روح کی سسکیاں

281

اوپری منزل سے آنے والی آوازوں سے اندازہ ہوگیا کہ وہ لوگ جاگ گئے ہیں، تو فائزہ بھی اُٹھ بیٹھی۔ اطہر اور بچوں کو رشک سے سوتے دیکھا، اپنے بال سمیٹتے ہوئے غسل خانے کی جانب بڑھ گئی۔ رات گئے کی فلائٹ سے دیور اپنی فیملی کے ساتھ سعودیہ سے آیا تھا۔ باتیں کرتے کرتے سونے میں بہت دیر ہوگئی تھی۔ لامحالہ اب سب دیر سے ہی جاگیں گے، لیکن اسے سب کے ناشتے کی فکر نے بستر چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ اُسے گھبراہٹ ہوئی کہ امی ابو بھی جاگ گئے ہوں گے اور وہ ابھی تک سورہی ہے!
فائزہ ناشتے کی تیاری کے آخری مراحل میں تھی، جب ہی ارم اپنی بیٹی کے ساتھ سامان سے بھرے شاپر لیے اوپری منزل سے نیچے اتر رہی تھی۔ لاؤنج میں ساس سسر بیٹھے تھے۔ ارم نے شاپر اُن کے سامنے ڈھیر کردیے۔ ناشتے کے لوازمات میز پر رکھتے ہوئے فائزہ کنکھیوں سے انہیں بھی دیکھتی جارہی تھی۔
’’یہ اباجی! آپ کے لیے بڑی اسکرین کا ٹیب ہے، آپ کو دیکھنے اور پڑھنے میں آسانی ہوگی۔ اور اماں یہ آپ کے لیے گلے کی زنجیر ہے‘‘۔ اُس نے ایک خوب صورت پیکنگ امی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ پھر ارم نے الگ سے کچھ پیکٹ کھولے، ایک میں ہیئر ڈرائیر تھا، کچھ میک اَپ کِٹس اور کچھ نفیس قسم کے بغیر سلے کپڑے تھے، ساتھ ہی سونے کی دو چوڑیا ں بھی تھیں جو اُس نے اماں کو یہ کہہ کر دیں کہ یہ لیلیٰ کی شادی کے لیے رکھ لیں۔ اس کی شادی کے وقت نکالیے گا۔
اماں نے ممنون ہوکر بہو کو دیکھا اور کہنے لگیں ’’بیٹا! تم ہر سال ہی کچھ نہ کچھ اس کے لیے لاتی ہو۔ اللہ نصیب کھولے تو سب کچھ دے دوں۔‘‘
’’ارے اماں ابھی تو پڑھ رہی ہے، مل جائے گا رشتہ بھی، ہمیں تو تیاری رکھنی ہے نا۔‘‘ اِرم نے رسان سے کہا تو اماں دعائیں دیتی ہوئی سامان سمیٹ کر کمرے میں رکھنے چل دیں۔ آہستہ آہستہ کئی شفٹوں میں سب کو ناشتا کرانے کے بعد فائزہ بھی امی کے کمرے میں آگئی، جہاں سب کی محفل جمی ہوئی تھی۔ دیورانی سے بچوں کے لیے کچھ تحائف، ایک پرفیوم اور ایک خوب صورت عبایا کا تحفہ بھی وصول کیا۔ مگر وہ زیادہ دیر اس محفل کا حصہ نہیں بن سکتی تھی کیوں کہ اُسے دوپہر کے کھانے کی تیاری کرنا تھی۔ اب اُسے مہینے بھر کے لیے ہر پروگرام تج کر آنے والوں کے لیے خدمت کا استعارہ بن جانا تھا۔
