اسکول سے گھر کا فاصلہ آج بہت لمبا محسوس ہورہا تھا-یا شائد قدم سست اٹھ رہے تھے،موسم کی شدت بھی ذہن کی جامد کیفیت میں اپنا اثر کھو رہی تھی،سب کچھ روز جیسا ہی تو تھا۔
کرمو کی ٹافیوں ,پاپڑ چپس کی ریڑھی جسے وہ اسکول کی چھٹی کے وقت سجا کر لے آتا-آگے جاکر پھلوں کے ٹھیلےبھاگتے بچے ہارن بجاتی گاڑیاں اور سڑک کا کتا جو کان کھڑے کیے منہ اٹھائے بس کھڑا سب کو دیکھتا رہتا معلوم نہیں وہ کیسے بھانپ لیتا کہ جب کوئی بچہ اسے دیکھ کر ڈرتا تو وہ زور زور سے بھونکنے لگتا اور جب کوئی “بھپ” کہہ کر پاؤں زمین پر مارتا تو وہ دبک کر پیچھے ہوجاتا۔ سب کچھ روزجیسا ہی توہے۔
لیکن آج بابا نہیں ہیں بارہ سالہ وحید آج اکیلا ہی گھر جارہا تھا -روز دوپہر کےکھانے کی چھٹی پرتھوڑی دیر کے لیے وقت نکال کر بابا ضرور وحید کو اسکول لینے آجاتے اور بابا کو دیکھ کر وحید کے دل کی خوشی شرارتوں کی صورت ظاہر ہونے کو بےچین ہوجاتی۔وہ بابا کے آگے آگے بھاگتا، تھوڑی دور جاکر رک جاتا اور مڑ کر بابا کو دیکھتا۔اب بابا نہیں ہیں وہ چلے گئے اللہ میاں کے پاس چلے گئے اب وہ میرے پاس نہیں آئیں گے۔ وحید رونا نہیں چاہتا تھا مگر انسو خود بخود بہے جارہے تھے۔ وہ سڑک کنارے بنی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ وہ آج اسکول میں بھی بہت مشکل سے اپنے آنسو روک سکا تھا ، جب ماسٹر صاحب یتیم کے حقوق بچوں کو سمجھا رہے تھےانہوں نے بہت اچھی طرح سب کو سمجھایا کہ جس بچے کے ابو یا امی اللہ کے پاس چلے جائیں وہ یتیم ہوجاتا ہے اور اللہ کا حکم ہے کہ ایسے بچوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا جائے اس کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے-وحید کے بابا کے انتقال کی خبر اسکول میں بھی پہنچ چکی تھی – ہیڈ ماسٹر صاحب نے بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کروائ اور پھر سب کو سمجھایا کہ اپنے اس پاس موجود یتیم بچوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
وحید سوچ رہا تھا کہ سب یہ بتانا کیوں بھول گئے کہ اگر کسی بچے کے بابا اسے اکیلا چھوڑ کر اللہ میاں کے پاس چلے جائیں تو اسکے سامنے اپنے بچوں سے اس طرح لاڈ پیار نا کرو کہ یتیم بچے کی محرومی کا احساس اور شدید ہوجائے۔
اس وقت بھی وہ ایک باپ بیٹے کے محبت بھرے منظر کو دیکھ کر اپنے آنسو نہیں روک پایا تھا—یہ کیوں اپنے گھر جا کر اپنے بیٹے سے پیار کا اظہار نہیں کرلیتے – انہیں معلوم نہیں کہ انہیں دیکھ کر مجھے اپنے بابا یاد آرہے ہیں – وحید نے گھٹنوں پراپنا سر رکھ کر بازوّں کےگھیرے میں چھپالیا۔
“وحید!اٹھو یار گھر پہچنے میں دیر ہوجائے گی “۔
فرقان بھائی وحید کےپاس جھکے اسکی پیٹھ پر ہاتھ رکھے کہہ رہے تھے وہ وحید کے گھر کے پاس ہی رہتے تھے اور دسویں جماعت کے طالب علم تھے وحید کو اچھے بھی بہت لگتے تھے جب وہ ایک کاندھے پر اسپورٹس بیگ اور ہاتھ میں ہاکی اسٹک لے کر چلتے تو بلکل ایک ہیرو لگتے تھے ان سے وحید کی دوستی بھی بابا ہی نے کروائ تھی یہ کہہ کر کہ کبھی وقت نکال کر وہ وحید کو میتھس سمجھادیا کریں ۔
“ارے میرے چھوٹے دوست یہ آنسو کیسےمعلوم ہے رونے سے انسان کمزور ہوجاتا ہے اور میرا دوست تو بہادر ہے –ہے نا بہادر وحید مسکرا دیا اماں بھی مجھے بہادر کہتی ہیں ۔
“اچھا سنو! شام میں میرے ساتھ ہاکی کھیلنے گراونڈ چلنا ہے میں نے خالہ جان سے ایک گھنٹے کی اجازت لی ہے مغرب سے پہلے گھر چھوڑ دوں گا ہوم ورک کرکے رکھنا میں پانچ بجے تک لینے اجاوں گا “فرقان بھائی نے مسکرا کر کہا۔
“واقعی اپ مجھے ہاکی کھیلنا سیکھائیں گے “۔
وحید کے دل میں ایک امنگ جاگی۔
“ہاں کیوں نہیں میرا چھوٹادوست رونے والا بزدل بچہ نہیں بلکہ کھیلنے والا بہادربچہ جو ہے “۔
فرقان بھائی آج وحید کے لیے سچ مچ کے ہیرو بن گئے تھے۔