علامہ اقبال
يہ سرود قمري و بلبل فريب گوش ہے
باطن ہنگامہ آباد چمن خاموش ہے
تيرے پيمانوں کا ہے يہ اے مےء مغرب اثر
خندہ زن ساقي ہے، ساري انجمن بے ہوش ہے
دہر کے غم خانے ميں تيرا پتا ملتا نہيں
جرم تھا کيا آفرينش بھي کہ تو روپوش ہے
آہ! دنيا دل سمجھتي ہے جسے، وہ دل نہيں
پہلوئے انساں ميں اک ہنگامہء خاموش ہے
زندگي کي رہ ميں چل، ليکن ذرا بچ بچ کے چل
يہ سمجھ لے کوئي مينا خانہ بار دوش ہے
جس کے دم سے دلي و لاہور ہم پہلو ہوئے
آہ، اے اقبال وہ بلبل بھي اب خاموش ہے
…٭…
قتیل شفائی
گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
بچ نکلتے ہیں اگر آتشِ سیالّ سے ہم
شعلۂ عارضِ گلفام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں
ربطِ باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
…٭…
افتخار عارف
اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے
دل نہیں ہوگا تو بیعت نہیں ہوگی ہم سے
روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ
رزق برحق ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے
دل کے معبود جبینوں کے خدائی سے الگ
ایسے عالم میں عبادت نہیں ہوگی ہم سے
اجرتِ عشق وفا ہے تو ہم ایسے مزدور
کچھ بھی کر لیں گے یہ محنت نہیں ہوگی ہم سے
ہر نئی نسل کو اک تازہ مدینے کی تلاش
صاحبو اب کوئی ہجرت نہیں ہوگی ہم سے
سخن آرائی کی صورت تو نکل سکتی ہے
پر یہ چکی کی مشقت نہیں ہوگی ہم سے
…٭…
احمد جاوید
ہمیشہ دل ہوسِ انتقام پر رکھّا
خود اپنا نام بھی دشمن کے نام پر رکھّا
وہ بادشاہِ فراق و وصال ہے اس نے
جو بار سب پہ گراں تھا غلام پر رکھّا
کیے ہیں سب کو عطا اس نے عہدہ و منصب
مجھے بھی سینہ خراشی کے کام پر رکھّا
کوئی سوار اٹھا ہے پسِ غبار فنا
قضا نے ہاتھ کلاہ و نیام پر رکھّا
کسی نے بے سر و پائی کے باوجود مجھے
زمینِ سجدہ و ارضِ قیام پر رکھّا
…٭…
ندا فاضلی
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
چراغ جلتے ہی بینائی بجھنے لگتی ہے
خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا
…٭…
مضطر خیرآبادی
علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا
عدو کو چھوڑ دو پھر جان بھی مانگو تو حاضر ہے
تم ایسا کر نہیں سکتے تو ایسا ہو نہیں سکتا
ابھی مرتے ہیں ہم جینے کا طعنہ پھر نہ دینا تم
یہ طعنہ ان کو دینا جن سے ایسا ہو نہیں سکتا
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
دمِ آخر مری بالیں پہ مجمع ہے حسینوں کا
فرشتہ موت کا پھر آئے پردا ہو نہیں سکتا
نہ برتو ان سے اپنائیت کے تم برتاؤ اے مضطرؔ
پرایا مال ان باتوں سے اپنا ہو نہیں سکتا
…٭…
عدیم ہاشمی
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
میں تری صورت لیے سارے زمانے میں پھرا
ساری دنیا میں مگر کوئی ترے جیسا نہ تھا
آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں
تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا
سینکڑوں طوفان لفظوں میں دبے تھے زیر لب
ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جو ہٹتا نہ تھا
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا
مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیمؔ
ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا
…٭…
منتخب اشعار/ارشد علی خان قلق
بے سبب غنچے چٹکتے نہیں گلزاروں میں
پھر رہا ہے یہ ڈھنڈھورا تری رعنائی کا
…٭…
اگر نہ جامۂ ہستی مرا نکل جاتا
تو اور تھوڑے دنوں یہ لباس چل جاتا
…٭…
گھاٹ پر تلوار کے نہلائیو میّت مری
کشتۂ ابرو ہوں میں کیا غسلِ خانہ چاہئے
…٭…
زمین پاؤں کے نیچے سے سرکی جاتی ہے
ہمیں نہ چھیڑئیے ہم ہیں فلک ستائے ہوئے
…٭…
جلیل مانک پوری
آج تک دل کی آرزو ہے وہی
پھول مرجھا گیا ہے بو ہے وہی
سو بہاریں جہاں میں آئی گئیں
مایۂ صد بہار تو ہے وہی
جو ہو پوری وہ آرزو ہی نہیں
جو نہ پوری ہو آرزو ہے وہی
مان لیتا ہوں تیرے وعدے کو
بھول جاتا ہوں میں کہ تو ہے وہی
تجھ سے سو بار مل چکے لیکن
تجھ سے ملنے کی آرزو ہے وہی
صبر آ جائے اس کی کیا امید
میں وہی، دل وہی ہے، تو ہے وہی
ہو گئی ہے بہار میں کچھ اور
ورنہ ساغر وہی سبو ہے وہی
عمر گزری تلاش میں لیکن
گرمیٔ ہائے جستجو ہے وہی
…٭…
اکبر الہ آبادی
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
یہ طرز احسان کرنے کا تمہیں کو زیب دیتا ہے
مرض میں مبتلا کر کے مریضوں کو دوا دینا
بلائیں لیتے ہیں ان کی ہم ان پر جان دیتے ہیں
یہ سودا دید کے قابل ہے کیا لینا ہے کیا دینا
خدا کی یاد میں محویت دل بادشاہی ہے
مگر آساں نہیں ہے ساری دنیا کو بھلا دینا
منتخب اشعار/ارشد علی خان قلق
اکبر الہ آبادی کے منتخب اشعار
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
…٭…
رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا
ہم یاد خدا کرتے ہیں کر لے نہ خدا یاد
…٭…
اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے
…٭…
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے
…٭…
میں بھی گریجویٹ ہوں تم بھی گریجویٹ
علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آ کے لیٹ
…٭…
بی.اے. بھی پاس ہوں ملے بی بی بھی دل پسند
محنت کی ہے وہ بات یہ قسمت کی بات ہے
…٭…
لپٹ بھی جا نہ رک اکبرؔ غضب کی بیوٹی ہے
نہیں نہیں پہ نہ جا یہ حیا کی ڈیوٹی ہے
…٭…
غضب ہے وہ ضدی بڑے ہو گئے
میں لیٹا تو اٹھ کے کھڑے ہو گئے
…٭…
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
…٭…
اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا
…٭…
حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا
کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے
…٭…
جو وقت ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کر
مسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے
…٭…
کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا
…٭…