حیا کا زیور اور باحجاب ستر پوشی

362

نرگس: ارشد! اس میں برائی ہی کیا ہے اگر آئمہ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے جائے! اور اکیلی تھوڑی جارہی ہے، اس کے ساتھ اس کے دو اور ساتھی عمیر اور زرینہ بھی جارہے ہیں۔ ان کے والدین نے بھی تو اجازت دے دی ہے۔
ارشد: ایک دوسرے کی حرص کی وجہ سے ہی تو آج ہماری یہ حالت ہے، نامحرم کے بغیر…
نرگس: بس بس اب شروع ہوگیا آپ کا لیکچر۔ آپ اتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اس کے باوجود آپ کی سوچ پر مجھے افسوس ہوتا ہے۔ ہمارے آس پاس کتنے لوگ ہیں جن کے بچے باہر پڑھنے گئے ہیں۔ ثمینہ کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس بھی آگیا۔ کیا آپ کو آئمہ پر اعتبار نہیں؟
ارشد: ایسی بات نہیں، ماشاء اللہ وہ سمجھدار ہے، ذہین ہے لیکن…
……٭٭٭……
نرگس متوسط طبقے کی لڑکی تھی۔ ارشد (جو اس کا کزن تھا) کے ساتھ شادی کے بعد اس کی زندگی میں جیسے بہار آگئی، کیوں کہ ارشد کا تعلق ایک خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا، لیکن وہ ایک شریف النفس شخص تھا۔ اس کے گھر والے بھی عزت و شرافت سے زندگی گزار رہے تھے۔ والدین کی اچھی تعلیم و تربیت ہی تھی کہ لندن کے آزاد ماحول میں بھی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود وہ اپنی روایات پر قائم تھا۔ لیکن وہ لندن کے آزاد ماحول سے بھی واقف تھا جہاں برائی کو برائی نہیں سمجھا جاتا… اسی وجہ سے بہت سے جوان اُن کے رنگ میں رنگ گئے تھے۔
شادی کے بعد نرگس کا اُٹھنا بیٹھنا اعلیٰ گھرانوں کی خواتین سے ہوا جن میں کچھ خواتین لبرل قسم کی آزاد پسندی کی حامی بھی تھیں۔ آزادی سے گھومنا پھرنا، مخلوط پارٹیوں میں شرکت کرنا ان کا معمول تھا۔ گرچہ ارشد کی طبیعت کی وجہ سے وہ ان پارٹیوں میں بہت کم شرکت کرتی تھی، لیکن اُن کا رنگ اس پر چھاتا جارہا تھا۔ ان ہی خواتین میں سے اکثر کے بچے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کررہے تھے، لہٰذا اُس کے ذہن میں بھی اس خواہش نے جنم لیا۔ آئمہ نے جب اپنی خواہش کا اظہار کیا تو نرگس نے بھرپور انداز میں اس کا ساتھ دیا۔
……٭٭٭……
ارشد: (آئمہ سے) بیٹا ہمیں آپ پر مکمل بھروسہ اور اعتماد ہے۔ ہم آپ کی خوشی میں خوش ہیں، لیکن کوئی ایسا عمل… میرا مطلب ہے ہمارے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچے۔ میں نے آپ پر کبھی پابندی عائد نہیں کی، لیکن آپ کی تعلیم و تربیت سے کبھی غافل بھی نہیں رہا۔
آئمہ: ابو آپ مجھ پر اعتماد رکھیں، اِن شاء اللہ میں آپ کو کبھی دُکھی نہیں کروں گی۔
ارشد: بیٹا مجھے آپ سے یہی اُمید ہے۔
……٭٭٭……
لندن میں زندگی کے سارے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ آئمہ نے دیکھا ان میں سے اکثریت اس تہذیب کا حصہ بن چکی تھی، لیکن اس نے عہد کیا کہ وہ اپنے آپ کو بچا کر رکھے گی۔ گرچہ زرینہ نے لندن کی زمین پر قدم رکھتے ہی اسکارف کو خیرباد کہہ دیا کہ انسان کی آنکھوں میں شرم و حیا ہونی چاہیے، اسکارف وغیرہ ’’ثانوی‘‘ چیزیں ہیں۔
