کراچی پریس کلب کے زیر اہتمام جاذب قریشی کا تعزیتی ریفرنس

192

15 جولائی کو جب کراچی میں بارش ہورہی تھی، اس وقت شام 7 بجے کراچی پریس کلب میں جاذب قریشی کے شیدائی ان کے تعزیتی ریفرنس میں حاضر تھے۔ جاذب قریشی کا انتقال رواں سال 22 جون کو ہوا تھا۔ مرحوم کے لیے کئی تعزیتی اجلاس ہوئے۔ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی نے بھی جاذب قریشی کے لیے تعزیتی اجلاس کا اہتمام کیا، جس کی صدارت سعید الظفر صدیقی نے کی، جبکہ راشد نور نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مقررین میں علاء الدین خانزادہ، ڈاکٹر رخسانہ صبا، خالدہ معین، اختر سعیدی، راقم الحروف نثار احمد، اویس انصاری، طارق جمیل اور جنید صابر شامل تھے۔ راشد نور نے کہا کہ جاذب قریشی محبتوں کے سفیر تھے، وہ نثرنگار بھی تھے اور شاعر بھی، انہوں نے غزل میں نئے نئے استعارے اور تراکیب استعمال کیں اور ایک دن آیا جب لوگوں نے قادرالکلام تسلیم کرلیا، اور ان کے ایجاد کردہ استعارے اور تراکیب مختلف شعرائے کرام استعمال کررہے ہیں۔ جاذب قریشی کے صاحبزادے جنید صابر نے کہا کہ ہماری پہلی والدہ شہناز بیگم کے انتقال کے بعد سے ہمارے والد نے ماں اور باپ بن کر ہماری تربیت اور پرورش کی۔ میری پہچان یہ ہے کہ میں ایک بڑے باپ کا بیٹا ہوں۔ میرے والد ایک توانا سایہ دار شجر تھے، ہم سب بہن بھائیوں نے اس شجر کی چھائوں میں زندگی بسر کی۔ انہوں نے اپنی بیماری سے جنگ لڑی لیکن موت کے آگے بے بس ہوگئے اور ہمیں روتا چھوڑ گئے۔
طارق جمیل نے کہا کہ ہم آج ایک اچھے انسان کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں، حکومتی سطح پر جاذب قریشی کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ حق دار تھے۔ انہوں نے مال و دولت کے بجائے عزت و شہرت کمائی۔ ان کی عملی زندگی چار برس سے شروع ہوگئی تھی جب والد کے انتقال کے بعد انہیں روزگار کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنی محنت سے آگے بڑھتے رہے اور مختلف شعبوں میں نام کمایا، تاہم بہ حیثیت شاعر و نقاد انہوں نے قابلِ ستائش نام پایا- راقم الحروف نثار احمد نے کہا کہ جاذب قریشی نے نثر اور نظم میں کارہائے نمایاں انجام دیے، وہ جدید حسیت اور علامتی اسلوب کے باکمال شاعر تھے، ان کے ہاں عصری میلانات کا عکس نئے آہنگ کے ساتھ ملتا ہے، وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، انہوں نے عہدِ حاضر میں جدید غزل کو جدید تر بنایا، ان کی شاعری کی تشبیہات اور استعاروں کا جدید انداز ہمیں نئے معانی و مفاہیم کی سیر کرانا ہے، وہ غیر جانب دار نقاد تھے، انہوں نے ایک فلم بھی بنائی تھی جس میں ان کے تین لاکھ روپے ڈوب گئے، یہ رقم اُس زمانے میں ایک بڑی رقم تھی، یہ بات 1974ء کی ہے۔ لاہور سے کراچی آنے کے بعد انہوں نے ایک پرائمری اسکول میں بچوں کو تعلیم بھی دی، وہ علم و ادب سے جڑے رہے اور مرتے دم تک انہوں نے ادب کی آبیاری کی۔
