چند سال قبل میکس ملر کے تصانیف کے گہرے مطالعے نے مجھے بہ خوبی سکھا دیا تھا کہ مختلف زبانوں اور مذاہب کا مطالعہ سائنٹیفک انداز میں کیسے کیا جاتا ہے چنانچہ رینان کی کتابوں نے میرے اندر سامی مذاہب اور زبانوں سے دل چسپی پیدا کی تو میں نے ارادہ کر لیا کہ میں دنیا کے تمام بڑے مذاہب یعنی یہودیت‘ عیسائیت‘ مجوسیت‘ بدھ مت اور اسلام کا خوب توجہ سے مطالعہ کروں گا اور تقابلی موازنہ کرکے دیکھوں گا کہ ان میں سے نسبتاً کون سا مذہب زیادہ خوبیاں رکھتا ہے۔
اس مطالعے کی روشنی میں آغاز میں کچھ عرصے کے لیے میں عیسائیت کو سامی اور آرین مذاہب کا مرکزِ اتصال سمجھتا رہا اور اگر پاپائے اعظم کا معصوم عن الخطا ہونے اور عشائے ربانی اور اسی نوعیت کے بعد دیگر عقائد جنہیں میں اپنی جرمن تعلیم کے تحت قطعی لایعنی اور بے بنیاد سمجھتا تھا‘ میرے راستے میں حائل نہ ہوتے تو میں رومن کیتھولک عیسائی ہو گیا ہوتا۔
مطالعے کا یہ اسلوب جاری تھا کہ میں واپس ہندوستان آگیا اور حیدرآباد میں ملازمت کا آغاز کیا۔ یہاں آکر پہلے میں نے مذہبِ زرتشت یعنی مجوسیت پر تحقیق کی اور پھر اسلام کا مطالعہ شروع کیا۔ اس کے لیے میں نے حیدرآباد کی معروف لائبریریوں کے علاوہ شمس العلما مولوی سید علی بلگرامی اور مولوی چراغ علی صاحب کے کتاب خانوںسے بھی بھرپور استفادہ کیا اور خدا کا شکر ہے کہ سالہا سال تک متناقض عقائد اور متضاد مذاہب و فلسفہ کی دلدلوں میں ٹھوکریں کھانے کے بعد میری تھکی ہاری روح کو قرار آگیا اور مذہبِ اسلام کی صورت میں اسے وہ منزل مل گئی جس کی تلاش میں وہ ایک عرصے سے بھٹک رہی تھی۔ میں نے قرآن کا اور پیغمبرِ اسلامؐ کی سیرت کا مطالعہ کیا اور مجھے ان سارے سوالات کے جوابات مل گئے جو برسہا برس سے مجھے پریشان کیے ہوئی تھے اور کسی مذہب اور فلسفہ نے مجھے ان کے سلسلے میں مطمئن نہیں کیا تھا۔ مجھے ایک سادہ‘ سریع الفہم‘ عقل کے عین مطابق اور بے حد قابلِ عمل مذہب گیا۔ دینِ اسلام نے میرے دل و دماغ کو مسخر کر لیا اور میں آپ کی برادری کا ایک رکن بن گیا۔
حاضرینِ گرامی! مذہب اسلام کی پہلی خصوصیت جس نے مجھے غیر معمولی انداز میں متاثر کیا وہ اس کی تاریخی حیثیت ہے۔ اس مذہب کی بنیاد ایک ایسی کتاب پر استوار ہے جس میں صدیاں گزر جانے کے باوجود آج تک معمولی سی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اس کتاب کو قصوں‘ کہانیوں‘ غیر مربوط پیش گوئیوں اور شاعرانہ انداز کی سوانح عمریوں کا ایک غیر متجانس مجموعہ سمجھنا چاہیے جو مختلف زمانوں میں ترتیب دیا گیا‘ جس کی الگ الگ اور متعدد مصنف تھے اور جس کوایک سانچہ میں خدا جانے کب اور کس طرح ڈھال لیا گیا بلکہ یہ کتاب ایک صحیفۂ واحد ہے اور اس میں ایسا حیرت انگیز تسلسل اور یک رنگی ہے کہ کوئی بھی غیر متعصب اور منصف مزاج انسان اس کے برحق ہونے میں شبہ نہیں کرسکتا۔ پھر اس کا پرشکوہ مگر سادہ اسلوب‘ انسانی نفسیات کے عین مطابق مسائل کا ادراک اور مادی و روحانی معاملات میں انسان کی مکمل اور قابل عمل رہنمای‘ اسے ایک ابدی رہنما کتاب ماننے پر مجبور کرتی ہے۔
