جشنِ آزادی

196

اے وطن تجھ سے نیا عہد کرتے ہیں
مال کیا چیز ہے ہم جان فدا کرتے ہیں
سرخ ہوجاتی ہے جب صحن چمن کی مٹی
اس مقام مین تب پھول کھلا کرتی ہیں
تاریخ کے آئینے مین جھانکنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب تک آپ کوئی بڑی قربانی نہیں دیتے آپ کو عظیم منزل نہین ملتی۔ ہر دور میں مختلف قوموں نے اپنے عطیم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنی جان و مال کی قربانی دی تب انہیں منزل ملی۔ لفظ قربانی کہنے کو آسان ہے مگر کرنے کو مشکل ترین عمل ہے ۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیمؑ اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی قربانی نہ دیتے تو دینِ ابراہیمی قیامت تک اس دنیا میں نہ پھیلتا۔ جس طرح حضرت عیسیٰ ؑ مصلوب نہ ہوتے تو امن و اصول کا جذبہ اپنے اوائل میں ہی دم توڑ دیتا اور جس طرح حضرت امام حسین رض اپنے بچوں کے ساتھ کربلا کے مقام پر عظیم قربانی نہ دیتے تو نبی پاکؐ کا دینِ محمدی ؐ قیامت تک پروان نہ چڑھتا۔ بالکل اسی طرح اگر لاکھوں مسلمان مرد اور عورتیں 1947 میں اپنی جان و مال کی پرواہ کئے بغیر ایک عظیم قربانی نہ دیتے تو شاید اس مادرِ ملت کا وجود بھی بس ایک خواب بن کر رہ جاتا۔ قائد، اعظم محمد علی جناح کی بے خوف ، بے باک اور دانشمندانہ قیادت میں بر، صغیر پاک و ہند کے تمام مسلمان ایک جھنڈے تلے جمع ہوگئے اور عمارت پاکستان کی تعمیر مین انہوں نے اینٹوں کی جگہ اپنی ہڈیاں اور پانی کی جگہ اپنا خون بہا کے ایک فقید المثال حصہ ڈالا۔ یوں طلوعِ سحر کے روشن مناظر میں خالصتاً اسلامی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان کا سورج اپنی پوری آب و تاب سے یوں چمکا کر کفر کے تمام بت گر گئے اور حاسدوں کی تمام سازشیں ہمیشہ کے لئے دم توڑ گئیں ۔ 14 اگست ہکا دن صرف خوشی کا جشن منانے کا دن نہیں بلکہ یہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ ایک تو آزادی سب سے بڑی نعمت ہے اور دوسرا یہ ہے کہ کسی مقصد کو حاصل کرلینا کمال نہیں بلکہ اس کے حصول کے لئے ترقی کے زینوں پر ثابت قدمی سے رواں دواں رہنا اصل قابلِ ذکر کارنامہ ہے۔ یہ دن ہمیں پیغام دیتا ہے کہ ہم جدید دور کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے وطن پاکستان کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ سندھی، بلوچی، پنجابی ، پٹھان اور کشمیری سب کو الگ الگ نظریات مین بٹنے کے بجائے ایک پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کریں اسی طرح مختلف فرقوں اور مسالک میں تقسیم ہونے کے بجائے ایک مسلمان قوم بن کر توحید کے پرچم کو بلند کریں۔ آپ کو ایمانداری اور وفاداری کے جذبے کے تحت اپنے وطن کی تعمیر کے لئے وقف کردے۔ یوں 22 کروڑ عوام کا بحرِ بیکراں اس عظیم ملک پاکستان کی بنیاد کا مقصد پورا کر سکے گا۔
آخر میں میں اتحاد ، ایمان اور تنطیم کے عظیم پیغام کو ان الفاظ کے ساتھ ختم کرنا چاہوں گی
اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام رکھو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرونِ دریا کچھ نہیں

حصہ