25 سال کا ایک خوش شکل نوجوان پادری‘ پادریوں کے مخصوص لباس میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ میرپور خاص مسٹر دھنی بخش سومرو کی عدالت میں پیش ہوا۔ اس نے ایک درخواست پیش کر کے اے ڈی ایم مسٹر سومرو کو چونکا دیا۔ درخواست میں لکھا تھا کہ بقائمی ہوش و حواس‘ برضا و رغبت‘ بلا کسی جبر و کراہ اور پورے خلوصِ دل کے ساتھ میں عیسائیت ترک کر کے اسلام قبول کر رہا ہوں اور اپنے عیسوی نام جون جوزف کے بجائے اسلامی نام محمد یحییٰ اختیار کر رہا ہوں۔ درخواست گزار نے اے ڈی ایم کے روبرو کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور کلمہ شہادت پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔
نو مسلم محمد یحییٰ نے ایک تفصیلی ملاقات میں مختلف سوالات کے جواب دیے جن کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
…٭…
ایک سوال کے جواب میں جناب محمد یحییٰ نے بتایا کہ میں 1942ء میں ہندوستان کے شہر الٰہ آباد میں ایک عیسائی گھرانے میں پید اہوا تھا۔ میرے والد بھی پادری تھے۔ انٹرنس کرنے کے بعد میرے والد نے مجھے مسیحی خدمت کے لیے مشنری کے سپرد کر دیا۔ میرے والدین کی آرزو تھی کہ میں حکیمِ الہٰیات کا کورس کروں چنانچہ مجھے جھانسی بھیجا گیا۔ 1958ء میں تعلیم سے فارغ ہو کر واپس الٰہ آباد آگیا اور دینِ مسیح کی تبلیغ میں مصروف ہوگیا۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ میرے دادا جزائر مالدیپ کے مقامی باشندے تھے اور بدھ مت کے پیرو تھے۔ انہوں نے ایک مسیحی نرس سے شادی کی اور اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔ شادی کے آٹھ سال بعد ان کا انتقال ہو گیا اور پسماندگان میں میری دادی‘ ایک بیٹی اور دو بیٹے چھوڑ گئے۔ دادی اپنے تینوں بچوں کو لے کر ہندوستان آگئیں اور بمبئی کے قریب کلیان میں رہنے لگیں۔ میرے والد‘ چچا اور پھوپھی کی تعلیم و تربیت مشن کی سرپرستی میں ہوئی۔ ان تینوں کی شادی کلیان ہی میں ہوئی۔ میرے والد مشنری خدمات انجام دیتے رہے اور الٰہ آباد میں بودوباش اختیار کی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ میرے والد اب بھی الٰہ آباد (بھارت) میں یونیورسٹی روڈ پتھر والا گرجا میں پادری کی خدمات انجام دے رہے ہیں اور میرے بڑے بھائی بمبئی میں انفارمیشن سینٹر کے جنرل سیکرٹری ہیں۔
محمد یحییٰ نے کہا کہ میں دو ماہ تک الٰہ آبادی میں دین ِ مسیحی کی تبلیغ میں مصروف رہا۔ جب میرے والد نے محسوس کیا کہ میں دیگر شہروں میں بھی خدمات انجام دے سکتا ہوں تو مجھے ہندوستان کے دوسرے شہروں ہوشنگ آباد‘ بھوپال‘ رائے سین‘ جے پور‘ چیلدون‘ جودھ پور اور آگرہ بھیجا گیا۔ اکتوبر 1961ء میں مجھے کلکتہ بھیجا گیا جہاں سے میرا تبادلہ ڈھاکہ پاکستان کر دیا گیا۔ چنانچہ میں ندیا پور کے راستے ڈھاکہ آگیا۔ ڈھاکہ آکر میں چرچ ہائوس عظیم پورہ میں قیام پذیر ہوا اور دینِ مسیحی کی تبلیغ میں مصروف ہو گیا۔ ڈھاکہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد میں کراچی آگیا جہاں میں نے پوری سرگرمی سے غریبوں کی بستیوں میں عیسائیت کی تبلیغ شروع کردی۔ خصوصاً خاکروبوں کی کالونیوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد غریب مسلم آبادیوں میں بھی مختلف طریقوں سے خدمات انجام دیتا رہا۔ میں نے ان آبادیوں میں تعلیمِ بالغاں کے مراکز اور شفا خانے وغیرہ قائم کیے۔ کچھ عرصے بعد حیدرآباد میں پاکستان بائبل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (پی بی ٹی آئی) میں مسٹر پاتھ کے ساتھ سرگرم ہو گیا۔ اسی دوران میں نے کوٹری میں مقا می باشندوں کو مسیحیت کی تعلیم دی اور ایک چرچ تعمیر کرایا۔ بعد میں بھان سعیدآباد‘ دادو‘ لاڑکانہ‘ خیرپور ناتھن شاہ‘ شکارپور‘ خیرپور میرس کے دورے کیے اس کے بعد میں لاہور چلا گیا۔ وہاں سے پھر واپس کراچی آیا۔ جب میں دوبارہ کراچی آیا تو میری زندگی میں ایک انقلاب شروع ہوا۔ ہوا یہ کہ کراچی میں چند تعلیم یافتہ مسلمانوں سے ملاقات ہوئی جن سے بحث کے دوران میرے عقائد متزلزل اور میرے علم کی عمارت ڈانوں ڈول ہونے لگی۔ میں نے دوبارہ بائبل کا لفظ بہ لفظ مطالعہ کیا۔ چاروں انجیلیں غور سے پڑھنی شروع کیں تو معلوم ہوا کہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں انجیل میں آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت دی گئی ہے۔ اب میں نے مسیحی علما اور یہودی علما سے تبادلہ خیال شروع کیا۔ کراچی میں یہودیوںکے بعض علما سے یہودی عقائد‘ مسیحی عقائد اور مسلم عقائد پر بات چیت کی۔ پادری عالموں سے بھی تبادلہ خیال ہوا لیکن میری تسلی نہ ہو سکی۔
اسی دوران ایک مسلمان دوست نے مجھے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ مطالعے کے لیے دی جس نے میرے اندر حیرت انگیز انقلابات پیدا کر دیا۔ تفہیم کے مطالعے کے بعد معلوم ہوا کہ نبی آخر الزماں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانے کی بشارتیں انجیل مقدس میں خاصے اہتمام اور وضاحت کے ساتھ پائی جاتی ہیں اور عقیدۂ تثلیث حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔ خود انجیل عقیدہ تثلیث و الوہیتِ مسیح کو رد کر رہی ہے۔ اب میری ملاقاتیں مسلم دوستوں سے بڑھتی جارہی تھیں۔ اگرچہ میں بظاہر عیسائی تھا لیکن دل میں تقریباً مسلمان ہو چکا تھا۔ میرے افسرانِ بالا کو میری اس تبدیلی کا کچھ شک ہوا تو انہوں نے مجھے تبلیغی کام کے بجائے دفتری کام پر لگا دیا اور بعد میں سزا کے طور پر مجھے میرپور خاص بھیج دیا گیا۔ یہاں سے مجھے دو ماہ کے لیے بائبل کی مزید تعلیم و تربیت کی خاطر ڈیرہ اسماعیل خان بھیجا جانے والا تھا‘ لیکن اللہ نے میری مدد کی اور میں نے میرپور خاص آنے کے ایک ماہ بعد ہی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں حاضر ہو کر حلف نامہ داخل کرا دیا اور اسلام قبول کر لیا۔
اللہ کا شکر ہے کہ اب میں مسلمان ہوں۔ میرا مذہب اسلام ہے۔ میرے لیے تمام مسلمان بھائی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اسلام پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