’’مبارک ہو! گھریلو تشدد بل مذہبی جماعتوں کی کوششوں سے روک دیا گیا ہے۔‘‘ رقیہ نے بڑی خوشی سے اپنی دوست کلثوم کو فون ملاکر پُرجوش انداز میں اسے خبر سنائی۔
’’ہوں…! اچھی بات ہے۔‘‘ کلثوم نے سادہ سے لہجے میں جواب دیا۔
’’کیا مطلب؟ اچھی بات ہے! تمہیں اتنی بڑی خبر سن کر خوشی نہیں ہوئی؟‘‘ رقیہ اپنی دوست کی گرم جوش آواز سننا چاہ رہی تھی، مگر اُس کا عام سا لہجہ اسے حیران کر گیا۔
’’میں کچھ اور سوچ رہی تھی۔‘‘ کلثوم نے سچائی سے جواب دیا۔
’’رقیہ! ہمارے معاشرے کی سب خواتین کا معاملہ تمہارے جیسا مثالی نہیں ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ رقیہ حیران ہوئی۔
’’تمہارے شوہر عثمان بھائی ایک دین دار شخص ہیں۔ وہ واقعی تمہیں گھر کی ملکہ اور آبگینہ تصور کرتے ہیں۔ تمہاری ضروریات ہی کی نہیں بلکہ جائز خواہشات کی بھی ذمے داری اٹھاتے ہیں۔ ان کی ہمراہی میں تمہیں نہ صرف معاشرتی بلکہ جذباتی تحفظ بھی حاصل ہے۔‘‘
’’جی ہاں، الحمدللہ! ایسا ہی ہے۔اسی لیے تو میں اس بل کے خلاف ہوں کہ اس کے ذریعے ہم عورتوں کو شوہروں کے مضبوط سائبان سے محروم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔‘‘
’’لیکن یہ بھی تو مانو کہ پاکستانی معاشرہ مکمل اسلامی معاشرہ نہیں ہے، اور سب عورتیں تمہاری طرح خوش قسمت بھی نہیں۔ ہمارے مردوں کی ایک بڑی تعداد اپنی بیویوں کو آبگینہ کے بجائے پاؤں کی جوتی ہی تصور کرتی ہے۔ بہت سے مرد معاشی ذمے داری بھی ڈھنگ سے نہیں اٹھاتے، یا پھر جو اٹھاتے ہیں وہ احسان جتلا جتلا کر بیوی بچوں کا خون خشک کیے رکھتے ہیں۔ اسی طرح میکے، سسرال میں بیویوں کی عزتِ نفس پر حملہ کرنا اور انہیں قطع رحمی پر مجبور کرنا بھی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔‘‘ کلثوم ایک کڑوا سچ بول رہی تھی۔
’’تم ٹھیک کہہ رہی ہو، مگر یہ سب اس بل اور عورت مارچ جیسے فتنوں کا جواز تو نہیں ہے۔‘‘ رقیہ کو اس سب سے سخت اختلاف تھا۔
’’تمہارے اختلاف کی وجہ تمہاری آسودہ ازدواجی اور گھریلو زندگی ہے۔ ذرا اُن عورتوں کے دلوں میں جھانک کر دیکھو جو شوہروں کے ہاتھوں ستائی ہوئی ہیں اور جنہیں ان کی موجودگی میں بھی معاشرتی اور معاشی تحفظ حاصل نہیں ہے، جو عدم توجہ کا شکار اور محبت و ستائش کے دو بول کو ترسی ہوئی ہیں۔ ان کے سامنے جب اس طرح بہ ظاہر ان کے حق میں بات کی جاتی ہے تو وہ شکر کرتی ہیں کہ چلو کہیں تو ان کے دکھ درد کو سمجھا گیا، کوئی تو ہے جو ان کے لیے آواز اٹھا رہا ہے۔‘‘
’‘لیکن یہ بھی سمجھنے کی کوشش کرو کلثوم! کہ اگر باپ اور شوہر یوں عدالتوں میں گھسیٹے جانے لگے تو مرد نکاح سے ہی بے زار ہوجائیں گے۔ انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ گھر بسائیں، ذمے داری اٹھائیں اور پھر عدالتوں میں ذلیل بھی ہوں! اس کی بہ نسبت کیریئر بنانا اور دولت کمانا زیادہ پُرکشش ہوگا۔ نکاح کا بندھن نہیں ہوگا تو فحاشی اور عریانی معاشرے کو تباہ و برباد کردے گی‘‘۔ رقیہ ممکنہ مستقبل کا نقشہ دیکھ کر اندر ہی اندر لرز رہی تھی۔
