کاہلی سے بہادری تک

617

ارادے باندھتا ہوں ، سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے ، کہیں ویسا نہ ہو جائے
(حفیظؔ جالندھری)
ہمارے سماج کی بے سمت آبادیاں جوسو بہانے سے کتاب کھولنے سے گریزاں ، مہمات سے نالاں رہتی ہیں۔ یہ ایسے بے فکروں کا گروہ ہے جنھوں نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ بہانہ سازی کا ہنر سیکھنے میں لگارکھا ہے۔ زندگی کا ایک سادہ سا اصول ہے کہ اگر کوئی شخص کام سے فرار ہورہاہے تووہ شخص اس وقت رنگین بہانے تراش رہا ہے۔ اپنے عزم کے انگاروں کو بہانوں کے کیچڑ میں بجھارہا ہے۔گھڑے ہوئے بہانےتراشے عذر ،توجہ ہٹانے والی سرگرمیاں، وقت کی کھاٹ پر بکھرا ہوا وجود صرف ٹال مٹول کرنے والے کی پہچان ہوتی ہے۔ یہ بہانے ہی تو ہیں جو زندگی کی بڑی بڑی رسوائیوں کی میزبانی میں لگی رہتی ہیں۔بہانہ باز شخص مہذب آرزئوں کا قاتل ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا سوائے کاہلی کی لذت کے۔بہانوں کے بہائو پر ڈولتی زندگی سوائے بے طاقتی کا احساس کے اور کوئی شناخت نہیں دیتی۔ دنیا ان سے ہر نعمت میں کمی کا شکوہ سنتی ہے جو دراصل ان کے حوصلوں کی کمی، تمنا کی قوت کی محرومی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔بہانوں سے بھری عزائم سے خالی ان کی دنیا ایک لعنت سے کم نہیں ہوتی۔یہ اپنے خاکی بدن کے اندر چھپے نوری روح کے وجود پر شک کرتے ہیں کہ میں غیر مقدس ہوں۔ مجھے اعلی نسل کی لاٹری نہیں ملی۔ان کی ذات کا نور کاہلی کے کہرے میں گھر ا رہتا ہے۔کائی و کیچڑ سے چپکی ان کی زندگی انھیں مردار خوری کی عادات ڈالتی ہے۔ دوسروں کی کمائی پر جینا چاہتے ہیں۔ ان کی آنکھ جاگتی ہے لیکن پائوں سوتے ہیں۔ہمت چور خیالات ہمیشہ ان کے ارادوں کی سرحدوں پر ایک قدم اٹھائے لکیر پرلٹکے رہتے ہیں۔پیش رفت نہیں کرتے۔ انھیں کام ایسے لگتا ہے جیسے ہڈیاں سمیٹ کر خود کو روندتا ہوا بڑھ رہا ہوں۔ جیسے کوئی ہاتھی کو اپنی پیٹھ پر ڈھورہاہوں۔ جب کہ بہانہ ایک خیال سے زیادہ کچھ نہیں۔خیال جان دار ہوگا تو بدن توانا رہے گا۔
بہانوں کے اولین پڑاو میں ’کاہلی ‘ کا ایک لمحاتی پڑاو ہوتا ہے جیسے ہم غیر شعوری طور پر محفوظ ٹھکانہ سمجھ لیتے ہیں۔ جس میں دبک کر پناہ ڈھونڈتے ہیں ۔جس کے ایک خوفناک جال میں پھنس جاتے ہیں۔اسی بہانے کی اوٹ میں ہماری تمنا وںکی قبر یں تیار ہوتی ہیں۔ جہاں ہمارے عزائم گاڑ دیئے جاتے ہیں۔ جہاں ہمارے ارادوں کوزندہ جلایا جاتا ہے۔ کاہل ، بہانہ باز لوگ دراصل مقاصد کے مجرم ہوتے ہیں۔ایسے لوگوں سے ایسے دور بھاگنا چاہیے جیسے کوئی پاگل و بدروح سے دور بھاگتاہے۔ کیوں کہ کاہل لوگ افسانوں کے نہیں بلکہ روشن دوپہر کے بھوت ہوتے ہیں۔برف کی طرح سردجس میں کچھ نہیں اُگتا۔یا پھر سر سے پیرتک سوکھا۔دماغی قحط‘حواس بنجر‘خزاں رسیدہ زندگی ، نہ جذبات میں گرمی نہ تمناوں میں حدت اور نہ ارادوں میں حرارت ہوتی ہے۔جن کی زندگی کے دن مردوں کی طرح سونے میں بلکہ وہ تو مُردوں سے شرط باندھ کر سوتے ہیں۔ رات الوئوں کی طرح جاگ کر گزارتے ہیں۔ نہ جانے وہ کون سی صبح ِ سعادت کا انتظار کر رہے ہیں۔ کیسی دوپہر دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ کس رنگ کی شام کو شادماں کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی حیلہ سازی جس سے شخصیت کی بنیاد ہل جاتی ہے۔ ان کے لیے ٹال مٹول ایک ایسا گھن چکر رہتا ہے کہ آج مرے رہو؛کل جی اٹھو تو پھر کرلینا۔نہ انھیںکاروبار کی آندھیوں کے مزاج کا پتا ہوتا ہے ۔ زندگی تو جاگتے ہی سویراہے۔ زور دار مرد کمزور ارادوں کی چاکری کرتے ہوئے بھلے نہیں لگتے بلکہ یہ بڑی بڑی آرزئوں کو پیارے ہوجاتے ہیں۔کبھی انھیں عام سی مصروفیات کابھنور ڈبوتا ہے اور کبھی تذبذب سے ٹھٹھر جاتے ہیں۔
اس کے برعکس محنت کش کے ہاتھوں کے چھالے تو اس کی کتاب زندگی کا سر ورق ہوتے ہیں۔ جس میں اس کے درد کی داستان چھپی ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی کیا کم ہیں کہ سوکھے ہوئے چھالے بھی ہتھیلیوں کی بساط پر حوصلے کی چٹان بن کر ان زخمو ں کو سہنے اور ان پر ہنسنے کا ہنر سکھا جاتے ہیں۔ اسی لیے ایک مزدو کی ہتھیلی کو نبی رحمت ﷺنے اپنے ہونٹوں سے چوم لیا تھاتاکہ اس کے درد کی داستان کو نبوت کا خراج ملے۔اور ان ہاتھوں کو پتھرکی سختیاں موم کی طرح نرم لگے ۔
ہر بہانے پر بھٹکنے سے پہلے خود سے یہ سوال کریں کہ کیا یہ حقیقت ہے؟یہ بہانہ کہاں سے میرے ذہن میں آیا ہے؟اگر میں یہ کام کرگزروں تو میرا کیا فائدہ ہوگا؟میری زندگی کی کیسے بہترین ہوگی اگر میں اس بہانے کو رد کردوں؟
بہانے کا جواب ایسے تلاش کریں۔ اور بہانوں سے بچنے کی تدابیردیکھیں:
یہ کام بہت مشکل ہے ۔ (فرار کے سبب یہ خیال آتا ہے۔ بھگوڑوں کامقدر رسوائی ہے۔ اس ذلت سے نکل آئیں)۔
اس کام میں بڑا خطرہ ہے۔(کوئی کام بھی خطروں کے بغیر نہیں۔ ہماری پیدائش بھی ہماری ماں کی جان جوکھم تھی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں )۔
اگر میں یہ کام کرگزروں تو لوگ کیا کہیں گے ۔(اچھے لوگوں کے پاس فالتو وقت نہیں۔ فالتو لوگوں کا کہنا بھی کوئی وقعت رکھتا ہے؟)۔
یہ کام میری فطرت کے خلاف ہے۔ ( ننا وے فیصداچھے کام تربیت، مشقت اور مستقل مزاجی کے سبب ہوتے ہیں۔ جہاں ایک فیصد ہی ذاتی پسند کا حصہ ہوتا ہے۔تبدیلی کا ہر دم امکان رہتا ہے)۔
میری کوئی بھی مدد نہیں کرے گا ( خدا، فطرت، سماج آپ کے ساتھ ہیں آگے بڑھیں)۔
میں کمزور ہوں ( نہیں ، آپ کے ساتھ خدائی ہے۔ اس کی رحمت ہے۔)
میں عمر گزار چکا یا میں ابھی چھوٹا ہوں ( مہمات کو عمر نہیں عزائم کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمر کے کم زیادہ ہونا ہے کام کی مناسبت سے عزت و اکرام دے گا )۔
میں بہت الجھا ہوا مصروف شخص ہوں ( دل پسند کاموں سے بڑھ کر کوئی مصروفیت اہم نہیں ۔ہر الجھن کا حل ہی بڑے کام کی سمت قدم بڑھانا۔)
میں منصوبہ کیسے بناوں۔ مجھے تجربہ نہیں دل کی بات کاغذ پر رکھیں۔لکھ کر سوچیں او ر اس سوچ پر اقدام کریں۔)
دعا: جس نتیجہ پر بھی آپ اپنے عزم کی ڈور کے سہارے پہنچے ہوں وہیں سے رب سے جڑجائیں اور وہی دل کی آواز کو عرش تک بھیج دیںاور عہد کریں ’’میں عہد کرتا ہوں کہ اپنے کام کو مکمل کرنے تک جاری رکھوں گا۔‘‘پھر اقدامات ہی سے جڑ جائیں ورنہ اس کی مثال ایسے ہے خزانوں کو پانے کے بعد اس کو کیچڑ میں ڈھکیل کر چلے آنا۔

حصہ