چچا کبابی دلّی والے

305

جامع مسجد کے پھلواری والے چبوترے کے نیچے پٹری پر جہاں اور کوئی دکان دار نہیں بیٹھتا تھا، شام کے پانچ چھ بجےایک کبابی صاحب دکان لگایا کرتے تھے اور رات کے بارہ ایک بجے تک کباب بیچتے تھے۔ ان کا نام مجھے معلوم نہیں۔ چچا کبابی کہلاتے تھے۔
چچا کبابی غدر 1857 کے دس بارہ سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے اور 1947 سے چند سال قبل انتقال کر گئے ۔ دلّی کے سیخ کے کباب اور گولے کے کباب مشہور ہیں۔ چچا کبابی دلّی کے ممتاز کبابی تھے۔ کباب بنانے کے اعتبار سے بھی اور انوکھی طبیعت کے اعتبار سے بھی۔ کباب بنانے کے کمال پر انھیں بڑا گھمنڈ تھا؛ اور طبیعت کا انوکھا پن تو اس سے عیاں ہے کہ اپنے لیے وہ جگہ انتخاب کی تھی جہاں گا ہک کو آنا ہو تو جامع مسجد کے جنوبی دروازے کی طرف کے دسیوں کبابیوں کو چھوڑ کر آئے ۔ ایک گیارہ برس کی لڑکی آگ کا تاؤ رکھنے کی غرض سے ہر وقت پنکھا ہاتھ میں پکڑے کھڑی رہتی تھی۔ غالباً ان کی بیٹی تھی ۔ ذرا تاؤ کم و بیش ہوا چچا کبابی کا پارہ چڑھا۔ غصہ ناک پر رکھا رہتا تھا، لیکن کیا مجال جو زبان سے بیہودہ لفظ نکل جائے۔
گاہکوں کو باری باری کر کے کباب دیتے تھے۔ اگر آپ ان کے ہاں اول مرتبہ تشریف لائے ہیں اور ان کی طبیعت سے واقف نہیں ہیں، اور دوسرے گاہکوں کی نسبت آپ کی حیثیت بلند ہے، صاف ستھرا پہنتے ہیں ، تانگہ یا موٹر روک کر کباب خریدنے اتر پڑے ہیں، آپ نے خیال کیا کہ مجھے ترجیح دی جانی چاہیے۔ ہاتھ بڑھایا، روپے تھمائے اور فرمایا۔ ڈیڑھ روپے کے کباب ذرا جلدی ۔‘ جلدی کا لفظ سنتے ہی چچاکبابی کا مزاج بگڑ جائے گا۔ وہ روپے واپس کر دیں گے اور کہیں گے۔ ”حضور ! جلدی ہے تو کسی اور سے لے لیجیے۔“
ایک روز ایک ذرا زندہ دل سے شخص چچا کبابی سے الجھ گئے ۔ انھوں نےچچا کبابی کے اس فقرے پر فقرہ جڑ دیا کہ ”بھائی ! اور سے ہی لے لیں گے، اللہ نے تمھارے کبابوں سے بچایا نہ جانے ہضم ہوتے یا کوئی آفت ڈھاتے۔“ چچا کبابی تلملا اٹھے۔ کہنے لگے ۔ ”حضور! کبابوں میں وہ مسالہ ڈالتا ہوں جسے مست بجار پر لتھیڑ دوں تو گھل کر گر پڑے۔ میرے کبابوں سے آپ کو تکلیف بہنچ جائے تو ہسپتال تک کا خرچ دوں گا لیکن کباب جلدی نہیں دے سکتا۔ جلدی میں کباب یا تو کچّے رہ جاتے ہیں یا جل جاتے ہیں اور دوسرے گاہکوں کا حق بھی چھنتا ہے، جو پہلےآیا ہے کباب اسے پہلے ملنے چاہئیں۔“
چچا کبابی دھونس نہیں برداشت کرتے تھے اور اپنے اصول کے مقابلے میں تعلقات کو بھول جاتے تھے۔ عزیز اور دوست بھی ان سے بغیر باری کے کباب نہیں لے سکتے تھے۔ آپ جائے، ان کو سلام کیجیے۔ جواب دیں گے، وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ ۔ پانوں کی ڈبیہ سامنے رکھ دیجیے۔ بے تکّلف پان کھالیں گے۔ زردہ خود مانگیں گے لیکن ناممکن ہے کہ سلام یا پان سے چچا کبابی پگھل جائیں ۔ کباب باری پر ہی دیں گے۔
ایک دفعہ میری موجودگی میں تیرہ چودہ برس کا ایک لڑکا آیا اور بولا:
”چار پیسے کے کباب دے دو“ چچا کبابی نے کہا ”نہیں بھائی میں تجھے کباب نہیں دوں گا۔“
اب وہ لڑ کا سر ہو رہا ہے اور خوشامدیں کر رہا ہے اور چچا کبابی انکار پر انکار کیے جاتے ہیں۔ جب بہت دیر اس حجت بازی میں گزر گئی تو کسی نے ہمت کر کے پوچھ لیا۔ ”چچا، کیا بات ہے۔ اسے کباب کیوں نہیں دے رہے؟‘‘
کہنے لگے ” میاں! یہ پیسے چرا کر لاتا ہے۔ گھر سے لاتا ہو یا کہیں اور سے ، روز چار پیسے کے کباب کھا جاتا ہے۔ یہیں بیٹھ کر دیکھو نا! اس کی صورت ۔ جا بیٹا جا۔ عادت کہیں اور جا کر بگاڑ میں تجھے چار پیسے کی خاطر تباہی کے راستے پر نہیں لگاؤں گا۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ تیرے ماں باپ چار پیسے روز تجھے کباب کھانے کے واسطے دیتے ہوں گے۔“
جو لوگ ان کی دکان پر تازے اور گرم گرم کباب کھا لیتے تھے، ان سے خوش ہوتے تھے۔ پیسے تھما یئے اوربتا دیجیے کہ اوپر جامع مسجد کے دالان میں انتظار کر رہا ہوں ۔ کباب بھیج دینا یا آواز دےدینا۔ ایسے لوگوں کے کباب گھی سے بگھارتے ، کبابوں میں بھیجا ملاتے۔ پیاز، پودینہ اور ہری مرچیں چھڑ کتے اور اپنے آدمی کے ہاتھ بھجوا دیتے ۔ اللہ بخشے مولانا راشد الخیری کو چچا کبابی کے ہاتھ کے کباب انہیں بے حد مرغوب تھے۔ وہ میرے ساتھ ہوتے تو میں بھی جامع مسجد چلا جاتا اور وہیں کباب منگا لیتا تھا۔ تازے کبابوں کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔

حصہ