اسلام کا دوسرا سرچشمۂ ہدایت اس کا نبیؐ ہے جس کا تاریخی وجود محقق و مسلم ہی نہیں بلکہ جس کی زندگی کی تمام ضروری تفصیلات اس کی شکل و شمائل‘ عادات و خصائل یہاں تک کہ ذاتی خصوصیات کا ہمیں ایسا ہی علم ہے جیسا آلیور کرامویل یانپولین بونا پورٹ کے بارے میں۔ عیسائیت اور دیگر مذاہب کے مصنفین اس عظیم ہادی و رہبر پر کیچڑ اچھال سکتے ہیں‘ اسے برا بھلا کہہ سکتے ہیں لیکن اس کے تاریخی وجود پر شک کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا۔ یہ حقیقت ثابت شدہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام کی زندگی کے بارے میں کوئی بات مبہم اور دھندلی نہیں‘ نہ پراسرار یا دیومالائی ہے جیسا کہ مثال کے طور پر زرتشت‘ سری کرشن حتیٰ کہ بدھ اور مسیحؑ کی زندگیاں نظر آتی ہیں۔ بعض دیگر پیغمبروںکے وجود تک کے بارے میں اہل علم نے شکوک و شبہات بلکہ انکارکا اظہار کیا ہے‘ مگر جہاں تک میں جانتا ہوں کسی شخص نے بھی پیغمبرِ اسلام کے بارے میں یہ کہنے کی جسارت نہیں کی کہ وہ توہماتی شخصیت ہیں یا وہ جنوں پریوں کی داستان سے مشابہ ہیں۔ یہ امر کس قدر موجب تسکین ہے کہ آخر کار انسان کو صحیح معنوں میں ایک ایسا پیغمبر مل جائے جس کی تاریخ شہادت دیتی ہو اور جس پر وہ ایمان لاسکے۔
اسلام کی یہ تاریخی بنیاد ایسی ہے کہ ارفسٹ رینان جیسا متشکک فلسفی اور مورخ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس نے اپنی مشہور کتاب ’’تاریک مذاہب‘‘ (صفات 220 تا 230) میں اس حوالے سے دینِ اسلام کی خوب تحسین کی ہے۔ پروفیسر باسورتھ سمتھ بھی اس اعتبار سے رینان کا ہم سفیر ہے‘ وہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور دین ِا سلام پر اپنے لیکچرز میں لکھتا ہے:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں مسیح کی زندگی کے ایک حصہ کے صرف چند اجزا معلوم ہیںیعنی صرف آخری تین سال کی کچھ تفصیلات جب کہ باقی تیس سال کا عرصہ ہماری نگاہوں سے بالکل مستور ہے۔ لیکن اسلام کی حالت راس کے بالکل برعکس ہے یہاں موہوم اور مبہم واقعات کے بجائے تاریخ کی بھرپور روشنی نطر آتی ہے۔ ہمیں محمدؐ کے حالات اس قدر معلوم ہیں کہ جس قدر لوتھر اور ملٹن کے۔ مصنوعی‘ روایتی اور فوق العادت واقعات اول تو عرب مصنفین کی کتابوں میں پائے ہی نہیں جاتے اور اگر شاذ نادر یہ نظر بھی آتے ہیں تو ان میں اور تاریخی حقائق میں فرق کیا جاسکتا ہے۔ یہاں نہ تو کوئی شخص خود اپنے آپ کو فریب دیتا ہے اور نہ دوسروں کا فریب کھاتا ہے۔ ہر چیز روز روشن کی طرح مصفا و منقح ہے۔ قرآن کے سارے الفاظ بلاشک و شبہ بغیر کسی کسر یا اضافہ کے بعینہ محمدؐ کے الفاظ ہیں۔ ہم ایک مذہب کا طلوع ہونا اور اس کا نشوونما پانا اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔‘‘
اس ضمن میں کارلائل کی شہادت بھی پیش کروں گا۔ یورپ کا یہ عظیم اوربے حد معتبر مؤرخ اپنی کتاب ’’ہیروز اینڈ ہیروورشپ‘‘ میں لکھتا ہے:
’’قرآن کو پڑھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کتاب کی سب سے پہلی خصوصیت اس کا حقیق‘ اصلی اور بے میل ہونا ہے۔ میری دانست میں قرآن کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ یہ ہر لحاظ سے سچا ہے۔‘‘