آئمہ نے اس سے صرف یہ کہا کہ یہ ہماری پہچان ہے۔ یونیورسٹی میں چند لڑکیاں اسے مل گئیں جو اپنے آپ کو گائون اور اسکارف میں ڈھانپے رکھتیں۔ یہ لڑکیاں نماز کے وقت یونیورسٹی کے نزدیک مسجد میں باقاعدگی سے نماز کے لیے بھی جاتیں۔ اکثر وہ جمعہ کی نماز کے بعد مسجد کے مولوی صاحب کا درس بھی سنتیں… کبھی کبھار وہ زبردستی زرینہ کو بھی اپنے ساتھ لے جاتیں۔ لیکن اب تو وہ اکثر جانے سے کترانے لگی اور اپنا فارغ وقت نئے دوستوں میں گزارنے لگی، جس کی وجہ سے اس میں نمایاں تبدیلی آچکی تھی۔ اس کا لباس، اس کے انداز سب بدل چکے تھے۔ زرینہ نے شروع میں اسے بھی اپنی راہ پر چلانے کی کوشش کی کہ یہاں پہنچ کر بھی تم اپنے پرانے دقیانوسی انداز میں زندگی گزار رہی ہو، لوگ کیا کہیں گے کہ آئمہ جیسی گئی تھی ویسی ہی پلٹ کر آئی ہے!
آئمہ اس کی بات تحمل سے سنتی اور ہمیشہ یہی جواب دیتی کہ مجھے لوگوں کو جواب نہیں دینا۔ مجھے اللہ کو راضی رکھنا ہے۔ میں لوگوں کی وجہ سے اپنا دین اور اللہ کے احکامات فراموش نہیں کرسکتی۔ میں اپنی زندگی اللہ کے حکم کے مطابق گزارنا پسند کرتی ہوں۔ یہ حیا، یہ شرم ہماری پہچان ہے، اسے کسی صورت اپنے سے جدا نہیں کرسکتی۔
……٭٭٭……
رخشندہ: آئمہ تمہاری دوست زرینہ نظر نہیں آرہی، کیا پاکستان گئی ہے؟
آئمہ: نہیں یار، وہ چھٹی کے دن اپنے دوستوں کے ساتھ گزارتی ہے۔ شاید انہی کے ساتھ ہوگی۔ مجھے خود اس لڑکی کی فکر رہتی ہے۔ میں اسے فون بھی کررہی ہوں، لیکن صرف دو دن پہلے اُس نے میسج کیا تھا کہ وہ دوستوں کے ساتھ ہے۔ بس اللہ خیر کرے۔
رخشندہ: تم اس کی دوست ہو، تم نے اسے سمجھانے کی کوشش نہیں کی؟ یہاں کا ماحول ایسا ہے کہ ہر قدم پر ٹھوکر لگنے کا اندیشہ رہتا ہے، اللہ اس کی حفاظت کرے، یہاں تو کسی برائی کو برائی بھی نہیں سمجھا جاتا۔
آئمہ: میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ میں نے کل ابو کو بھی تھوڑا بہت زرینہ کے بارے میں بتایا تھا۔ بس دُعا کرو اللہ اسے سیدھی راہ پر لے آئے۔
رخشندہ: آئمہ! زرینہ آگئی ہے لیکن شاید اسے بخار ہے، میں اسی کی طرف جارہی ہوں، تم چلو گی؟
آئمہ: اوہو، اچھا، اُس نے مجھے بتایا نہیں۔ میں بھی تمہارے ساتھ چل رہی ہوں۔
……٭٭٭……
دونوں زرینہ کے کمرے میں آئیں تو واقعی اس کی طبیعت خراب تھی۔
آئمہ: خیریت! تمہیں کیا ہوگیا؟ چار پانچ دن کے بعد آئی ہو۔ تمہاری طبیعت کیسی ہے؟
آئمہ کی بات سن کر زرینہ کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ اس نے آنکھیں چراتے ہوئے کہا: ہاں میں ٹھیک ہوں۔
(آئمہ نے اس کے لرزتے ہوئے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا) اوہو… تمہیں تو تیز بخار ہورہا ہے۔ چلو میں تمہیں ہوسٹل کی کلینک لے چلتی ہوں۔
زرینہ: نہیں… میں نے دوائی لے لی ہے (پھر وہ آئمہ کے گلے لگ کر رونے لگی)۔
