ایک تھا بادشاہ ، اسے شکار کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ آئے دن امیروں، وزیروں کے ساتھ آس پاس کے جنگلوں میں جاتا اور ہر نوں ہرنیوں اور دوسرے جنگلی جانوروں کا شکار کھیلا کرتا۔
اس بادشاہ کو گھوڑے پالنے کا بہت شوق تھا، جہاں کوئی چالاک اور پھرتیلا ، گھوڑا دیکھ لیتا، جھٹ اس کے مالک سے منہ مانگی قیمت پر خرید لیتا۔
ایک دن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ اس بادشاہ کے دربار میں عرب سے گھوڑو ں کا ایک سوداگر آیا، جھک کر آداب بجالایا اور عرض کی حضور، غلام ایک گھوڑا لایا ہے۔ ایسا پھرتیلا کہ پل بھر کو اس کے پائوں زمین پر نہیں ٹکتے، آنکھ کے اشارے پر ہوا سے باتیں کرنا لگتا ہے۔ لیکن حضور، اس میں ایک نقص بھی ہے۔ یہ مزاج کا بہت کڑوا ہے کسی کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتا۔ ہر وقت دولتیاں چلایا کرتا ہے۔ اگر حضور اس گھوڑے کو لینا چاہئیں تو غلام حاضر کر سکتا ہے۔
بادشاہ نے ہنس کر کہا ، میاں سوداگر ، تم بے فکر ہو کر اپنا گھوڑا لے آئو۔ یہاں بڑے بڑوں کو سیدھا کر ڈالا ہے۔
دوسرے دن عرب سوداگر گھوڑا لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا، گھوڑے کو دیکھ کر بادشاہ کی باچھیں کھل گئیں ایسا خوبصورت اور پھرتیلا گھوڑا بادشاہ نے اپنی عمر میں پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ خوش ہو کر سوداگر کو انعام سے مالا مال کر دیا اور گھوڑا اپنے اصطبل میں بھجوا دیا اور کہا ۔ کل ہم اس گھوڑے پر سوار ہو کر امیروں وزیروں کے ساتھ شکار کھیلنے جائیں گے۔
دوسرے دن صبح سویرے بادشاہ اپنے نئے گھوڑے پر سوار امیروں وزیروں کے ساتھ شکار کھیلنے گیا۔ کچھ دیر تو خیر گزری۔ لیکن جب بادشاہ ایک شیر کو شکار کر رہا تھا۔ تو ایکا ایکی شیر بادشاہ کی طرف جھپٹا۔ شیر کے جھپٹنے سے با دشاہ کا عربی گھوڑا بھڑک اٹھا اور بادشاہ کو زمین پر پٹخ کر سر پٹ دوڑ گیا۔ جب تک بادشاہ کے ساتھی مدد کو پہنچے شیر نے اپنے تیز دانتوں سے اس کی بائیں ٹانگ چبا ڈالی۔
وزیر بادشاہ کو اٹھا کر محل میں لائے اور حکیموں ویدوں کو بلایا، حکیموں ویدوں نے اپنی کوئی کوشش اٹھا نہ رکھی۔ لیکن بادشاہ کی ٹانگ اچھی نہ ہوئی اور سب نے یہ فیصلہ کیا کہ بادشاہ کی جان اسی صورت میں بچ سکتی ہے کہ ٹانگ کاٹ ڈالی جائے۔
تھوڑے ی دنوں میں زخم بھرگیا اوربادشاہ اچھا ہوگیا۔ لیکن ٹانگ کٹ جانے کا اسے بہت رنج تھا۔ اب وہ ہر وقت اداس اداس رہتا نہ کہیں آتا نہ جاتا۔ ہر وقت مسہری پر پڑا رہتا۔
اس بادشاہ کی ایک خوبصورت بیٹی تھی۔ اس کا نام تھامہ جبیں وہ اپنے با پ کا دل بہلانے گھنٹوں اس کی مسہری کے پاس بیٹھی رہتی اور ستار بجا بجا کر پانی میٹھی آواز سے اس کو گیت سنایا کرتی۔ لیکن اس کا غم کسی طرح دور نہ ہوتا تھا۔
بادشاہ کے محل سے دور ایک پہاڑی تھی اس پر ایک بڈھا رہتا تھا۔ جو بہت عقلمند اور دانا تھا دور دور سے لوگ اس کے پاس آتے اور اپنی اپنی مصیبتیں بیان کرتے اور وہ طرح طرح کے مشورے دے کر ان کی حاجتیں پوری کیا کرتا ایک دن بادشاہ کے وزیروں نے سوچا کہ اس بڈھے کو بلانا چا ہئے۔ شاید وہی بادشاہ کا غم دور کر سکے۔
