبت سے اچھا سا جوڑا زیب تن کیا۔ نیلے رنگ کی پینٹ اور اس کے اوپر خوب صورت سی کرتی اورچنا ہوا دوپٹہ لے کر وہ تیزی سے گھر سے باہر نکلی۔ پیچھے سے امی کی آواز آئی ’’دیکھو آج بارش کا موسم ہے، ذرا چادر ہی لے لو۔‘‘ مگر وہ کہاں سننے والی تھی! تیز تیز قدموں سے گھر سے باہر نکل گئی۔
شام تک بارش تیز ہوچکی تھی۔ اس نے ٹیکسی بک کروائی۔ کچھ دور آکر رک گئی تو اسے پیدل جانا پڑا۔ وہ بارش میں بری طرح بھیگ رہی تھی اور پریشان ہورہی تھی۔ ٹیکسی نظر آتے ہی وہ جلدی سے اس میں بیٹھ گئی، مگر ٹیکسی ڈرائیور کی چبھتی ہوئی نظریں اسے شرم سے پانی پانی کررہی تھیں۔ آج اسے خود پر غصہ آرہا تھا، وہ سوچ رہی تھی کہ کاش میں نے امی کی بات سن لی ہوتی، یا میں چھتری اپنے ساتھ رکھ لیتی، یا کاش میںکوئی اور کپڑے پہن لیتی۔ اسے مختلف خیالات آ رہے تھے۔ وہ دل ہی دل میں بری طرح شرمندہ ہورہی تھی۔ فوراً وہ کچھ سوچ کر خوش ہوگئی جیسے اسے مسئلے کا حل مل گیا ہو۔
جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئی اُس نے زارا کا تحفہ ڈھونڈا، کیوں کہ وہ ایک خوب صورت عبایا تھا۔ آج اسے عبایا کی اہمیت پتا چل گئی تھی اور اب وہ کہہ رہی تھی ’’شکریہ زارا! تم نے مجھے کتنا خوب صورت تحفہ دیا ہے۔‘‘

حصہ