بڑا کھلا اور چوڑا میدان تھا۔ اس میں ہر طرف ہری ہری گھاس تھی۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کھاتا اور آزادی سے وہ جدھر چاہتا، جاتا۔ نہ کوئی روک نہ ٹوک۔ ایک دن گھوڑے نے دیکھا کہ میدان میں کہیں سے ایک ہرن آدھمکا اور ہری ہری نرم گھاس کو روندنے لگا۔ گھوڑے کو بڑا غصہ آیا۔ سوچا کہ میرے میدان میں آنے والا یہ کون ہے؟ اسے کسی طرح یہاں سے نکالنا چاہیے۔ مگر نکالے کیسے؟
اتنے میں سامنے سے ایک شکاری آتا نظر آیا۔ گھوڑے نے کہا ’’شکاری میاں! مجھ پر ایک احسان کرو۔ یہ ہرن نہ جانے کدھر سے یہاں آدھمکا ہے۔ میرے میدان کی گھاس کو روندے ڈالتا ہے۔ اگر اسے کسی طرح یہاں سے نکال دو تو زندگی بھر تمہارا احسان نہ بھولوں گا۔“
شکاری بولا ’’یہ کون سا مشکل کام ہے! مگر ایک شرط ہے۔ مجھے اپنی پیٹھ پر بیٹھ جانے دو، یہ لگام اپنے منہ میں ڈال لو، پھر دیکھو کیا ہوتا ہے۔‘‘
گھوڑا راضی ہوگیا۔ شکاری نے لگام گھوڑے کے منہ میں ڈالی اور اس کی پیٹھ پر سوار ہوگیا، اور جدھر ہرن تھا، اُس طرف چلا۔ ہرن گھوڑے کو آتا دیکھ کر بھاگا، شکاری نے گھوڑا اس کے پیچھے ڈال دیا۔ آگے ہرن، پیچھے گھوڑا۔ تھوڑی دیر میں ہرن میدان سے باہر نکل گیا۔
گھوڑے نے مڑ کر شکاری کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں احسان مندی کی چمک تھی، بولا ’’میاں شکاری! کس دل سے تمہارا شکریہ ادا کروں، کہ تم نے میرا میدان مجھے دلوایا، اب یہاں سوائے میرے اور کوئی نہیں۔ یہ گھاس، یہ ہوا، یہ آزادی سب میرے ہیں۔ ان میں کوئی دوسرا نہیں۔‘‘
شکاری بولا ’’تمہاری بات بالکل ٹھیک ہے، مگر اب میری نیت بدل گئی ہے، مجھے آج سے پہلے معلوم ہی نہیں تھا کہ تم اتنے کام کے جانور ہو۔ اب تو میں تمہیں اپنے ساتھ لے چلوں گا۔ وہاں تم آزادی سے رہنا۔‘‘
گھوڑے نے یہ بات سنی تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ حسرت سے میدان پر نگاہ ڈالی اور جدھر شکاری نے باگ موڑ دی اُسی طرف کو چل پڑا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن… اس کے منہ میں آدمی کی ڈالی ہوئی لگام ہے، اور وہ انسان کا غلام۔ اس کے ہرے بھرے میدانوں پر ہرن کا قبضہ ہے۔