خواہش

240

آمنہ سمجھ شعور رکھنے والی سلیقہ مند اور سلجھی ہوئی لڑکی ہے‘ آج اپنی شادی کے دن بہت خوش تھی کہ اس کی زندگی کا ہم سفر جو بننے جارہا ہے وہ ایک پڑھا لکھا میٹرک پاس انسان ہے۔ اس کی زندگی کی ایک بڑی خواہش یہی تھی کہ اس کا شوہر پڑھا لکھا سمجھ اور شعور رکھنے والا انسان ہو کیوں کہ اسے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ تھا جب کہ اس نے تو کبھی اسکول میں نہیں پڑھا تھا۔
تعلیم سے محبت‘ سمجھ اورشعوراسے اپنی تائی امی کی طرف سے ملا ‘اس کی تائی امی نے اسے قرآن پاک اور اردو لکھنا پڑھنا سکھایا۔ علم سے محبت اللہ نے اس کے دل میں ڈال رکھی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ تعلیم یافتہ شریکِ حیات پانے کی خوشی سے سرشار تھی۔
شادی کے بعداحمد سے اس کی اسکول کی زندگی کے بارے میں جاننا چاہا۔ وہ بولی آپ کااسکول کیسا تھا استاد کیسے تھے آپ اگلی ڈیسک پر بیٹھتے تھے یا پچھلی پر بیٹھتے۔
احمد بولے میں کبھی اسکول نہیں گیا میں چھوٹا تھا جب سے ہی اپنی دکان پر اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہوں۔
وقت آمنہ کو کس موڑ پر لے آیا جب چار دن کی بیاہی دلہن کو معلوم ہوا کہ اس کے شریک حیاتنے توکبھی اسکول کا رُخ ہی نہیں کیا‘ اسے تو ٹھیک طرح اپنا نام بھی لکھنا نہیں آتا‘ آمنہ کو محسوس ہوا کہ پہاڑ کی چوٹی سے لڑھکتی ہوئی وہ پتھریلی زمین پر آ گری ہے اتنا بڑا دھوکا وہ کیسے سہتی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے آپ کوکیسے سنبھالے۔ ذہن اس بات کو قبول کرنے سے قاصر تھا۔
دو دن سے وہ اپنے میکے میں تھی پتھر کا بت بنی سوچوں میں گم تھی۔ تائی امی نے اسے بتایا کہ احمد تمہیں لینے آئے ہیں مگر اسے احمد کا سامنا کرتے ہوئے وحشت اور کراہیت ہو رہی تھی۔ ایک ایک کر کے سب گھر والے اسے احمد کے آنے کی اطلاع دے رہے تھے وہ سب کو نظر انداز کر رہی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں احمد خود اس کے پاس آ موجود ہوئے اور اپنی صفائی میں بس اتنا کہا !کہ مجھے اور میرے والدین کو نہیں معلوم تھا‘ ہم اس بات سے بے خبر تھے یہ سب جھوٹ میری بہنوں اور بھابھیوں نے بولا ہے‘ میرا خیال ہے کہ ہم دونوں زندگی کے اچھے ہم سفر ہوں گے میری چھوٹی سی دکان ہے جس سے ہم اچھا گزارا کر لیں گے۔
آمنہ کا دل تو تھا ہی موم کا بنا ہوا کب پگھل گیا پتا ہی نہ چلا اور وہ اپنے دولہا کے ساتھ پھر سے رخصت ہوگی۔ اسے میکے والوں کی پوری سپورٹ تھی کہ وہ اپنا فیصلہ کر سکتی ہے۔
اس کی امی نے کہا! میری بیٹی اگر ان پڑھ شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو واپس آجاؤمگر اس نے اپنی امی کو سمجھاتے ہوئے کہا میں نے کہیں پڑھا تھا میاں بیوی کا رشتہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے ہے بس میں اب اس رشتے کو نبھاؤں گی۔
پڑوس میں تفسیر قرآن کی کلاس میں اس نے پہلی مرتبہ شرکت کی۔ وہاں شاہدہ باجی سے مل کر اس کے لیے علم کا دروازہ کھل گیا‘ اس کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ شادی سے پہلے یہ مواقع کبھی میسر نہ تھے آج آگے بڑھنے کے راستے اس کے سامنے کھلے ہوئے تھے۔
شاہدہ باجی کے ساتھ گھر گھر جا کر خواتین کو درس قرآن کی دعوت دینے اور رفاہی اور فلاحی کاموں کے حوالے سے وہ محلے میں پہچانی جانے لگی۔ اب شاہدہ باجی اس کے لیے بہترین استانی، پڑوسن، سہیلی اور بہن تھیں۔ تفسیر قرآن کی کلاس مکمل ہوئی تو شاہدہ باجی نے کہاآمنہ تعلیم کے اس سلسلے کو اب روکنا نہیں‘ آگے بھی مزید تعلیم حاصل کرتی رہو۔ آمنہ نے مزید کورسس کر ڈالے جس میں فہم القرآن ،حدیث ،عربی گرامر وغیرہ تھے۔
ساس اور سسر کا شفقت بھرا ہاتھ اس کے سر پر تھا جس سے اسے آگے بڑھنے میں بہت مدد ملی۔ احمد کو خود تو پڑھنے کا کوئی شوق نہ تھا مگر وہ اکثر کہتے تمہاری تعلیم نے اس گھر کو سنوار دیا ہے مجھے بہت خوشی ہوتی ہے تمہیں یوں پڑھتے اور پڑھاتے دیکھ کر۔
آمنہ کی زندگی ،گھر بار اور آخرت سنوارنے میں شاہدہ باجی کا بڑا کردار تھا۔سچ ہے اچھی صحبت بڑی نعمت ہے۔

حصہ