امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا فتح کابل کے بعد پہلا تفصیلی انٹریو

617

جسارت سنڈے :طالبان کی افغانستان میں غیر معمولی حیران کن اور بڑی فتح کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
سراج الحق :افغانستان کی منظم تحریک طالبان نے جو کامیابی حاصل کی ہے اس پر بجا طور پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔افغان عوام نے اب کی بار نیٹو فوج کو شکست دی ہے اور اس سے قبل دنیا کی بڑی عالمی طاقت روس کو شکست دی تھی،اور اس سے بھی پہلے انہوں نے انگریز استعمار کو شکست سے دوچار کیا تھا اور پھر جو فوج وہاں داخل ہوئی تھی ان میں سے صرف ایک فوجی، جو ڈاکٹر تھا اسے بھی زندہ اس لیے چھوڑا تھا کہ وہ دنیا کو انگریز فوج کے بارے میں بتا سکے کہ ان کے لیے افغانستان قبرستان بن گیا ہے. افغان عوام کی یہ طاقت اُس کی اسلام کے ساتھ محبت کی وجہ سے ہے۔ اللہ پر ایمان،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت،قرآن کریم کے ساتھ تعلق اور آزادی سے محبت کی بنیاد پر وہ ناقابل تسخیر قوم بن گئی ہے۔صحیح بات تو یہ ہے کہ طالبان تو محض چند ہزار ہیں ان کے جنگجو لاکھوں میں بھی نہیں ہیں،لیکن افغان عوام میں ان کی پذیرائی موجود تھی اور ہے ۔جمہور کی طرف سے بھرپور تعاون کے نتیجے میں ان کو یہ کامیابی ملی ہے اور اس بار تو کسی کے پاس کہنے کو یہ عذر بھی نہیں ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں کسی اور طاقت نے ان کو سپورٹ کیا۔اب کی بار تو ساری کامیابی کی شمع کو جلانے کے لیے انہوں اپنا خون پیش کیا ہے۔
جسارت سنڈے :طالبان کی فتح نے یہ ثابت کیا کہ ٹیکنالوجی کے مقابلے میں ایمان کی طاقت زیادہ مضبوط ہے.؟
سراج الحق :میں عرض کروں کہ دنیا بھی اس وقت حیران ہے کہ سب سے بڑی جنگی قوتیں کس طرح شکست سے دوچار ہوگئی ہیں۔ لیکن ظاہر ہے ایک طرف نظریہ اور شوق شہادت تھا اور دوسری جانب اسلحہ اور بارود کی آگ اور لوہے کی بارش تھی، تو نظریہ نے لوہے اور بارود کی آگ کو شکست دی ہے، اور جس طرح ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ گلستان بنی تھی اسی طرح لاکھوں ٹن بارود،یعنی جنگ عظیم دوم سے زیادہ بارود یہاں استعمال کیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر وہی منظر دکھایا کہ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق تو پھر آگ بھی گلستان بن گئی ہے.
