ہم کیوں مسلمان ہوئے(آخری حصہ)

253

’’محمدﷺ نے کثرتِ ازدواج کے غیر محدود جوازکو محدود کر دیا۔ اکثر ممالکِ اسلامیہ میں کثرت ازدواج مستثنیات میں شامل ہے‘ لیکن اس اجازت نے بہت سے معاشرتی مفاسد کا راستہ روک دیا ہے اور اسلامی ممالک اس بان پر ان پیشہ ورنہ فاحشہ عورتوں سے تقریباً پاک ہیں جن کا وجود مسیحی دنیا کے لیے باعثِ ننگ و عار ہے۔ مسلمانوں کا طریقہ تعددِ ازدواج جو ایک سخت ضابطے کا پابند ہے‘ عورتوں کے لیے اس قدر ذلت و تحقیر اور مردوں کے لیے اتنا ضرر و نقصان کا باعث نہیں ہے جتنا ایک عورت کا بلا تفریق و امتیاز بہت سے مردوں کے ساتھ تعلق قائم کرنا انسانیت کے لیے باعثِ عار اور صحت کے اعتبار سے نقصان دہ ہے۔ انصاف کی رو سے اہل یورپ کو جن کے ہاں ایک عورت کے کئی کئی شوہر ہوتے ہیں‘ مسلمانوں پر طعنہ زن نہیں ہونا چاہیے جو بیک وقت اگر دو یا تین یا چار بیویوں کے خاوند ہوتے ہیں مگر سب کے حقوق کا تحفظ کرتے اور ان کی اولاد کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ برعکس اس کے کہ یورپ میں لاتعداد حرامی بچوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں اور یہ ہمارے معاشرے کا ناسور بنتے جا رہے ہیں۔‘‘
ان شواہد کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ نکاح کا کون سا طریقہ زیادہ قابل عمل‘ انسانی فطرت اور ضروریات کے زیادہ قریب‘ باوقار اور اخلاقی و انسانی اقدار کے مطابق ہے۔
حضراتِ گرامی! میں اسلام کی دیگر تعلیمات کا تجزیہ پیش کرکے اور دیگر مذاہب کی تعلیمات سے ان کا تقابلی موازنہ کرکے ثابت کرسکتا ہوں کہ احکامِ اسلامی میں عملی دانش اور روحانی دقتِ نظر کی آمیزش جس خوبی اور لطافت سے ہوئی ہے‘ اس کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔ لیکن اس طرح بحث خاصی طویل ہو جائے گی۔ میں بات کو سمیٹتے ہوئے سید امیر علی کی کتاب ’’اسپرٹ آف اسلام‘‘ کا ایک اقتباس پیش کروں گا۔ موصوف لکھتے ہیں ’’کسی مذہب کے ہمہ گیر ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ نوعیت کے اعتبار سے قابل عمل ہو‘ باہمی معاشرتی تعلقات کو معمول پر رکھنے میں معاون ہو اور جذبات و احساسات کا ہم صغیر ہو۔ بلاشبہ اسلام اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ اس میں اعلیٰ درجہ کے نظری مقاصد انتہا درجہ کی عقلی معمولات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اسلام نے فطرتِ انسانی کو نظر انداز نہیں کیا اور کبھی اپنے آپ کو عقائد کی ان بھول بھلیوں میں نہیں ڈالا جو واقعیت اور حقیقت کی دنیا سے باہر ہیں۔‘‘
جنابِ صدر مجلس اور برادرانِ اسلام! یہ وہ چند عملی اور نطری وجوہ ہیں جو میرے قبولِ اسلام کے محرک بنے ہیں اور یہی وہ اسباب ہیںجن کی بنا پر زمانۂ حال کے بعض مشاہیرِ یورپ کو اسلام کی حقانیت کا قائل ہونا پڑا۔ اٹھارہویں صدی میں والٹیر‘ گوئٹے اور گمن اور انیسویں صدی میں یورپ کے بہت سے علما و فضلا نے اسلام کے بارے میں جو موافقانہ آرا کا اظہار کیا‘ اس کا مختصر حوالہ بھی بات کو طویل کر دے گا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ انگلستان کے ایک جلیل القدر سیاسی و سماجی رہنما لارڈ اسٹینلے کے حالات اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ انہوں نے وفات سے تھوڑی دیر پہلے انکشاف کیا کہ عرصہ ہوا انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور مسلمان ہی کی حیثیت سے ان کی زندگی گزری ہے۔ میں آپ حضرات کو یقین دلاتا ہے کہ یورپ اورامریکا میں صدہا لوگ لارڈ اسٹینلے کے نقشِ قدم پر چلنے پر آمادہ ہیں۔ ارنسٹ رینان جیسا مدبر‘ عالم‘ محقق اور فلسفی اپنی کتاب ’’اسلام اور سائنس‘‘ میں برملا لکھتا ہے کہ ’’جب کبھی میں کسی مسجد میں داخل ہوا ہوں تو میرا دل بھر آیا اور مجھے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس وقت پشیمانی کا شدید احساس مجھے دبا لیتا ہے کہ میں مسلمان کیوں نہیں ہوں۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنی سادگی‘ معقولیت اور قابلِ عمل ہونے کی وجہ سے انسان کے سارے مسائل کا بہترین حل پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹر آف ڈیونٹی پادری مارکس ڈاڈ نے اسی لیے تو اپنی کتاب’’محمد‘ بدھ اور مسیح‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’مذہبِ اسلام کی سادگی نے اس کی غیر معمولی اشاعت و وسعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اَن پڑھ اور جاہل لوگوں نے بھی اس کی تعلیمات کو فوراً سمجھ لیا۔ یہ ایک ایسا مذہب ہے جس سے عقلِ انسانی کو فطری مناسبت ہے اور جس نے مشرکین کے دلوں میں بھی اپنی طرف سے تنفر پیدا نہیں کیا۔ جن لوگوں کو مابعدالطبعی الٰبیات کے پیچیدہ مسائل میں تلاشِ حق کے معاملے میں مایوسی ہو چلی تھی‘ وہ پرسکون ہو گئے کہ انہیں ایک سیدھا سادا مذہب مل گیا ہے جسے سمجھنے میں انہیں کوئی الجھن اور دقت پیش نہیں آتی۔‘‘ (صفحہ: 107, 106)
چنانچہ اب ہم سب مسلمانوںکا فرض ہے کہ ہم اٹھیں اور اس سادہ‘ سہل‘ فطری اور قابلِ عمل دین کو باقی دنیا تک پہنچائیں۔ بحمدللہ میں نے عزم کر لیا ہے کہ میں اس فریضے کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ انجام دوں گا۔
پس اے برادرانِ اسلام! مجھے ایک رفیق‘ ایک بھائی اور ایک خادم کی حیثیت سے اپنے دائرۂ اخوت میں شامل کرکے میری حوصلہ افزائی کیجیے‘ شکریہ۔

حصہ