حضراتِ محترم! دوسرا سبب جس نے مجھے اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی‘ یہ ہے کہ یہ مذہب نہایت ہی عقل کے مطابق ہے۔ عیسائیت کی طرح اسلام میں ہمیں انتالیس ارکان پر ایمان نہیں لانا پڑتا جن میں ایسے ایسے معتقدات بھرے پرے ہیں کہ نہ عقل ان کا ادراک کرتی ہے نہ شعور ان کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام میں صدقِ دل سے صرف ایک سیدھے سادے قول کو تسلیم کرنا پڑتا ہے اور وہ ہے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ یعنی ’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ اور یہ ایسی بات ہے کہ ایک عام عقل کے آدمی سے لے کر عالم اور فلسفی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور ایک معمولی انسان سے لے کر بادشاہِ وقت تک اس کے تقاضوں پر عمل کرسکتا ہے۔ توحیدِخداوندی گویا اسلام کی جان ہے اور ہر صحیح الدماغ اور معتدل حواس کا انسان جس کی قوتِ ممیزہ کسی وجہ سے مسخ نہ ہوگئی ہو اور ہر وہ شخص جو ضدی قسم کا ملحد اور زندیق نہ وہ‘ خالقِ کائنات کی وحدت کا انکار نہیں کرسکتا۔ اسلام ہمیں مسیحی اکابر کی طرح تثلیث فی التوحید کا درس نہیں دیتا یا ہندو مت کی مانند تین کروڑ دیوتائوں اور دیویوں کی پرستش کی ترغیب نہیں دیتا بلکہ خدائے یکتا کی وحدانیت کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ خدا جو خالقِ کون و مکاں ہے‘ جو عالم الغیب و الشہادہ ہے‘ وہ جو حکیمِ مطلق اور رحمن و رحیم ہے۔ اس کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کی تلقین بھی کی گئی ہے کہ آپؐ کی رہنمائی کے بغیر دینی تعلیمات کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ کارلائل نے ’’ہیروز اینڈ ہیروورشپ‘‘ میں انہیں جس طرح خراج عقیدت پیش کیا ہے اس کا ایک اقتباس پیش کر رہا ہوں:
’’منصبِ نبوت پر فائز ہونے سے قبل ہی اس سیاہ چشم‘ روشن جبیں‘ فراخ حوصلہ‘ کریم النفس‘ محفل پسند اور درد بھرے‘ مخلص بادیہ نشیں کے خیالات جاہ طلبی سے کوسوں دور تھے۔ اس شخص کی متانت میں عظمت نظر آتی تھی اور اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو سچائی کی علمبردار اور فطرتاً بے لوث اور صداقت شعار ہوتے ہیں۔ دوسرے لوگ سنی سنائی توہمانہ باتوں کو اپنا مسلک قرار دے کر اپنے دل کو مطمئن کر لیتے تھے مگر محمدؐ کی تسکین اس انداز کی باتوں سے نہیں ہوتی تھی۔ وہ قابلِ احترام شخص عرصۂ کائنات میں واقعی اکیلا کھڑا تھا اور اس کا دماغ اس نوعیت کے ہزاروں خیالات سے بھرا رہتا تھا کہ میں کیا ہوں؟ یہ دنیا کیا ہے‘ زندگی اور اس کا مدعا کیا ہے؟ موت کیا ہے؟ میں مانوں تو کیا مانوں اور کروں تو کیا کروں؟ ان سوالات کے ساتھ وہ کوہِ حرا کی ہیبت ناک چٹانوں اور ریگستانوں کی درشت تنہائیوں میں سرگرداں رہا اور آخر کار اسے ان کا جواب مل گیا‘ خدا کی الہامی قوت نے اسے انسانوں کی رہنمائی کے لیے چن لیا۔‘‘
چنانچہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کے یہ دونوں بنیادی ارکان یعنی توحید اور رسالت جن کے اقرار سے ایک انسان مسلمان ہوتا ہے‘ ہماری عقل و دانش کا اعلیٰ ترین تقاًضا ہیں۔ یہ بات اوورڈنائٹل جیسے مسیحی مصنف نے بھی تسلیم کی ہے۔ چنانچہ موصوف اپنی کتاب ’’تبلیغ دین مسیحی اور اس کے مسلمان حریف‘‘ میں لکھتاہے کہ مذہب اسلام لفظ معقول (Rational) کے وسیع ترین معنوں میں اصطلاحی و تاریخی اعتبار سے معقول ہے۔ معقولات کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ یہ وہ طریقۂ خیال ہے جو مذہبی عقائد کو اصولِ عقلی پر مبنی قرار دیتا ہے اور یہ تعریف اسلام پر پوری طرح سے صادق آتی ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک اسلام یہ ہے کہ خدا کی وحدانیت اور اس کے رسول کے بر حق ہونے کی تصدیق کی جائے اور یہ دو امور ایسے ہیں جو ایک منصف مزاج شخص کی نظر میں عقل کی مستحکم بنیاد پر استوار ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کو تبلیغ اسلام کی کوششوں میں جو غیر معمولی کامیابی ہوئی اس کے اسباب یہ ہیں اولاً اس مذہب کا اعلان جس یقین و وثوق‘ صدق و صفا‘ عظمت و شان اور جاہ و جلال سے کیا جاتا ہے‘ اس کی نظیر کسی دوسرے مذہب میں نظر نہیں آتی۔ ثانیاً جس کلمہ کو اسلام کی بنیاد بنایا گیا ہے وہ بے حد سادہ اور عقل کے مطابق ہے۔ ثالثاً جن بزرگانِ دین نے اسلام کی تبلیغ کی ان کے دل میں اسلام کی صداقت اور حقانیت کا پرجوش اور والہانہ یقین اور اس یقین کا ان کے دعوے میں ممدومعاون ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو مذہب ایسا صاف‘ فقہی پیچیدگیوں سے اس درجہ آزاد اور عقل کی رسائی کے اندر ہو‘ اس میں انسان کی قوتِ ممیزہ پر قابو پانے کی حیرت انگیز استعداد ہونی چاہیے۔‘‘
تیسری وجہ میرے قبولِ اسلام کی یہ ہے کہ یہ مذہب ہر اعتبار سے قابلِ عمل ہے‘ اس کا اخلاقی ضابطہ فطرتَ انسانی کی حقیقی ضروریات پر مبنی ہے اور نیکی کے کسی ایسے وہمی و خیالی اور مبالغہ آمیز معیار کو نہیں مانتا جو ناممکن الحصول اور ناقابلِ عمل ہو۔ دوسرے مذاہب مثلاً بدھ مت اور عیسائیت نے جو معیارِ خیر مقرر کیا ہے وہ ایک لحاظ سے بظاہر اسلام کے مقابلے میں اعلیٰ و ارفع قرار دیا جاسکتا ہے‘ مثلاًبائبل کے اس مقولہ کی شاعرانہ لطافت کی جی بھر کر تحسین کی جاسکتی ہے کہ ’’اگر تیرا بھائی تیرے داہنے گال پر ایک تھپڑ مارے تو اپنا بایاں گال بھی اس کی طرف پھیر دے۔‘‘ لیکن میں یہ پوچھتا ہوں کہ پوری مسیحی دنیا میں کوئی ایک فرد بھی اس پر عمل کرتا ہے؟ اور آیا روز مرہ کی زندگی میں اس کے مطابق عمل کرنا ممکن بھی ہے؟ لیکن اخلاقی ضابطے کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے ہمیں اس کے شاعرانہ حسن پر نظر نہیں ڈالنی چاہیے بلکہ اس کی عملی سود مندی کے حوالے سے دیکھنا چاہیے کہ یہ ضابطہ ہماری فطرت کی ضروریات کو پورا کرتا ہے یا نہیں؟ ایمرسن نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’سیارہ سیرسن آفتاب سے اونچا ہوا کرے‘ مجھے اس سے کیا‘ میرے انگور تو اس سے نہیں پکتے۔‘‘ قصوں اور افسانوں سے ممکن ہے ہمیں ایسے اشخاص سے سابقہ پڑے جو اپنے کمال درجہ کے خیالی اوصاف کے اعتبار سے ہماری تعریف و توصیف کے مستحق ہوں‘ مگر روز مرہ زندگی کی بے پناہیوں میں اس قسم کے ’’کمالات‘‘ قطعی بے سود ہیں۔