جسارت سنڈے :آپ طالبان کے افغانستان پر فتح پانے کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن کے بیانات کی روشنی میں افغانستان پر امریکی حملے اور قبضے پر پرکیا تجزیہ پیش کریں گے.؟
سراج الحق :جوبائیڈن کے لیے اچھا ہے کہ وہ افغان عوام سے بھی معافی مانگیں اور آگے بڑھ کر افغان عوام کو تاوان جنگ بھی دیں۔اس لیے کہ ان پر مسلسل بمباری اور وہاں پر نیٹو افواج کی کارروائی کی وجہ سے افغانستان قبرستان بن گیا ہے،یہ تو شہیدوں کے خون کی برکت سے یہ آزادی ملی اور یہ صبح نصیب ہوئی ہے۔
روس کی شکست کے بعد افغانستان میں ایک منظم حکومت قائم نہ ہوسکی اس لیے کہ باہر کی دنیا نے وہاں کے مجاہدین کو آپس میں لڑایا تاکہ ان کی صلاحیت اور حوصلہ باہمی جھگڑوں میں ختم ہوجائے۔ چاروں طرف سے سازشوں کی وجہ سے افغان عوام کو اپنے ملک میں سکون نہیں ملا۔ اگرچہ ان کے جہاد کے نتیجے میں وسطی ایشیا کے کئی ممالک آزاد ہوگئے۔ کمیونزم کا چرچا ختم ہوا۔ یو ایس ایس آر سمٹ گیا، اس کے بعد جب طالبان سامنے آئے اور ملا محمد عمر اخوند کی قیادت میں افغانستان کے زیادہ ترعلاقوں پر کنٹرول حاصل کرلیا۔ 9/11 کا واقعہ ہوگیا اور امریکہ نے اسامہ بن لادن کی افغانستان میں موجودگی کو جواز بناکر بی 52طیاروں سے بمباری کی، اور نیٹو اتحادی افواج کے ساتھ افغانستان میں مداخلت کی۔ طالبان کی امارت کو ختم کیا اور اپنے ایجنٹوں کو مسلط کیا،اور پھر افغانستان کے عوام نے ماضی کی طرح امریکہ کے خلاف جدوجہد شروع کی۔ ہماری بدقسمتی کہ پرویز مشرف نے ڈالروں کے عوض امریکہ کا ساتھ دیا اور اپنی ذاتی مفادات کی خاطر امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کے ایک فون پر ڈھیر ہوگیا اور اس گھنائونے کھیل میں پاکستان کے 75ہزار لوگ شہید ہوگئے۔ جماعت اسلامی نے اول روز سے روس کی طرح امریکی فوجی مداخلت کی بھی مخالفت ہے اور پہلے دن سے ہمیں یقین تھا کہ یہ جنگ امریکہ نہیں جیت سکتا ہے۔ ان کا افغانستان پر حملے کا فیصلہ سو فیصد غلط تھا اور ان کی نیت بھی غلط تھی۔ ان کا یہی خیال تھا کہ شاید ہم اسلحہ کے زور پر یہاں کے عوام کے جذبہ شہادت کو ختم کردیں گے لیکن ہر دن ان کی طاقت میں اضافہ ہوا اور جتنے لوگ شہید ہوتے گئے اتنے ہے لوگ میدان میں شہادت کے لیے تیار ہوتے رہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نہ صرف امریکہ نے غلطی کی بلکہ ان تمام ہی ممالک نے غلطی کی جو نیٹو افواج میں شامل ہیں اور خاص کر پاکستان کے اس وقت کے حکمران پرویز مشرف نے بھی بڑی غلطی اور بڑا جرم کیا کہ انہوں نے امریکہ کو سہولت فراہم کی اور اپنے کاندھے پیش کیے۔وہ غلطی صرف امریکہ کی نہیں بلکہ ان تمام ہی لوگوں کی ہے جو اس کے ساتھ شامل رہے .