جب بڈھا بادشاہ کے سامنے حاضر ہو ا تو بادشاہ نے کہا بڑے میاں تم میرے ملک میں سب سے زیادہ عقلمند ہو۔ اگر تم کسی طرح میرا غم دور کر دوتو میں تم کو آدھی بادشاہت دے دوں گا۔ اور اپنی بیٹی کی شادی بھی تم سے کر دوں گا۔
بڈھے نے مسکرا کہا حضور میں پہاڑی پر ایک چھوٹی سی کٹیا میں رہتا ہوں تخت تاج لیکر کیا کروں گا۔ میری عمر اسی برس کی ہو چکی ہے اور شہزادی جوان ہے۔ بھلا بڈھے اور جوان کا کبھی ساتھ ہوا ہے۔ آپ ایسا کیجئے کہ اپنے ملک میں ڈھنڈورا پٹوادیجئے کہ جو کوئی بادشاہ سلامت کے لئے نئی ٹانگ لائے گا اسے آدھی سلطنت دے دیں گے۔ اور اپنی بیٹی کی شادی بھی اس سے کر دیں گے کیا پتا کوئی ایسا عقلمند شخص نکل آئے جو حضور کی خواہش پوری کر دی۔
یہ سن کر بادشاہ خوشی سے اچھل پڑا اور بولا مجھے تمہاری رائے بہت پسند آئی میں ابھی اس کا انتظام کر تا ہوں۔
دوسرے دن بادشاہ نے سارے شہر میں ڈھنڈور ا پٹوا دیا کہ جو کوئی ہمارے لئے نئی ٹانگ لے کر آئے گا مابدولت اسے آدھا تخت و تا ج دیں گے اور پانی دختر نیک اختر کی شادی بھی اس سے کریں گے ۔
یہ ڈھنڈور سن کر سینکڑوں لوگوں کا جی للچایا اور وہ جلد ی جلدی ٹانگیں بنا کربادشاہ کے محل کے سامنے آجمع ہوئے اور لگے ایک دوسرے کو دھکے دینے اور چلا چلا کر کہتے۔ بادشاہ سلامت ٹانگ حاضر ہے۔ ہر شخص کی یہ کوشش تھی کہ میں سب سے پہلے بادشاہ کے سامنے پہنچوں اور اپنی بنائی ہوئی ٹانگ پیش کر کے انعام حاصل کروں۔
انہوں نے اتنا شور مچا رکھا تھا کہ محل کے داروغہ نے انہیں ڈانٹ کر کہا اگر تم چپ نہ ہوئے تو میں ابھی تم سب کے سر اڑا دوں گا۔
آخر بادشاہ نے حکم دیا کہ انہیں ایک ایک کر کے ہمارے سامنے لے آئو۔
پہلا شخص بادشاہ سلامت کے سامنے پیش ہو۔ وہ لکڑی کی ٹانگ لایا اور کہنے لگا ۔ بادشاہ سلامت ذرا اس ٹانگ کو تو آزمائیے اگر ٹھیک نہ آئے تو میں اپنی ناک کٹوا دوںگا۔
جب بادشاہ نے اسے اپنی کٹی ہوئی ٹانگ پر لگایا تو وہ ایسی نکلی کہ بادشاہ کو ہلنا جلنا دوبھر ہوگیا۔ اس نے غصہ سے آگ بگولا ہو کر وہی لکڑ کی ٹانگ اس کے سرپر دے ماری۔
دوسرا شخص ٹین کی بنی ہوئی ٹانگ لایا لیکن جب بادشاہ نے اسے کٹی ہوئی ٹانگ پر لگایا تو وہ وہیں پھنس گئی۔ ٹانگ لانے والے کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ اس نے اور بادشاہ نے بہتیری کوشش کی کہ کس طرح یہ ٹین کی ٹانگ اتر آئے ۔ لیکن کچھ کامیابی نہ ہوئی۔ آخر کار لوہار کو بلوایا گیا اور اس نے بادشاہ کو اس مصیبت سے چھٹکارا دلوایا ۔ اس پر بادشاہ نے حکم دیا کہ اس شخص کے گلے میں یہی ٹین کی ٹانگ باندھ کر اسے بطخوں والے تالاب میں پھنکوا دیا جائے۔
اس کے بعد دوسرے لوگ پیش وئے۔ ان میں کوئی روئی اور کپڑے کی ٹانگ بنا کر لایا تو کوئی بانس کی غرض طرح طرح کی ٹانگیں بادشاہ کے سامنے پیش کئی گئیں ۔ لیکن ان کے لانے والوں کا بھی برا حال ہوا اور انہیں دھکے مار کر محل سے نکال دیا گیا۔