آئمہ: میری دوست… کچھ بتائو تو سہی کیا ہوا؟
زرینہ: (تھوڑی دیر کے بعد) تم صحیح کہتی ہو… حیا، ستر پوشی مسلمان عورت کا سب سے بڑا زیور ہے۔ میں یہاں کے رسم و رواج کے دھوکے میں آگئی تھی۔ بس خدا نے مجھے بچا لیا (ہچکیاں لیتے ہوئے)۔ میری ماں کی دعائیں تھیں کہ میں بچ گئی۔ یہ سب کچھ یہاں کے ماحول کا حصہ ہے جسے وہ برائی بھی نہیں سمجھتے (آئمہ اور رخشندہ بڑے دُکھ و افسوس سے اس کی بات سن رہی تھیں)۔ ہم چھٹیاں گزارنے دوسرے شہر گئے تھے۔ دس بارہ لڑکے لڑکیاں تھیں (زرینہ پھر رونے لگی)۔
آئمہ: شکر کرو اللہ نے تمہیں بچا لیا۔ اب اس بات کو یہیں ختم کرو، بس آئندہ محتاط رہنا۔
……٭٭٭……
آج زرینہ کو احساس ہورہا تھا کہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے جو احکاماتِ الٰہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچائے اُن پر عمل کرنا ہمارے لیے کس قدر ضروری ہے۔
……٭٭٭……
تمام احکاماتِ الٰہی قرآن پاک اور سیرتِ پاک سے ہمیں ملتے ہیں، اسی لیے قرآنی تعلیمات کو ’’نور‘‘ کہا گیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآن کو نور کہا ہے، اس لیے کہ اس سے برائی، بدی، بے حیائی، شرک و کفر کے تمام اندھیرے دور ہوتے ہیں۔ عورت دیس میں ہو یا پردیس میں، اسلامی ریاست میں ہو یا غیر اسلامی ریاست میں… اس کے لیے اپنے طور طریقے، لباس وغیرہ تمام باتوں میں اسلامی احکامات کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے۔ دینِ اسلام نے عورت کو کائنات کا ایک حُسن کہا ہے، اس حسن کو برقرار رکھنے، تحفظ دینے کے لیے اصول و ضوابط بھی مرتب کیے ہیں جن کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کے حُسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں، اس کا وقار اور شان بڑھ جاتی ہے۔ آج دجالی قوتیں مسلمان عورتوں کو بھی بیچ چوراہے پر لانے کے لیے کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ اللہ ربّ العزت مسلمان عورتوں کا یہ زیور، یہ حیا، یہ شرم، یہ مکمل ستر پوشی برقرار رکھے تاکہ ان کی دُنیا و آخرت دونوں سنور سکیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورتیں لباس کی باریکی اور تنگی کی وجہ سے ننگی ہوں گی، ایسی عورتیں نہ تو جنت دیکھ سکیں گی اور نہ اس کی خوشبو محسوس کرسکیں گی‘‘۔ (مسلم)
اسی طرح ربّ العالمین نے عورت کی ستر پوشی کا حکم دیا ہے، نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ جب عورت ان احکامات کو نظرانداز کرکے اپنے نفس کی غلام ہوکر زندگی گزارے گی تو اس کے سامنے مشکلات، پریشانیاں سراٹھائے اسے برباد کردیں گی۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے ملک میں مسلمان عورتیں یورپ اور مغرب کی تقلید میں جس طرح کا لباس زیب تن کرکے سڑکوں پر نظر آتی ہیں اس کی وجہ سے ہولناک حادثات رونما ہوتے ہیں۔ بے شک حیا کے ساتھ حجاب ہمارا تحفظ بھی ہے، وقار کی علامت بھی ہے، اللہ کی رضا بھی ہے۔

حصہ