جسارت سنڈے :طالبان کے گذشتہ دور کے بارے میں بہت بات کی جارہی ہے آپ طالبان کے ماضی پرکیا کہیں گے اور اس کا آج کے دورسے کس طرح موازنہ کرتے ہیں.؟
سراج الحق :گزشتہ بار جب طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تھا اور ایک عبوری حکومت قائم کی تھی تو اس وقت وہ مسلسل حالت جنگ میں تھے ۔ انہوں نے دنیا کو نہیں دیکھا تھا،ان کا اس حوالے سے کوئی تجربہ بھی نہیں تھا۔دنیا کی دو سری تحریکوں کے ساتھ ان کا کوئی تعلق بھی نہیں تھا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے خاص مزاج اور مقامی ثقافت کو وہاں لانے کی کوشش کی لیکن اب کی بار وہ خود کہتے ہیں کہ ہم بدل گئے ہیں۔ ہمارا رویہ وہ نہیں ہے،ہماری سوچ وہ نہیں ہے، اور ہم ماضی کی غلطیوں کو بھی نہیں دہرائیں گے۔ظاہر ہے وہ قندھار سے روانہ ہوئے اور چلتے چلتے کابل تک پہنچ گئے اور ان کو ایک آزاد ماحول میں فیصلے کرنے کا وقت بھی نہیں ملا۔ آپ نے دیکھا کہ اس پورے عرصہ میں ملا محمد عمر سامنے بھی کبھی نہیں آئے تھے اور نہ ہی کابل میں حکمران کی حیثیت سے بیٹھے تھے۔ایک گوریلا وار کے نتیجے میں سب کچھ ہوا لیکن اب کی بار طالبان کا رویہ بہت محتاط ہے ۔اس میں بہت کشادگی ہے،وسعت قلبی اوروسعت ِ نظر ہے، اور اچھا ہوگا کہ اگر وہ اسی تسلسل کو جاری بھی رکھ سکیں۔ساری دنیا کو اب تک انہوں نے حیران کیا ہے کہ کس طرح جنگ میں پکڑے ہوئے لوگوں کو انہوں نے عزت دی۔ لوگوں کو نہ صرف معاف کیا بلکہ انہیں عزت کے ساتھ پیشکش کی کہ آپ بدستور ہمارے ساتھ رہیں اور اپنے ملک و ملت کی خدمت کریں۔انہوں نے دنیا بھر کے افغان عوام سے اپیل کی کہ واپس آکر اپنے ملک کی خدمت کریں۔خواتین کے بارے میں جو ان کا نظریہ تھا اس کو واضح کیا ہے کہ ان کے تعلیمی ادارے کھلیں گے اور شریعت کی حدود کے اندر وہ ہر وہ کام کرسکتی ہیں جن کی وہ صلاحیت رکھتی ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ جو دن گزر گئے ہیں جس میں انہوں نے شہروں کو فتح کیا اور پھر کابل کو فتح کیا تو اب کی بار ان کا مزاج بہت زیادہ مثبت ہے اور پوری دنیا کو انہوں نے یہی پیغام دیا ہے کہ ہم دنیا کو ساتھ چلا سکتے ہیں۔ہم قیادت کرسکتے ہیں،ہم اختلافی نکتہ نظر کو برداشت کرسکتے ہیں۔یہ بہت ہی مثبت اقدام ہیں جن کو سراہا جانا چاہیے ۔ہم ان کو یہی کہیں گے کہ جنگ کرنا آسان تھا لیکن حکومت کا انتہائی مشکل مرحلہ اب شروع ہوگا۔اس میں صلاحیتوں کا امتحان ہوگا،ان کے وسائل کا امتحان ہوگا اس لیے کہ جنگ کے زمانے میں عمومی طورپر لوگ منظم ہوتے ہیں اور ایک رہتے ہیں لیکن جنگ کے بعد حالت امن میں پھر ان میں تقسیم ہوجایا کرتی ہےاور دنیا کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس طرح کی تنظیمیں تقسیم ہوں۔
افغانستان کے مجاہدین کو بھی دیدہ و دانستہ طریقے سے تقسیم کیا گیا اور ان کے سات گروپ بنائے گئے اور عالمی کھلاڑی بھی یہی چاہتے تھے کہ وہ تقسیم ہوں اور آپس میں لڑیں پھر ان میں غلط فہمیاں ہوں اور اس کی وجہ سے مجاہدین کو جو کامیابی حاصل ہوئی تھی،آپس میں جنگوں کی وجہ سے وہ ضایع ہوگئی۔تو اب کی بار طالبان اس حوالے سے بہت زیادہ حساس اور محتاط ہیں کہ ماضی کا کھیل دوبارہ نہ دہرایا جائے۔