’’یہ تو بعد میں ہوگا۔ سردست تو مظلوم طبقے کو یہ سب اپنی جانب کھینچ رہا ہے، کیوں کہ ہمارا میڈیا بھی اسی سمت میں عوام کی ذہن سازی کررہا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ مظلوم کی دادرسی ہونی ہی چاہیے۔‘‘ کلثوم کو مردوں کے ہاتھوں دکھ اٹھاتی عورتوں کا درد تکلیف دے رہا تھا۔
’’کلثوم! ان سب باتوں سے تمہارا کیا مدعا ہے؟ کیا تم چاہتی ہو کہ یہ بل ہمارے آئین کا حصہ بن جائے؟‘‘ رقیہ نے حیرت اور افسوس کے ملے جلے لہجے میں کہا۔
’’ہرگز نہیں۔ ایسا ہوا تو ہماری عورتوں کے ساتھ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا، بلکہ دلدل میں دھنسا والا معاملہ ہوجائے گا۔‘‘ کلثوم نے اپنی بات پر زور دینے کے لیے محاورہ ہی بدل ڈالا۔
’’تو پھر…؟‘‘ رقیہ نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے پوچھا۔
’’تو پھر یہ کہ ان مسائل کا حل یورپ کے ناکام معاشرتی نظام سے لینے کے بجائے متحد ہوکر اسلام کے بابرکت معاشرتی نظام کے سائے تلے آنے میں ہے۔
رقیہ! ہمیں اپنے گھروں کے استحکام کے لیے جہاں ایسے بلوں کے خلاف کھڑا ہونا ہے، وہیں اسلامی معاشرت کے قیام کے لیے بھی اَن تھک محنت کرنی ہے، اور یہ سب صرف دینی حلقے ہی کرسکتے ہیں۔
جیسے دینی حلقوں نے اس بے ہودہ بل کے خلاف مزاحمت کی ہے، بالکل ایسے ہی سب مل کر مردوں کو ان کے قوّام ہونے کا اصل مطلب بھی سمجھائیں۔ شادی بیاہ سمیت خوشی غمی کے تمام مواقع پر غیر اسلامی رسموں اور جہیز کی لعنت کے خلاف مزاحمت ہو۔ فحاشی پھیلاتے میڈیا کے خلاف سب اکٹھے ہوں اور بھرپور عملی قدم اٹھایا جائے۔ حقِ وراثت اور حق مہر کی ادائی جیسے اہم معاملات پر مردوں کی ذہن سازی کی جائے۔ غرض اب ہمارے مردوں کو ٹھیک ٹھیک اسلامی طرزِ حیات کے مطابق اپنی عورتوں کا محافظ بننا ہو گا۔ انہیں آبگینہ سمجھتے ہوئے اپنی محبتوں کے حصار میں لینا ہو گا۔انہیں گھر کی ملکہ بنا کر اپنی نسلوں کی بہترین تربیت کو یقینی بنانا ہو گا۔‘‘ کلثوم نے اپنا نقطہ نظر واضح کیا۔
’’لیکن تم صرف مردوں کے فرائض پر ہی کیوں زور دے رہی ہو؟ عورتیں بھی تو ہر جگہ مظلوم نہیں۔ وہ بھی کئی مقامات پر کوتاہی کر جاتی ہیں۔ انہیں بھی اپنے فرائض نبھانے ہوں گے۔‘‘ رقیہ نے کہا تو کلثوم کہنے لگی: ’’ہاں بالکل! اب اسی نہج پر کام ہونا چاہیے۔ ایک طرف ان غیر فطری، غیر اسلامی بلوں کا راستہ روکا جائے اور دوسری جانب عین فطری اسلامی معاشرت کے قیام کے لیے عوام کی ذہن سازی اور تربیت کا کام ہنگامی بنیادوں پر کیا جائے۔ اس ضمن میں آگاہی مہمات و تحریکیں چلیں اور بل بھی پاس ہوں کہ میاں بیوی اپنے اپنے فرائض کو احسن طریقے سے نبھائیں۔ اپنے گھروں کو اتنا مضبوط کیا جائے کہ دشمن کی ہمارے گھر توڑنے کی ہر سازش ناکام و نامراد ہی رہے۔ آمین ثم آمین!‘‘ دونوں سہیلیوں نے یک زبان ہوکر کہا۔