نظریہ اور عمل کے حوالے سے تجرد اور مناکحت کے مسائل ہی کو لیجیے۔ بدھ مت اور عیسائیت دونوں نے اگرچہ ازدواج کو جائز قرار دیا ہے‘ لیکن تجرد کو بہرحال ترجیح دی ہے۔ برخلاف اس کے اسلام تجرد کو ہرگزجائز نہیں سمجھتا بلکہ مناکحت کو مذہبی فریضہ قرار دیتا ہے جس کا ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ازدواج کے اس لازمی طریقہ کی بدولت جس کے ساتھ خوش حال اور متمول لوگوں میں کہیں کہیں تعدادِ ازدواج کی رسم بھی دیکھنے میں آتی ہے‘ پورے عالم اسلام میں طوائفوں اور بازاری عورتوں کی تعداد لندن‘ پریسی‘ ویانا اورسینٹ پیٹرزبرگ کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہے جہاں گلیوں‘ بازاروں میں یہ مخلوق آزادانہ اپنی کارروائیوں میں مصروف رہتی ہے۔اسی تناظر میں اینگلیکن چرچ کی ایم معروف رکن پادری آئزک تیلر نے 7 اکتوبر 1887ء کو والور ہمپٹن میں ایک مذہبی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے صاف گوئی اور جرأت مندی سے کہا تھا:
(جاری ہے)
’’محمدؐ نے کثرتِ ازدواج کے غیر محدود جوازکو محدود کر دیا۔ اکثر ممالکِ اسلامیہ میں کثرت ازدواج مستثنیات میں شامل ہے‘ لیکن اس اجازت نے بہت سے معاشرتی مفاسد کا راستہ روک دیا ہے اور اسلامی ممالک اس بان پر ان پیشہ ورنہ فاحشہ عورتوں سے تقریباً پاک ہیں جن کا وجود مسیحی دنیا کے لیے باعثِ ننگ و عار ہے۔ مسلمانوں کا طریقہ تعددِ ازدواج جو ایک سخت ضابطے کا پابند ہے‘ عورتوں کے لیے اس قدر ذلت و تحقیر اور مردوں کے لیے اتنا ضرر و نقصان کا باعث نہیں ہے جتنا ایک عورت کا بلا تفریق و امتیاز بہت سے مردوں کے ساتھ تعلق قائم کرنا انسانیت کے لیے باعثِ عار اور صحت کے اعتبار سے نقصان دہ ہے۔ انصاف کی رو سے اہل یورپ کو جن کے ہاں ایک عورت کے کئی کئی شوہر ہوتے ہیں‘ مسلمانوں پر طعنہ زن نہیں ہونا چاہیے جو بیک وقت اگر دو یا تین یا چار بیویوں کے خاوند ہوتے ہیں مگر سب کے حقوق کا تحفظ کرتے اور ان کی اولاد کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ برعکس اس کے کہ یورپ میں لاتعداد حرامی بچوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں اور یہ ہمارے معاشرے کا ناسور بنتے جا رہے ہیں۔‘‘
ان شواہد کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ نکاح کا کون سا طریقہ زیادہ قابل عمل‘ انسانی فطرت اور ضروریات کے زیادہ قریب‘ باوقار اور اخلاقی و انسانی اقدار کے مطابق ہے۔
حضراتِ گرامی! میں اسلام کی دیگر تعلیمات کا تجزیہ پیش کرکے اور دیگر مذاہب کی تعلیمات سے ان کا تقابلی موازنہ کرکے ثابت کرسکتا ہوں کہ احکامِ اسلامی میں عملی دانش اور روحانی دقتِ نظر کی آمیزش جس خوبی اور لطافت سے ہوئی ہے‘ اس کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔ لیکن اس طرح بحث خاصی طویل ہو جائے گی۔ میں بات کو سمیٹتے ہوئے سید امیر علی کی کتاب ’’اسپرٹ آف اسلام‘‘ کا ایک اقتباس پیش کروں گا۔ موصوف لکھتے ہیں ’’کسی مذہب کے ہمہ گیر ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ نوعیت کے اعتبار سے قابل عمل ہو‘ باہمی معاشرتی تعلقات کو معمول پر رکھنے میں معاون ہو اور جذبات و احساسات کا ہم صغیر ہو۔ بلاشبہ اسلام اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ اس میں اعلیٰ درجہ کے نظری مقاصد انتہا درجہ کی عقلی معمولات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اسلام نے فطرتِ انسانی کو نظر انداز نہیں کیا اور کبھی اپنے آپ کو عقائد کی ان بھول بھلیوں میں نہیں ڈالا جو واقعیت اور حقیقت کی دنیا سے باہر ہیں۔‘‘