فائزہ اور ارم کی شادی ساتھ ہی انجام پائی تھی۔ دیور انور کے علاوہ ایک بڑے جیٹھ تھے، جو کچھ عرصہ ساتھ رہ کر اپنے مکان میں منتقل ہوگئے تھے۔ ایک چھوٹی نند لیلیٰ تھی جو زیرِ تعلیم تھی۔ یہ دیور دیورانی چند سال ساتھ رہے۔ اللہ نے دونوں کو اولاد سے بھی نوازا۔ فائزہ اور ارم کی بیٹیاں ہم عمر تھیں۔ انور کو سعودیہ میں ملازمت مل گئی تو وہ اپنی فیملی کے ساتھ وہاں چلا گیا۔ سال، ڈیڑھ سال بعد چھٹی پر آتا تو ماں باپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں۔ پوتا پوتی کے خوب لاڈ اُٹھائے اور اٹھوائے جاتے۔
دادا اور دادی کی محبت کچھ دن کے لیے انور اور اس کے بچوں کے لیے مخصوص ہوجاتی۔ بیٹے، بہو کے لائے ہوئے تحفوں کی ہر آنے جانے والے کو زیارت کرائی جاتی۔ پاکستان آتے وقت ان کے احباب اپنے گھروں کے لیے کچھ سامان ساتھ کردیتے تو وہ سامان کسی کے گھر دینے جانا ہوتا اور کبھی کبھی کوئی ان سے لینے آجاتا۔ مہمان داری کے لیے فائزہ اور بچیاں ہمہ وقت مستعد رہتیں۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ وہ کہیں ملنے جاتے تو کھانا کھاکر آجاتے اور فائزہ کے کھانے کی تیاری کا سلسلہ متاثر ہوجاتا۔ کبھی رات گئے کھانا کھائے بغیر ہی واپس آجاتے۔ اِدھر فائزہ باورچی خانہ سمیٹ کر اپنے کمرے میں جا چکی ہوتی کہ ساس کی کال آتی اور فائزہ کو نئے سرے سے کچن آباد کرنا پڑتا۔ ارم بھی اسی گھر کی بہو تھی لیکن وہ اور اس کے بچے اپنے آپ کو مہان ہی گردانتے، اور قیمتی تحائف کے بوجھ میں لدے ساس سسر بیٹا بہو کے آگے بچھے رہتے۔
گوکہ انور یہاں رہ کر اچھا ہی کماتا تھا۔ اس کے بیوی بچوں اور والدین کی ضروریات احسن طریقے سے پوری ہورہی تھیں۔ ابو کی پنشن بھی تھی اور بڑے بھائی بھی والدین کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔ دونوں بھائی گھر کے رنگ روغن پر کچھ خرچ کرہی لیتے تھے، مگر کوئی بڑا خرچ کرنے سے پہلے انہیں سوچنا پڑتا تھا۔ اب انور کے سعودیہ جانے کے بعد گھر میں بہت سی تبدیلیاں آگئی تھیں۔ ایک سال بعد چھٹی پر آیا تو امی ابوکے کمرے کا غسل خانہ نئے سرے سے اپنی نگرانی میں بنوایا، اے سی لگوایا، اگلے سال باورچی خانے پر توجہ دی، اور پھر والدین کو حج کی سعادت سے بھی بہرہ مند کیا۔ اس کے علاوہ کچھ نہ کچھ رقم ابا کے اکائونٹ میں بھی ڈلواتا رہتا۔ ارم بھی نند کی شادی کے لیے کپڑے اور زیور ساس کے پاس ذخیرہ کراتی رہتی۔ لیکن پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ گھر والوں کے ہزار معاملات ہوتے ہیں جنہیں دیکھنا بھالنا ہوتا ہے۔ وہ سارے کام اطہر اور فائزہ کرتے۔ کبھی بینک سے پیسے لانا، کبھی رشتے داروں سے ملانے لے جانا، بی پی اور شوگر کے مریض والدین کی دوا اور غذا کا خیال رکھنا، ان کے مہمانوں کی تواضع… سب کام وہ دونوں خوش دلی سے کرتے۔ فائزہ بچوں سے بھی دادا دادی کے کام کرواتی۔ بچے ان کے پاس بیٹھتے، ہنستے بولتے اور دعائیں سمیٹتے، لیکن جب انور اور اس کی فیملی آتی تو اطہر اور اس کے بچے کسی حد تک نظرانداز کردیے جاتے، جسے اطہر بھی محسوس کرتا تھا، لیکن یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر بات کرنے کے لیے کسی شریف انسان کو الفاظ نہیں ملتے۔ وہ سوچتا کہے تو کیا کہے؟ چھوٹا بھائی تھوڑے ہی دن کے لیے تو آیا ہے۔
ارم بھی اسی گھر کی بہو تھی، اپنا اور بچوں کا ناشتا خود تیار کرسکتی تھی، ہنڈیا بنانے میں فائزہ کی مددکرسکتی تھی۔ لیکن وہ ہر کام سے ہاتھ اٹھائے رہتی۔ اسے تو کبھی ٹیلر کے ہاں جانا ہے،کبھی مارکیٹ۔ لیلیٰ ماسٹرز کررہی تھی، وہ فائزہ کا ہاتھ بٹاتی تھی، مگر بیشتر گھریلو امور کی ذمے داری فائزہ کی تھی۔ مہمان بچے بھی اوپر کمرے میں بیٹھے رہتے، یا موبائل میں گم رہتے۔ کھانے کی میز پر یہ صورت حال زیادہ نمایاں ہوجاتی۔ فائزہ اور ارم کی بیٹیاں چند ماہ کے فرق سے ہم عمر تھیں، لیکن فائزہ کی بیٹی کو کھانے کی میز سے بار بار کسی نہ کسی کام کی غرض سے اٹھنا پڑتا۔
یہ چھوٹی موٹی باتیں فائزہ کو پریشان کردیتیں۔ وہ شوہر سے اس موضوع پر بات بھی کرتی۔ بعض معاملات میں تکلیف تو اس کو بھی تھی، لیکن وہ گھرکا ماحول خراب نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ بیوی کی بات ضرور سنتا تاکہ اس کا دل ہلکا ہوجائے، اور دیگر سلوک سے بھی اس کی دل جوئی کرتا۔
اِس بار انور اور ارم اپنے ساتھ ایک پروگرام بناکر لائے تھے۔ حال ہی میں انہوں نے مدینہ میں ایک بڑا گھر لیا تھا جس میں ایک گیسٹ روم بھی تھا۔ اب وہ والدین کو کچھ عرصے کے لیے اپنے پاس بلانا چاہتے تھے۔ والدین بہت خوش ہوئے کہ انہیں شہر ِ نبیؐ میں قیام کا موقع ملے گا۔ اطہر اور بڑے بھائی نے تمام کاغذی کارروائی مکمل کروائی۔ دو ماہ کا ویزا ملا۔ پوری تیاری کے بعد آخرکار وہ دونوں بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔ وہ وہاں بہت خوش تھے، روزانہ ہی گھر پر بات کرتے۔ مسجد نبویؐ میں ادائیگیِ نماز کا سرور انہیں سب کچھ بھلائے رکھتا۔ بی پی اور شوگر بھی متوازن تھی کہ آب ِ زم زم اپنا اثر دکھا رہا تھا۔ وہاں موجود بیٹے بہو کے دوست احباب بھی اُن سے ملنے آتے، دعوت ضیافت بھی ہوتی۔ یہ دو ماہ کیسے گزرے پتا ہی نہ چلا۔
پاکستان واپسی کے دن قریب آگئے تھے، اب انہیں بھی اپنے گھر والے یاد آرہے تھے کہ عجیب عجیب خبریں آنے لگیں۔ دنیا بھر میں ایک وائرس نے تباہی مچا دی تھی۔ دنیا کی تیز رفتاری نے جہاں دنوں کے فاصلے منٹوں میں سمیٹ دیے تھے، وہاں اب پاس بیٹھا شخص بھی ’’سماجی فاصلے‘‘ کے نام پر دور ہوگیا۔ ملکوں کی سرحدیں بند کی جانے لگیں۔ فضائی راستے بند ہو ئے۔ جو جہاں تھا وہیں ٹھیر گیا تھا۔