اب بادشاہ پھر اداس اداس رہنے لگا۔ سارا سارا دن غم کی مورت بنا تخت پر بیٹھا رہتا۔ نہ کسی سے بات کرتا نہ کہیں آتا جاتا۔ ہر وقت فکر میں ڈوبا رہتا۔ کئی مہینے بیت گئے مگر اس کے ہونٹوں پر ہنسی نہ آی تھی۔ آخر حکیموں اور ویدوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اگرہمارا بادشاہ اس طرح غم کھاتا رہے گا تو تھوڑے ہی دنوں میں مر جائے گا۔
اسی طرح کچھ عرصہ اور گزر گیا۔ ایک دن بادشاہ کے دربار میں ایک خوبصورت نوجوان شہزادہ آیا اور بادشاہ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ بادشاہ نے اسے اپنے پاس بلا لیا۔ اس وقت اس کی بیٹی مہ جبین بھی اس کے تخت کے پاس ہی ایک چھوٹے سے تخت پر بیٹھی تھی۔ وہ شہزادے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی۔
شہزادے نے کہا بادشاہ سلامت! غلام کو آپ کے دکھ کا سب حال معلوم ہے۔ کل آپ اپنے سب امیروں، وزیروں کو اپنے پاس بلالیں۔ اس وقت میں حضور کی خدمت میں ایک سچ مچ کی ٹانگ پیش کروں گا۔ لکڑی، ٹین ، کپڑے کی ایسی واہیات ٹانگ نہیں بلکہ خون اور گوشت کی بنی ہوئی ٹانگ۔
بادشاہ کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ سچ کہتے ہو؟۔
شہزادے نے کہا ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ کل حضور اپنی آنکھو ں سے دیکھ لیں گے۔ یہ کہہ کر شہزادے نے جھک کر بادشاہ کو سلام کیا اور دربار سے چلا گیا۔
دوسرے دن بادشاہ نے اپنے سب امیروں، وزیروں کو اپنے تخت کے گردجمع کر لیا۔ اس کی بیٹی مہ جبین کل کی طرح آج بھی اس کے پاس ایک چھوٹے سے تخت پر بیٹھ گئی اور سب لوگ بڑی بے صبری سے شہزادے کا انتظار کرنے لگے۔
تھوڑی دیربعد شہزادہ دربار میں حاضر ہوا اس کے ہاتھ میں ایک لمبا سا بکس تھا وہ بادشاہ کے تخت کے پاس پہنچ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔ لیجئے بادشاہ سلامت یہی وہ گوشت اور خون کی بنی ہوئی ٹانگ ہے جس کا میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔
یہ کہہ کر اس نے بکس کھولا اور ایک ہرن کی ٹانگ نکال کر بادشاہ کے سامنے پیش کر دی۔
تمام دربار پر سناٹا چھا گیا۔امیروں وزیروں کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ بادشاہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا اس نے شہزادے کی طرف قہر آلود نظروں سے دیکھا ۔ پھر ایکا ایکی اس کا سارا غصہ اتر گیا اور اس نے زور سے قہقہہ لگایا۔ یہ دیکھ کر دربار کے لوگ پہلے تو بہت حیرا ن ہو ئے مگر جب انہوں نے بادشاہ کو ہنستے ہوئے دیکھا تو خوذ بھی ہنسنے لگے اور مہ جبین کا تو یہ حال تھا کہ ہنسی کے مارے اس کے پیٹ میں بل پڑ گےئ۔
بادشاہ نے کہا اے نوجوان شہزازادے تم نے جس ہوشیاری اور عقل مندی سے مجھ سے شرط جیتی۔ میں اس کی داد دیتا ہوں اور میں کبھی غمگین نہ رہوں گا۔ کل تمہاری اور مہ جبین کی شادی ہو جائے گی۔
دوسرے دن شہزادے اور مہ جبین کی شادی ہو گئی اور اس روز بادشاہ نے پانے سب امیروں وزیروں کی دھوم دھام سے ضیافت کی اور بادشاہ ، مہ جبین اور شہزادے نے وہ ہرن کی ٹانگ مزے لے لے کر کھائی۔