جنابِ صدر مجلس اور برادرانِ اسلام! یہ وہ چند عملی اور نطری وجوہ ہیں جو میرے قبولِ اسلام کے محرک بنے ہیں اور یہی وہ اسباب ہیںجن کی بنا پر زمانۂ حال کے بعض مشاہیرِ یورپ کو اسلام کی حقانیت کا قائل ہونا پڑا۔ اٹھارہویں صدی میں والٹیر‘ گوئٹے اور گمن اور انیسویں صدی میں یورپ کے بہت سے علما و فضلا نے اسلام کے بارے میں جو موافقانہ آرا کا اظہار کیا‘ اس کا مختصر حوالہ بھی بات کو طویل کر دے گا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ انگلستان کے ایک جلیل القدر سیاسی و سماجی رہنما لارڈ اسٹینلے کے حالات اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ انہوں نے وفات سے تھوڑی دیر پہلے انکشاف کیا کہ عرصہ ہوا انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور مسلمان ہی کی حیثیت سے ان کی زندگی گزری ہے۔ میں آپ حضرات کو یقین دلاتا ہے کہ یورپ اورامریکا میں صدہا لوگ لارڈ اسٹینلے کے نقشِ قدم پر چلنے پر آمادہ ہیں۔ ارنسٹ رینان جیسا مدبر‘ عالم‘ محقق اور فلسفی اپنی کتاب ’’اسلام اور سائنس‘‘ میں برملا لکھتا ہے کہ ’’جب کبھی میں کسی مسجد میں داخل ہوا ہوں تو میرا دل بھر آیا اور مجھے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس وقت پشیمانی کا شدید احساس مجھے دبا لیتا ہے کہ میں مسلمان کیوں نہیں ہوں۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنی سادگی‘ معقولیت اور قابلِ عمل ہونے کی وجہ سے انسان کے سارے مسائل کا بہترین حل پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹر آف ڈیونٹی پادری مارکس ڈاڈ نے اسی لیے تو اپنی کتاب’’محمد‘ بدھ اور مسیح‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’مذہبِ اسلام کی سادگی نے اس کی غیر معمولی اشاعت و وسعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اَن پڑھ اور جاہل لوگوں نے بھی اس کی تعلیمات کو فوراً سمجھ لیا۔ یہ ایک ایسا مذہب ہے جس سے عقلِ انسانی کو فطری مناسبت ہے اور جس نے مشرکین کے دلوں میں بھی اپنی طرف سے تنفر پیدا نہیں کیا۔ جن لوگوں کو مابعدالطبعی الٰبیات کے پیچیدہ مسائل میں تلاشِ حق کے معاملے میں مایوسی ہو چلی تھی‘ وہ پرسکون ہو گئے کہ انہیں ایک سیدھا سادا مذہب مل گیا ہے جسے سمجھنے میں انہیں کوئی الجھن اور دقت پیش نہیں آتی۔‘‘ (صفحہ: 107, 106)
چنانچہ اب ہم سب مسلمانوںکا فرض ہے کہ ہم اٹھیں اور اس سادہ‘ سہل‘ فطری اور قابلِ عمل دین کو باقی دنیا تک پہنچائیں۔ بحمدللہ میں نے عزم کر لیا ہے کہ میں اس فریضے کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ انجام دوں گا۔
پس اے برادرانِ اسلام! مجھے ایک رفیق‘ ایک بھائی اور ایک خادم کی حیثیت سے اپنے دائرۂ اخوت میں شامل کرکے میری حوصلہ افزائی کیجیے‘ شکریہ۔