آج وڈیو کال کی اسکرین تاریک ہوئی تو فائزہ نے اطہر سے کہا ’’آپ نے محسوس کیا امی ابو کتنے اداس لگتے ہیں۔‘‘
’’ہاں، گھر سے اتنے دن دور رہے ہیں اور غیر یقینی صورت حال میں بھی ہیں، پھر انہیں لیلیٰ کی بھی فکر رہتی ہوگی۔‘‘ اطہر بھی دُکھی ہورہا تھا۔
’’نہیں اطہر، آپ سمجھے نہیں۔ انہیں لیلیٰ کی فکر نہیں ہے، وہ تو ہمارے پاس ہے۔ اصل میں اُن کو اب اپنی زندگی وہاں بے کار لگ رہی ہے۔ ارم اور انور اب اُن پر پہلی جیسی توجہ نہیں دیتے۔ لیلیٰ سے امی کی بات ہوتی رہتی ہے، ہم دونوں بہت سی باتیں سمجھ گئے ہیں۔ وہ بے چارے ناشتے کے لیے صبح دیر تک بھوکے بیٹھے رہتے ہیں، پیکٹ کا دودھ پینے اور قسم قسم کے بسکٹ کھانے سے انہیں ہاضمے کے مسائل کا سامنا ہے، اُن کی کچھ دوائیں بھی ختم ہوگئی ہیں۔ انور کو لاک ڈاؤن سے پہلے لا کر رکھنی چاہیے تھیں۔‘‘
آج فائزہ کھل کر بول رہی تھی ’’امی اپنے اور ابو کے لباس اور دیگر چیزوں کی کتنی صفائی رکھتی تھیں۔ ابو کے رومال تک میں نیل ڈلواتی تھیں، اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
لیلیٰ بھی کہنے لگی ’’وڈیو کال میں جتنا کمرہ نظر آرہا ہوتا ہے وہی اتنا بے ترتیب ہوتا ہے، بستر کی چادر اتنی میلی اور شکنوں بھری تھی جیسے کب سے تبدیل نہ ہوئی ہو، بچے آن لائن پڑھتے ہیں یا موبائل میں گُم رہتے ہیں، امی ابو کے پاس تو کوئی بیٹھتا ہی نہیں۔‘‘
اطہر چپ چاپ بہن کا منہ تک رہا تھا۔ ’’دیکھیں بھائی جان! اللہ کے فضل وکرم سے ابھی امی ابو اس وبا سے محفوظ ہیں، مگر ارم بھابھی دونوں وقت بچوں سے کھانے کی ٹرے کمرے میں بھجوا دیتی ہیں، کہتی ہیں بوڑھوں کو وبا زیادہ جلدی لگتی ہے، اس دن میری بات انور بھائی سے ہوئی تھی، میں نے جو کچھ بھی امی ابو کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہہ دیا کہ مجھے نہیں معلوم، میں تو زیادہ ان کے کمرے میں جاتا نہیں ہوں۔ بہت تنہا ہوگئے ہیں امی ابو۔‘‘ یہ کہتے کہتے لیلیٰ سسک پڑی۔
فائزہ نے جلدی سے اُسے لپٹا لیا۔ ’’اللہ بہتر کرے گا، پریشان مت ہو، بس دعا کرو یہ بیماری رخصت ہو اور امی ابو واپس آجائیں۔‘‘
اطہر کی کیفیت بہن سے مختلف نہ تھی، اُس سے کچھ بھی نہ کہا گیا، اُس کی نظریں بظاہر زمین پرجمی ہوئی تھیں مگر وہ دیکھ رہا تھا کہ مادّے کی وزنی چادر کے نیچے دبی حساس اور لطیف روح کیسے سسک رہی تھی، بین کررہی تھی۔ بہن سے اپنے آنسو چھپانے کے لیے اُس نے آنکھیں میچ لیں، بس گوشے ہی نم ہوسکے۔ اب آنسو اُس کے دل پر گر رہے تھے۔

حصہ