جسارت سنڈے : طالبان نے صرف امریکہ کو شکست دے کر حیران نہیں کیا ،بلکہ وہ جس دور سے گزرے ہیں بیس سال کے طویل عرصہ تک انہوں نے لڑآئی لڑی اتنے عرصہ میں تو بڑی بڑی تحریکیں فنا ہوجاتی ہیں۔آپس میں اختلافات بڑھ جاتے ہیں لیکن ہم نے طالبان میں اس طرح کی تقسیم نہیں دیکھی اور وہ منظم رہے۔یہ معجزہ کیسےہوا؟
سراج الحق :اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں بہت زیادہ مسالک نہیں ہیں، جس طرح پاکستان میں مساجد تقسیم ہیں،مدارس تقسیم ہیں وہاں اس طرح کا ماحول نہیں ہے،چھوٹے چھوٹے دیگر فرقے تو موجود ہیں لیکن سواد اعظم بالکل ایک ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ انہیں بھی تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ہمیں پھنسایا گیا،ہمیں آپس میں لڑایا گیا،ہمارے اندر بھی تنظیمیں بنانے کوشش کی گئی،لیکن ہر سازش سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے رہے اور انہوں نے تقسیم کی کوشش کو ناکام بنایا،جس پر تو وہ مبارکباد کے بھی مستحق ہیں۔
جسارت سنڈے :آپ کا طالبان کی موجود قیادت سے کس قسم کا رابطہ ہواہے، کس سے رابطہ ہوا ہے،اور اس بارے میں کیا بات ہوئی ہے کہ طالبان کس قسم کی حکومت مستقبل میں بنانے جارہے ہیں۔؟
سراج الحق :جماعت اسلامی کا تو واضح موقف ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں ہم نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا ہے اور پاکستان میں بھی جماعت اسلامی نے گو امریکہ گو کی تحریک چلائی ہے اور عوام کو بیدار کرنے اور انہیں شعور دینے کی کوشش کی ہے اور ہم نے اپنی حکومت کو بھی ہمیشہ یہی توجہ دلائی ہے کہ افغان طالبان کے مقابلے میں امریکہ کا ساتھ نہ دیا جائے،امریکہ پر اعتماد نہ کیا جائے،امریکہ کے کھیل کا حصہ نہ بنا جائے لیکن ہمارے کچھ بزدل حکمرانوں نے وہ کام کئے جو تاریخ میں ہمارے پاکستانیوں کے دامن پر ایک بدنما داغ رہے گا کہ کس طرح انہوں نے مولانا ضعیف کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ خود پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ ہزاروں لوگوں کو گرفتار کرکے ان کے حوالے کیا تھا۔یہ بہت ہی شرمناک کھیل یہاں کھیلا گیا جس کی ہمیشہ جماعت اسلامی نے مخالفت کی ہے اور اب بھی نئے نظام کی تشکیل میں طالبان کی طرف سے بھی جماعت اسلامی کے ساتھ رابطے ہیں،ہمارے بھی ان کے ساتھ رابطے ہیں ان کی مرکزی قیادت اور شوریٰ کے لوگوں سے اور یہاں پر جتنے بھی ذمہ داران ہیں درجہ بدرجہ ان کے ساتھ رابطے ہیں لیکن ظاہر ہے افغانستان افغانوں کا ہےاور ہم ان کے لیے دعا گو بھی ہیں۔اصول یہی ہے کہ ہمارے کارکنان میں کوئی بھی صلاحیت ہے تو وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں اسلامی تحریک کے کام وہ صلاحیت آسکتی ہے، کسی بھی شعبہ کے لیے وہ حاضر ہے۔ ہماری جو بھی صلاحیت ہے وہ عالم اسلام کی امانت ہے،وہ امت کی امانت ہے اور مسلمان جہاں ہیں بھی وہ ایک خاندان ہیں،ایک امت ہیں۔ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ان کے ساتھ ہمارے روابط رہیں ،امریکہ کے مخالف فتح اور جو مقابلہ ہے یہ ہمارا ایک مشترکہ ہدف ہے اس لیے کہ امریکہ کسی ملک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک استعماری نظام کا نام ہے،یہ ایک دجالی فتنہ ہے جو پوری دنیا میں موجود ہے۔اس لیے کہ اگر ایک جگہ پر ان کو شکست ہوئی ہےتو یہ تمام دنیا میں اسلامی تحریکوں کی کامیابی ہے اور اس کامیابی پر اخوان المسلمون نے بھی خوشی کا اظہار کیا ہے،اس کامیابی پر ہمارے فلسطینی بھائیوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا ہے،ملائیشیا، تیونس،شام اور جہاں جہاں اسلامی تحریکیں ہیں سب نے مل کر امریکہ کی شکست اور افغان عوام اور امارت اسلامیہ کی دوبارہ بحالی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
جسارت سنڈے :آپ نے اسلامی تحریکوں کا ذکر کیا،آپ اس فتح کے پس منظر میں عالم اسلام اور اسلامی تحریکوں پر اس کے اثرات کو مستقبل میں کس طرح دیکھتے ہیں؟
سراج الحق :اس کامیابی کے نتیجے میں دنیا بھر میں موجود اسلامسٹ اور ، اسلامی تحریکوں کے کارکنان کا مورال بلند ہوا ہے،خاص کر جوامریکہ کا رعب تھا عرب دنیا اور دیگر علاقوں میں اس میں کمی آئی ہے اور اب دنیا کا ہر ایک مسلمان سمجھتا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے ،جس طرح افغانستان کے لوگوں نے ایک بڑی طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے اور اپنی تمام شرائط منوائی ہیں، تو اس رویہ نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک نیا حوصلہ اور جذبہ دیاہے۔
جسارت سنڈے :افغانستان میں پرانے مجاہدین کا بھی بہت کردار رہا ہے،حکمت یار اور ان کی تنظیم بھی کسی نہ کسی صورت موجود ہے ،حالیہ دنوں میں آپ کی ملاقات بھی ان سے ہوئی ہے، آفغانستان کے موجودہ حالات کے پس منظر میں ان سے کوئی بات ہوئی ہو اور موجودہ سیٹ اپ میں آپ ان کو کس طرح اور کہاں دیکھتے ہیں؟
سراج الحق :ہمارے ساتھ جن لوگوں کا رابطہ ہوا ہے ان کے ساتھ ہم نے یہ بات شیئر کی ہے کہ افغانستان میں وہ لوگ جو اسلامی نظام کے حق میں تھے، اسلامی نظام کے لیے جدوجہد کررہے تھے اور اسلامی نظام کی خاطر انہوں نے روس کے خلاف طویل جہاد کیا، اور پھر طالبان نے امریکہ کے خلاف طویل جہاد کیا تو یہ بنیادی طور پر اتحادی ہیں کیونکہ ان کی منزل اسلامی نظام اور انقلاب ،اور قران و سنت کی بالادستی ہے،استعمار روسی ہو یا امریکی ہو، ہو ان کے مخالف اور دشمن ہیں۔تو ہماری تو خواہش ہے کہ مجاہدین بھی اور طالبان بھی آپس میں مل جائیں اور ایک دوسرے کو اعتماد میں لیں،ماضی کی بجائے روشن مستقبل کی خاطر قدم سے قدم ملاکر چلنے کا فیصلہ کریں، اس کے نتیجے میں بہت مضبوط حکومت قائم ہوسکتی ہے اور اب تک جو طالبان کی قیادت نے جو اعلانات کیے ہیں ان میں یہی بات نمایاں ہے کہ ہم ان تمام لوگوں کو ساتھ لینا چاہتے ہیں جو طالبان کے اصل مقصد یعنی اسلامی نظام کے قیام میں ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں۔