سوشل میڈیا پر “مینار پاکستان” سوالات ہی سوالات

314

کیوں مینار پاکستان پر فیملی یا خواتین کےلیے الگ حصے نہیں بن سکے ؟کیوں مزار قائد پر بھی آج تک فیملی سیکشن علیحدہ نہیں بن سکا؟ کئی واقعات کے باوجود اضافی نفری و سیکیورٹی اقبال پارک پر کیوں نہیں تعینات کی گئی؟الگ سیکشن نہیں بن سکے تو کم از کم بڑے رش والے ایام جیسے 23مارچ، 14اگست،6ستمبر، 25دسمبر و دیگر ایام میں مرد و خواتین کے لیے الگ حصہ کیوں نہیں مختص کیے گئے ؟عام محلہ میں فیملی پارک ہو تو وہاں صرف مرد حضرات داخل نہیں ہونے دیے جاتے تو یہ تو اس سے زیادہ اہم مقامات ہیں۔ مزار قائد کا پارک کراچی میں پہلے ہی ایسی عدم احتیاطی تدابیرکی وجہ سے بدنام ہوا ہے۔اسی طرح اب گریٹر اقبال پارک یعنی مینار پاکستان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیوں؟اہم بات یہ ہے کہ یہ اس طرح کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس کے باوجود یہ سوالات آپ کو کہیں بڑے پیمانے پر ڈسکس ہوتے نظر نہیں آئیں گے ۔ہفتہ بھرکا ابتدائی حصہ سوشل میڈیا پر طالبان کی کامیابی ،افغانستان کا مستقبل،امریکی شکست، بھارتی رونے دھونے اور پاکستانیوں کے جشن میں گزرا، پھر قیام پاکستان آگیا اور اسکے بعد مینار پاکستان سانحہ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عائشہ بھی پاکستان کی ایک بیٹی ہے ۔ خاتون کے ساتھ ان کے اطراف میں موجود مرد حضرات نے رش،دھکم پیل کا بہت ناجائز اور غلط فائدہ اٹھایا جو قابل سزا عمل ہے۔20اگست کو واقعہ کی قانونی جانچ کے ذیل میں میڈیکل رپورٹ سامنے آئی جس نے خاتون پر صرف خراشوں، سوجن و نیل پڑنے کی تصدیق کی ہے۔مگر جب یہ سوال اٹھا کہ خاتون نے 14 اگست کو مقامی تھانے میں کسی قسم کی رپورٹ درج کرانے سے کیوں معذرت کی تھی تو اس کا کوئی جواب نہیں۔
واقعہ 14اگست کو ہونے کے 2 دن بعد کیوں میڈیا پررپورٹ ہوا؟ خاتون کے مطابق وہ اپنی 12افراد کی ٹیم کے ساتھ وہاں گئی تھیں توان کے ساتھ یہ سب کیسے ہو گیا؟ اگر خاتون کے ساتھ ایسا ہوا تو ان کی ٹیم میں موجود 12افراد کے ساتھ کیا ہوا یہ کیوں نہیں بتایا جا رہا ؟پھریہ جو بار بار400 کی تعداد بتائی جا رہی ہے ،ویڈیو دیکھنے والے خود بتا سکتے ہیں کہ کئی فوٹیجز میں یہ تعداد 40بھی نہیں ہو سکتی، پھر کیوں 400 کی گردان لگائی جا رہی ہے؟14اگست کے واقعہ کے بعد متاثرہ خاتون اپنی جو تصاویر شئیر کر رہی تھیں وہ کیا تھا؟کیا ایسی اندھیر نگری مچی ہوئی ہے کہ کوئی لڑکی قومی دن کے موقع پر قومی پارک میں گھوم رہی ہو اورچارسوفراد اس پر اِس طرح ٹوٹ پڑیں، چاہے دیہاتی ہوں یا شہری۔کیا 14اگست 2021کو لاہور میں مینار پاکستان پر صرف یہی ایک لڑکی موجود تھی جو اس طرح گھوم رہی تھی؟ اب آپ جانتے ہیں کہ اس ساری سرگرمی کا ایک نتیجہ کیا نکلا۔اگر اب کوئی دنیا میں گوگل پر مینار پاکستان پر سرچ کرے گا تو جانتے ہیں کہ وہ کیا نتیجہ دکھائے گا ؟ ابھی تجربہ کر کے دیکھ لیں۔اس واقعہ پر کتنے ہی سوال اٹھا دیں، کم ہیں۔اس پورے عمل میں جو بھی سوال اٹھائے گئے ہیں وہ تمام ’ٹک ٹاک‘سائنس کو ایک طرف رکھ کر بات کی ہے مطلب متاثرہ خاتون کی ’’ٹک ٹاک ‘‘ کی سابقہ ویڈیوز کے سامنے آنے پر جو تاثر بنا ہے،خاتون کے پروفائل کی دیگر تصاویر دیکھ کر جو خاتون کے بارے میں جوتاثر بنا ہے اس کوایک طرف رکھ لیا جائے تب بھی ڈھیروں سوالات ہیں جو آج بھی حل ہونا باقی ہیں۔مینار پاکستان پر ہونے والا واقعہ جس طرح پاکستانی میڈیا نے سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کی وجہ سے پیش کیا ہے وہ صرف اور صرف دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔اس سے قبل سوات والی جعلی ویڈیو کو شاید لوگ بھول گئے مگر اس سے حاصل ہونے والا سبق صرف یہی تھا کہ خبر کی تصدیق اور اس کی ہر پہلو سے شفافیت جاننا لازمی ہے بلکہ ایس او پی ہے،مگر افسوس کہ تیز ترین سوشل میڈیا کے ابلاغی دور میں سب کچھ روند دیا گیا۔
یہ صرف مینار پاکستان کے معاملے میں نہیں ہوا۔افغانستان کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ابھی کچھ ہوا ہی نہیں کہ بڑے بڑے تجزیے شروع ،عام معافی کا اعلان دنیا بھر میں نشر ہو گیا مگر لوگ جہاز سے کود رہے ہیں،باقی لوگ ویڈیو بنا رہے ہیں۔افغانستان کے معاملے میں بھی سب قبل از وقت تجزیوں، تبصروں کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔صورتحال بھی لمحہ لمحہ بدل رہی ہے اور اس کو دیکھ کر سب کے تبصرے بھی اسی طرح یو ٹرن،وائی ٹرن، ایل ٹرن لیتے نظر آئے۔جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے جس میں بہت زیادہ شور شرابہ ہو اور حقیقت مکمل طور پر واضح نہ ہو یا تصدیق نہ ہوئی ہو توبات کرنے و تبصرے کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ہم اسکرینوں سے جڑے جس دورمیں جی رہے ہیں اس میں اب ہماری مرضی بہت ہی کم رہ گئی ہے،اسکرین پر چلنے والا مواد ہمیں جس جانب بہانا چاہے لے جاتا ہے۔20اگست کی شام کو کراچی پریس کلب کے باہر انڈس ہسپتال کی انتظامیہ کے خواجہ سراؤں سے کسی رویے اور سانحہ لاہور کے خلاف شیما کرمانی اینڈ کمپنی سخت سزاؤں کا مطالبہ لے کر جمع تھی۔معاملہ کہیں آگے لے جایا جا رہا تھا۔سوشل میڈیا پر زبردستی پاکستانی مردوں کے کردار پر خوب سوال اٹھائے گئے۔