خالد معین نے کہا کہ کراچی پریس کلب تمام قلم کاروں کے لیے کام کررہا ہے، یہاں ادبی تقاریب کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، آج اس ادارے نے جاذب قریشی کے لیے ایک اہم اجلاس بلایا ہے، میں امید کرتا ہوں کہ کراچی پریس کلب ’’یادِرفتگاں‘‘ کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جاذب قریشی ایک بہت بلند قامت قلم کار تھے، ان کی شاعری کو ہم چار ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں، ان کی شاعری کا پہلا دور اُن کی کتاب ’’شناسائی‘‘ سے شروع ہوتا ہے جس میں انہوں نے چونکا دینے والی نثر اور نظم لکھی، لیکن جس شعری مجموعے نے ان کی شناخت بنائی اُس کا نام ’’پہچان‘‘ ہے۔ سلیم احمد کا گھر وہ ایک اہم ادارہ تھا جہاں جاذب قریشی نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ سلیم احمد نے جاذب قریشی کو پروموٹ کیا، انہوں نے جاذب پر مضامین بھی لکھے۔ جاذب قریشی نے اپنے عمل و کردار سے اپنے مخالفین کو شکست دی، انہوں نے نئے نئے الفاظ اور علامت نگاری کی شاعری کی، انہوں نے اپنی الجھنوں کو شاعری میں لکھا اور دوسروں کے غم و درد بھی بیان کیے۔ انہوں نے سہلِ ممتنع بھی لکھا۔ یہ ان کی شاعری کا دوسرا دور تھا۔ انہوں نے مختلف ادوار کو اپنی شاعری میں ڈھالا، وہ ہر زمانے کے مزاج کے مطابق اشعار کہتے تھے اور مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔ علاء الدین خانزادہ نے کہا کہ جاذب قریشی کے لیے آج کی یہ تقریب بہت چھوٹی ہے، ان کے لیے بڑا پروگرام ہونا چاہیے۔ اس موقع پر انہوں نے جاذب قریشی اور دیگر مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کرائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جاذب قریشی نے اردو زبان و ادب کے لیے جو کام کیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے، انہوں نے جواں نسل قلم کاروں کی بہت حوصلہ افزائی کی اور ان پر جتنے مضامین جاذب قریشی نے لکھے ہیں آج تک کسی دوسرے قلم کار نے نہیں لکھے، ان کی تنقید سچی اور کھری ہوتی تھی، وہ پوری کتاب پڑھ کر مضمون لکھا کرتے تھے، ان کی شاعری میں زندگی رواں دواں ہے، وہ دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے، اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔
اختر سعیدی نے کہا کہ 2021ء میں بہت سے قلم کار ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، اب ہمارا شہر ادبی طور پر قلاش ہوگیا ہے، جو قلم کار باقی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں صحت و سلامتی کی زندگی عطا فرمائے، ہم ان سے استفادہ کرتے رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جاذب قریشی نے کوچۂ ادب میں طویل زندگی گزاری اور انفرادی شاعری کے سبب اپنی پہچان بنائی۔ انہوں نے افسانے اور ڈرامے بھی لکھے، لیکن شاعری اور تنقید نگاری میں جو کمال انہوں نے دکھایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ڈاکٹر رخسانہ صبا نے کہا کہ جاذب قریشی کے اندر ایک زندہ مصور موجود تھا، انہوں نے اپنے اشعار میں مصوری کی اور زندگی کے تمام رنگ پیش کیے، جس نے انہیں دوسرے شعرا سے ممتاز کیا۔ جاذب قریشی پر بہت سے اہم قلم کاروں نے مضامین لکھے ہیں جو کتابی شکل میں اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ اس موقع پر رخسانہ صبا نے بہت سے قلم کاروں کے اقتباسات پڑھ کر سنائے جس سے جاذب قریشی کی عظمت کا اظہار ہورہا تھا۔ صاحب ِصدر نے کہا کہ ہم اس اجلاس کے توسط سے حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ جاذب قریشی کو صدارتی ایوارڈ دیا جائے۔

حصہ