ہماری دعا بھی ہے اور ہماری خواہش بھی ہے کہ جتنے بھی لوگ افغانستان میں استعمار کے خلاف ہیں اور اسلامی نظام کے داعی ہیں وہ سب ایک صف میں کھڑے ہوں اور ایک دوسرے کو قبول کریں۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ ہو بھی جائے گا۔
جسارت سنڈے :نئے طالبان اور پرانے طالبان کی بحث کے اندر بعض لوگوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ موجودہ طالبان کے رویہ میں تبدیلی فراست کی علامت ہے،خیالات میں تبدیلی کی علامت نہیں ہےاس پر آپ کیا کہتے ہیں؟
سراج الحق: ہمیں ان کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے کہ اس راستے پر چلیں جس کا انہوں نے اعلان کیا ہے اور اب تک انہوں نے اپنے جس رویہ کا اظہار کیا ہے وہ مثبت ہے اور یقیناؔہم نے تو ان کے ظاہر کو دیکھنا ہےاور ان کا ظاہر اب تک یہی ہے کہ انہوں نے تمام مخالفین کو معاف کیا اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ پرانے لوگ بھی ہیں اور نئے لوگ بھی ہیں ظاہر ہے نئے اور پرانے سب کا تسلسل ہے،تجربات کا بھی،مشاہدات کا بھی، اور جس طرح انہوں نے مذاکرات میں بھی اپنے اعصاب پر کنٹرول رکھا تھا،دشمن کے اعصاب تو جواب دے گئے مگر وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے ،ظاہر ہے اگر یہ مزاج نہ ہوتا تو دنیا بھر میں جہاں بھی امریکہ گیا ہے لوگوں نے اسے قبول کیا ہے لیکن ان کے اس غیر معمولی مزاج کی وجہ سے اس مٹی نے اس بیج کو قبول نہیں کیا جو بہت سارے ممالک میں ہمیں نظر آرہا ہے۔ہمیں مثبت سوچ رکھنی چاہیے اور اس وقت کوئی وجہ شک کی نہیں ہے یہ ایسا ہی ہے کہ کسی نے ابھی تک غلطی نہیں کی اور آپ شک میں پڑ جائیں کہ غلطی کرسکتا ہے۔ظاہر ہے ایک جنگ کی کیفیت سے نکلیں ہیں، ان کو چلنے دیں اور اس چلنے میں اگر آپ کچھ تعاون کرسکتے ہیں تو اچھی بات ہے، نہیں کرسکتے ہیں تو دعا توکر ہی سکتے ہیں۔
جسارت سنڈے:۔امریکہ بدترین شکست کے بعد چلا تو گیا ہے لیکن امریکہ اپنی فطرت کے مطابق کھیل خراب کرے گا،کیا آپ بھی اسی طرح دیکھ رہے رہے ہیں؟ آپ کو کیا نظر آتا ہے۔؟
سراج الحق :اس وقت تو صرف امریکہ نے شکست نہیں کھائی ہے،انڈیا نے بھی شکست کھائی ہے ،جنہوں نے ہزاروں ڈالر وہاں پر انویسٹمنٹ کی ہے اور انہوں نے طالبان کی اس کامیابی کو اپنی شکست تسلیم کیا ہے.اور ظاہر ہے ان کے بہت سارے لوگ ہر جگہ موجود بھی ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ جہاں سے نکلا ہے وہاں خانہ جنگی کو ہوا دی ہے۔یہ اب طالبان کی فراست ہوگی کہ وہ خانہ جنگی کی بجائے تمام لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں۔ بہت سارے بہانے بنائے جاسکتے ہیں اور سب سے بڑا معرکہ تو یہ بھی ہے کہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔دنیا ان کو تسلیم کرے گی تو ان کے لیے آسانیاں ہوں گی۔اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ امریکہ اس حکومت کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں کرتا،پہلے تو ان کا خیال تھا کہ اب خون خرابہ ہوگا اور خانہ جنگی ہوگی لیکن طالبان نے یہ بات غلط ثابت کرکے دکھائی کہ نہ خانہ جنگی ہوئی اور نہ ہی خون خرابہ ہوا بلکہ بالکل پر امن طریقے سے وہ آگے بڑھے ہیں۔ اب پر امن انتقال اقتدار کے نتیجے میں جو حکومت قائم ہوگئی ہے ان کو تسلیم کرنے میں بھی دنیا کو بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
جسارت سنڈے :پاکستان نے اب تک تسلیم نہیں کیا ،وہ امریکہ اور عالمی طاقتوں کی طرف دیکھ رہا ہےآپ کا کیا خیال ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں طالبان کی حکومت کو فوری طور پر تسلیم کرلینا چاہیےیا ابھی دیکھنا چاہئے؟
سراج الحق:ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ جب امریکہ اسے تسلیم کرے تب ہم تسلیم کریں گے۔ہمارے اپنے مفادات ہیں اور امریکہ کے اپنے مفادات ہیں، اگرافغانستان میں ایک پڑوسی اسلامی حکومت قائم ہوجاتی ہے تو ہمارا 14 سو کلو میٹر طویل بارڈر محفوظ ہوگا،یہ ایک پر امن بارڈر ثابت ہوگا، جس پر اتنی سیکورٹی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایک دوست افغانستان ہمارے لئے نظریاتی طور پر بھی اور معاشی طور پر بھی بہت سود مند رہے گا۔وہاں پر خانہ جنگی اور وہاں پر کمزوری پاکستان کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو افغانستان کی موجودہ حکومت کے لیے لابنگ کرنی چاہیے اور دنیا کو انہیں تسلیم کروانے کے لیے جتنے بھی جتن ہوسکے وہ کرنے چاہئیں۔امید ہے کہ جلد ایسا ہوگا بھی،چین تسلیم کرےگا،روس تسلیم کرے گااور اسی طرح اسلامی دنیا کو بھی تسلیم کرنا چاہئیے۔ زخم پہنچا ہے تو امریکہ اور انڈیا کو پہنچا ہے ان کی طرف نہیں دیکھنا چاہیےہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے اپنے مفادات کیا ہیں۔
جسارت سنڈے :کافی عرصہ ہوا ہے کہ عالمی اسلامی تحریکوں کا کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا،کیا موجودہ خاص حالات میں اس کی ضرورت بنتی ہے کوئی عالمی حالات پر سوچ بچار کے لیے بیٹھیں اور لائحہ عمل بنائیں ؟
سراج الحق :اس بار بھی افغانستان میں جو تغیر آیا ہے عالمی اسلامی تحریکوں نےپیغامات بھیجے ہیں اور وہ جماعت اسلامی کے ذریعے ان تک پہنچائے گئے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی نے ہمارے اجلاسوں کو آسان کیا۔ان کی بنیاد پر بہت سے ذرائع ہیں پہلے تو ویزے لے کر جانا اور ایک جگہ جمع ہونا پڑتا تھا لیکن اب تو کافی آسان ہوگیا ہے اور ہم تمام عالمی اسلامی تحریکوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس کو مزید مضبوط کررہے ہیں۔
جسارت سنڈے :اس سے انکار ممکن نہیں کہ افغان جہاد میں جماعت اسلامی کا کلیدی کردار رہا ہےاور اس کی اپنی ایک تاریخ ہے حالیہ فتح پر آپ پاکستان کے عوا م کے لیے کوئی پیغام دینا چاہتے ہوں؟