سب سے زیادہ ناقابل ہضم بات یہ تھی کہ 400 لوگوں نے اس لڑکی کو ایک وقت میں ہوس کا نشانہ کیسے بنا لیا؟پھر خاتون نے کیوں پہلے انٹرویو میں یاسر شامی کو مجبور کیا کہ اس کا چہرہ دکھایا جائے ؟کون سی خاتون یہ چاہتی ہوگی کہ بقول اس کے چار سو افراد اس کے ساتھ زیادتی کریں اور وہ دنیا کے سامنے اپنے آپ کو بڑے اطمینان کے ساتھ انٹرویو میں پیش کرے۔سوشل میڈیا پر اقرار الحسن کے خلاف بھی ٹرینڈ چل پڑا جب اس بات کو اچھالا گیا کہ اپنی ریٹنگ کی خاطر لڑکی کو جان بوجھ کر ایشو بنوانے پر مجبور کیا گیا،کیونکہ اس کے نتیجے میں پاکستان کا نام بدنام ہونا محسوس ہو رہا تھا۔پاکستان میں تین چارسال سے زیادتیوں کے واقعات خوب ہائی لائٹ کیے جا رہے ہیں،مگر اس کی اہم وجہ پھیلتی فحاشی و گندگی کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ قبرستان میں قبر کے اندر کفن میں لپٹی لاش کونسی فحاشی پھیلا رہی ہے جو اس کو بھی نہیں چھوڑا جاتا؟وزیر اعظم جب بھی خواتین کے لباس پر بات کرتے ہیں ان کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،مگر یہ بات سب جانتے ہیں کہ فحش پھیلانے والوں کو تو کوئی نشانہ بناتا ہی نہیں ان کے عمل سے متاثر ہو کر کئی معصوم و آسان شکار نتائج کی صورت برآمد ہوتے ہیں ۔اس پورے تناظرمیں یمین الدین کی تحریر سب سے مناسب لگی ، وہ لکھتے ہیں کہ ، ’جب بھی کوئی چیز میڈیا پر اس غیر معمولی انداز سے پیش کی جا رہی ہو جس میں ایسے جملوں کی تکرار ہو جیسے ’’مذہب تو فیل ہو چکا ہے‘‘، ’’سارے مرد برے ہوتے ہیں‘‘،’’سارے ظلم عورت پر ہوتے ہیں‘‘، ’’ہر سیاستدان چور ہیں‘‘،’’مولوی تو چندے کے ٹکڑوں پر پلتا ہے‘‘،’’مدارس میں تو دہشت گردی سکھائی جاتی ہے‘‘، ’’ہر داڑھی والا شخص خطرناک ہوگا‘‘،’’کراچی جاو گے تو لٹ جاو گے‘‘،’’فلاں کمیونٹی سے دور رہنا‘‘،’’ ،ہر گلی محلے میں بچوں بچیوں کے ریپ ہوتے ہیں‘‘وغیرہ۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں آپ کے تحت الشعور میں وہ سوچ راسخ ہوجاتی ہے اور آپ کے طرزعمل پر اثر انداز ہونا شروع کردیتی ہے۔ پھر آپ اسی سوچ کے زیر اثر بات کرتے ہیں اور ترجیحات کا تعین بھی کرتے ہیں۔
غور سے سوچئے گا! اب آتے ہیں لاہور واقعہ کی طرف۔واقعے کے عینی شاہدین اور ابتدائی تحقیقات کے مطابق محترمہ کے ساتھ 6 لڑکے تھے جن میں سے 4 کو ویڈیوز بنانے کی ذمہ داری دی گئی تھی اور دو لڑکے مختلف لڑکوں (فینز) کی محترمہ کے ساتھ مختلف پوزز میں سیلفیز بنوارہے تھے۔ کس طرح کے پوز تھے وہ اب تصاویر میں وائرل ہو چکے ہیں۔ پھر کچھ فینز نے حدود مزید کراس کیں اور ایک قدم آگے کی نازیبا حرکات شروع کردیں۔ لیکن یہ چار سو لوگ تھے۔ یہ کس نے گنے؟اس واقعہ کی ویڈیوز کو دیکھ کر اور واقعاتی شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ کئی لوگوں نے محترمہ کو سمجھایا کہ وہ جو کررہی ہیں مناسب نہیں ہے لیکن انہوں نے نہیں سنی۔ مزید یہ کہ جو لوگ ان کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں وہ لڑکی کو اچھال نہیں رہے بلکہ ہجوم سے ریسکیو کررہے ہیں۔ نہ ہی ابھی تک لڑکی کے کپڑے پھاڑ کر مکمل برہنہ کرنا ثابت ہوا ہے۔ محترمہ کو کم از کم تین مرتبہ وہاں سے باہر نکالا گیا لیکن وہ پھر واپس آئیں جبکہ ایک موقع پر انہیں باہر نکال کر بھیج دیا گیا اور وہ آسانی سے جاسکتی تھیں لیکن وہ پھر واپس آگئیں۔ یا للعجب!اس واقعے کی صرف دو ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں، اسکے علاوہ محترمہ کی جتنی ویڈیوز وائرل ہیں وہ 2018 سے 2020 کی ویڈیوز ہیں۔ کچھ ویڈیوز میں انہیں انتہائی نازیبا حرکات کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ کل ان کے اکاؤنٹ سے وہ ویڈیوز ڈیلیٹ کردی گئی ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ پچھلے تین دنوں میں محترمہ کے سوشل میڈیا فالوورز میں تقریبا50ہزار لوگوں کا اضافہ ہوا ہے۔اس موضوع کو لیکر پاکستانی معاشرے کے خلاف سب سے پہلا ٹرینڈ Twitter پر کچھ انڈین اکاؤنٹس سے بنایا گیا جس کے بعد ہم پاکستانیوں کو پتا چلا اور کل فیس بک پر پورا ماحول بننے کے بعد ہر سرٹیفائیڈ اور پوٹیوشنل دانشوران سوشل میڈیا کو بھی معلوم ہوا کہ کوئی واقعہ ہوا ہے۔
ہماری عوامی اور عمومی نفسیات کے عین مطابق، جس کی بغیر تحقیق و تصدیق، مذمت کرتے ہوئے اکثر پوسٹس کچھ یوں شروع ہو رہی ہیں کہ۔ ’’ہمارے ملک میں۔۔‘‘،’’اس معاشرے میں۔۔۔۔‘‘ ، ’’درندہ صفت مردوں کے معاشرے میں۔۔۔۔‘‘ ، ’’حوا کی بیٹی کی عزت تار تار۔۔۔‘‘، ’’ہمارے ہاں سارے مرد بے غیرت ہوگئے ہیں‘‘،’’اس ملک میں بیٹی نہ ہو تو اچھا ہے‘‘، ان لوڈڈ جملوں کے ساتھ اپنے جذبات کا سنجیدگی سے اظہار کیا جارہا ہے جو دو ایک روز تک ختم ہوجائے گا۔ لیکن پچھلے دو دنوں میں اس بلا تحقیق و تصدیق رویے کے نتیجے میں جو ٹراما اس معاشرے میں پھیلا ہے اور اچھے عزت دار خواتین و حضرات کے لیے جو ماحول بنا ہے،آپ یقین جانیے کہ اس کے اثرات بہت دور تک ہوںگے۔اس لیے کہنا یہ مقصود ہے کہ جب بھی کوئی غیر معمولی واقعہ ہو توعرض، گزارش اور درخواست صرف اتنی ہے کہ اس کو مختلف زاویوں سے اچھی طرح دیکھ پرکھ لیں۔ کہیں ہم لاعلمی میں اپنا،اپنے ملک کا،اپنے رشتوں اور تعلقات کا یا اپنے دین کا نقصان نہ کر بیٹھیں۔ بقول مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ۔’’یہ یاد رکھو کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو اسے ایک دن تمہیں کسی عدالت میں ثابت کرنا پڑسکتا ہے۔ یا دنیا یا آخرت!‘‘

حصہ