آج میں زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے موضوع سے ہٹ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ بقول میرے استاد محترم محمد محسن کے کہ ہم اپنے پاکستانی بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں، ناول نویسوں، افسانہ نگاروں کو جن کا انتقال ہوچکا ہے اُن کو خراج تحسین یا خراج عقیدت پیش نہیں کرتے۔ محمد محسن آرٹس کونسل آف پاکستان کے ممبر بھی ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ میرے ساتھ مل کر یہ سلسلہ شروع کیا کہ ہم ہر 3 ماہ کے بعد کسی بھی بڑے ادیب، شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار کی یاد میں ایک شام اُس مرحوم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منعقد کرتے ہیں اور اب تک ہم نے منیر نیازی، نسیم حجازی، شوکت صدیقی، ابن صفی، الیاس رشیدی وغیرہ پر پروگرام کیےہیں۔ ابن صفی کی یاد میں جو پروگرام کیا وہ بے حد تاریخی تھا پورا ہال بھرا ہوا تھا نظامت ڈاکٹر ہما میر نے کی۔ اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ اُن کے بڑے صاحب زادے جو لاہور میں مقیم ہیں ان کا نام احمد صفی ہے وہ خصوصی دعوت پر پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لے کر آئے۔ مہمان خصوصی محترمہ شہلا رضا، صدارت محترم شکیل عادل زادہ، ایچ اقبال، ریاض احمد شیرازی، پروفیسر سحر انصاری نےکے ابن صفی کی زندگی پر روشنی ڈالی۔ محمد محسن صاحب نے اظہار خیال کے بعد حکومت سندھ سے ایک مطالبہ کیا کہ لیاقت آباد میں مرحوم ابن صفی کی رہائش تھی وہاں کی کسی بھی ایک روڈ کو مرحوم کے نام سے منسوب کیا جائے۔ جو تاحال نہیں ہوسکا، اب چلتے ہیں ابن صفی کی طرف۔ ابن صفی جناب صفی اللہ کے بیٹے تھے اور نام تھا اسرار احمد۔ اُن کے دادا الٰہ آباد کے ایک معروف شاعر تھے۔ یہ ایک ادبی گھرانہ تھا یہ ہی وجہ ہے کہ آٹھ سال کی عمر میں طلسم ہوش رُبا پڑھ چکے تھے اور جب ساتویں جماعت کے طالب علم تھے تو ممبئی کے ایک جریدے شاہد میں آپ کا پہلا افسانہ ناکام آرزو چھپا تو مدیر جناب عادل رشید نے اُن کو مصورِ جذبات کے خطاب سے نوازہ۔ ابن صفی نے اسرار ناروی کے نام سے شاعری بھی کی طنزومزاح سے بھرپور مضامین بھی لکھے۔ انھوں نے نفسیات پر بھی لکھا۔ ابن صفی کو اپنے جاسوسی طرز اسلوب کے باعث بلا مبالغہ برصغیر کے جاسوسی ادب کا ’’گوہر یکتا کہا جاسکتا ہے جو تین عشروں تک برصغیر ہندوستان اور پاکستان کے اپنے قارئین میں ایک معیاری، شہری اور عوامی زبان کی سادگی کی چاشنی سے مزین تحریروں سے پڑھنے کا شوق اجاگر کرتا رہا۔ یہ سعادت اس کے قبل کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ ابن صفی نے جاسوسی ناول نگاری میں جس انوکھے طرزِ اسلوب کو اپنایا اسی کی وجہ سے وہ مغربی فکر کے خشک اور غیر مہذب جاسوسی ناولوں سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ ابن صفی کا ہر جاسوسی ناول، تجسس، مزاح، دور اندیشی اور اخلاقی قدروں سے مزین کہانیوں کا گل دستہ نظر آتا ہے۔ ابن صفی نے جاسوسی ادب کا سلسلہ الٰہ آباد سے ’’دلیر مجرم‘‘ لکھ کر شروع کیا اور اُس میں انسپکٹر فریدی، سارجنٹ حمید کے پیشہ وار ذہین کرداروں کو متعارف کروایا اور راتوں رات مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے۔ ابن صفی نے اپنے ہر ناول میں اخلاقی معیار اور قانون کے احترام کو ملحوظ رکھا، آج آس پاس نظر دوڑائیں تو آپ کو ہر مجرم دلیر دکھائی دے گا اور شریف آدمی منہ چھپارہا ہے۔ عمران سیریز کا پہلا ناول ’’خوف ناک عمارت‘‘ تھا۔ دوسرا ناول عورت فروش کا قاتل اور چٹانوں میں فائر تھا۔ آج کے حالات پر نظر ڈالیں کہ ہمیں کئی عورت فروش نظر آئیں گے اور ہمارے سرحدی علاقوں کی چٹانوں میں فائر ہورہے ہیں اور ہر عمارت خوف ناک ہوچکی ہے۔ مغرب کی ایک شہرئہ آفاق ناول نگارا گاتھا کرسٹی نے کراچی میں ایک صحافی کے سوال جواب میں بتایا کہ وہ اردو ادب سے ناواقف ہیں لیکن برصغیر کے جاسوسی ادب کے بارے میں یہ جانتی ہوں کہ یہاں پر صرف ایک حقیقی جاسوسی ناول نگار ہے جس کا نام ابن صفی ہے۔
1952ء میں ابن صفی الٰہ آباد سے پاکستان آگئے۔ 1955ء میں ابن صفی کے تخلیقی ذہن نے عمران سیریز کے ذریعے ایک تہلکہ خیز کردار ’’عمران‘‘ کو جنم دیا جو ایسا منفرد کردار ہے جس کی دنیا کے کسی جاسوسی ادب میں مثال نہیں ملتی۔ جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے پلیٹ فارم سے ہر ماہ باقاعدگی سے بلند معیار کا جاسوسی ادب تخلیق کیا جو بیک وقت ہندوستان اور پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں چھپتا تھا اور پھر اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوتے تھے اور بلیک میں فروخت کیے جاتے۔ شہر کے گلی کوچوں میں بے شمار کتاب خانے کرائے پر ابن صفی کے ناولوں سے روزی حاصل کرتےتھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کتاب خانے بھی ختم ہوتے چلے گئے۔ بے شک ہر صاحب انصاف ادب پڑھنے والے کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ابن صفی نے تین عشروں میں اتنا زیادہ ادب تخلیق کیا کہ برصغیر کا سب سے زیادہ پڑھے جانے والا ناول نگار مشہور ہوا۔
ابن صفی کی رحلت کے بعد آج تک اُن کی جگہ کوئی پُر نہیں کرسکا۔ وہ اپنے آخری ناول کے عنوان کی طرح اپنے مخصوص طرز کا جاسوسی ادب پیش کرنے والا آخری آدمی تھا اور انہوں نے اپنے آخری ناول میں عمران کی موت بھی دکھا دی تھی اور آخری عمران سیریز کے ناول کو ان کے بیٹے نے مکمل کیا۔ آج بھی ان کے ہزاروں مداح کے پاس ان کے ناول محفوظ ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے ۔ کہ نئی نسل کو ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل سے پھیلنے والی برائیوں سے بچانے کے لیے ابن صفی کے ناولوں کی دوبارہ اشاعت کی جائے۔ اُن کی ادبی کاوش پر ریسرچ کی جائے۔یونیورسٹی میں ان کے نام سے تفتیشی ادب کا شعبہ کھولا جائے۔ اُن کے ناولوں کا انگریزی ترجمہ کیا ہو۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلز اُن کے ناولوں پر ڈرامے بنانے کی طرف توجہ دیں ۔
ابنِ صفی نے جس ادب کا آغاز کیا وہ اُن پر ہی ختم ہو گیا ہم نے اُن کو وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ حق دا ر تھے۔