سراج الحق : جی ،ہماری یہ خواہش ہے کہ افغانستان میں امن ہو، وہاں اسلامی نظام قائم ہوجائے اور اس کی کرنیں ہر طرف پھیل جائیں،اس کی خوشبو عام ہوجائے اور وہ دنیا کے لیے ایک مینارہ نور بن جائے.یہ بات ٹھیک ہے کہ افغانستان میں اسلامی موومنٹ کے ساتھ جماعت اسلامی کا تعلق پرانا ہے۔ جب سوویت یونین نے افغانستان میں کمیونزم کے نظریات کے لیے کام شروع کیا انہی دنوں 70 کی دہائی میں دو فارسی بولنے والے نوجوان منہاج الدین جہیز اور انجینئرنگ کے طالب علم تئیس سالہ حبیب الرحمٰن پشاور آئے تھے اور قاضی حسین احمد رحم اللہ علیہ ان دونوں نوجوانوں کو مولانا مودودی رحم اللہ علیہ کے پاس لے گئے تھے۔ بعد میں ان دونوں نوجوانوں کو شہید کردیا گیا اور اُن دونوں کوظاہر شاہ دور میں کے جی بی(KGB) کے کہنے پر شہید کیا گیا اور اس کے بعد اس کا برہان الدین ربانی ،انجینئر گلبدین حکمت یار،انجینئرسیف الدین کے ساتھ رابطے قائم ہوگئے۔دائود کے دور میں جماعت اسلامی کے سابق امیر مولانا مودودی رحمہ اللہ کی ہدایت پر قاضی حسین احمدؒتاجر کی حیثیت سے افغانستان گئے تھے اور وہاں جامعات کے اساتذہ اور کابل یونیورسٹی کے طلبہ سے رابطے قائم کیے،بعد میں یہی نوجوان جن سے قاضی حسین رحمة اللہ علیہ کا رابطہ ہوا تھا اولین مہاجرین بھی بن گئے،اور نوجوانوں کا پہلا دستہ پشاور جماعت اسلامی کے قائدین کے گھروں میں قیام پذیر ہوا۔پہلے مرحلے میں بڑھتے بڑھتے یہ تعداد چھ ہزار تک جا پہنچی۔ان ہی نوجوانوں نے افغانستان میں روسی افواج کی مداخلت کے خلاف جدوجہد شروع کی اور جب اس کے اثرات سامنے آئے تو پوری دنیا ان کی طرف متوجہ ہوگئی اور وہ عظیم جدوجہد روسی افواج کی شکست پر منتج ہوئی۔حقیقت یہی ہے کہ اس وقت جو ایک اسلامی موومنٹ ہے اس کی بنیاد سید مودودیؒ کی وہ تحریک ہے جو انہوں نے برصغیر میں شروع کی ہے اور اس کے اثرات سامنے آرہےہیں۔
جسارت سنڈے :افغانستان میںکیسا نظام قائم ہو گا ا س پر ملکی اور غیرملکی میڈیا پر بہت بات ہورہی ہے.
سراج الحق :ہر ملک میں حکومت سازی کا اپنا ایک طریقہ ہے اس طرح ساری دنیا میں جمہوریت کی بھی کوئی ایک شکل نہیں ہے۔امریکہ کا اپنا ایک نظام ہے، فرانس کا اپنا ایک نظام ہے، ایران میں اپنی طرز کا ایک جمہوری نظام ہے تو حکومت سازی کا طریقہ کار پوری دنیا میں یکساں نہیں ہے ہر ملک کا اپنا ایک ماحول، پس منظر اور ثقافت ہوتی ہےملک کو اس سے جدا نہیں کرسکتے ہیں لیکن ہمارا جو اصل ہدف ہے وہ اسلامی نظام کا قیام ہے اور ظاہر ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان اور نئے اور پرانے لوگوں کے ایک مضبوط اتحاد کے نتیجے میں ایک نظام بنتا ہے تو اس کے اثرات پڑوسیوں پر بھی پڑیں گے اور اس کے بعد پوری دنیا پر پڑیں گے اس لیئے کہ اب جلد ذرائع ابلاغ کی وجہ سے اچھائی بھی عام ہوجاتی ہے اور برائی بھی عام ہوجاتی ہے۔بہر حال افغانستان افغانوں کا ہے اور اب یہ فیصلہ ان کا ہے کہ کس طرح بہتر نظام بناسکتے ہیں۔ البتہ وہاں ایک بہتر نظام پوری دنیا کے لئے ایک اہم پیغام بن سکتا ہے۔

حصہ